غالب نہ شود شیوہ من قافیہ بندی
ظلمیست کہ بر کلک ِ ورق می کنم امشب
۰۰۰
صفحۂ قرطاس پر بکھرے ہوئے الفاظ نا بینا تھے شاید
ڈکمگاتے، گرتے پڑتے
کچھ گماں اور کچھ یقیں سے آگے بڑھتے
پیچھے ہٹتے
اپنے ’ہونے‘ کی شہادت ڈھونڈتے تھے
کس طرف جائیں،کہاں ڈھونڈیں
کوئی مفہوم جس کو
ان کے خالق نے کسی ’آورد‘ کے لمحے میں شاید
اپنے شعروں میں سمو کر
ان کی نا بینائی کے پردے کے پیچھے رکھ دیا تھا
لوٹ کر خالق سے اپنے کیسے پوچھیں
اے خدائے لفظ و معنی
تو نے ہم کو زندگی بخشی ہے، لیکن
ظلم کیسا تو نے اس کاغذ کے صفحے پر کیا ہے
رمز و تشبہہ و علامت
حمزہ و زیر و زبر
اپنی جگہ پر ٹھیک ہیں، پر
معنی و مفہوم کی بینائی …
(جس پر اس قدر نازاں ہے تیری خود نگاہی)
واژگوں ژولیدگی ، ریزہ خیالی میں کہیں گم ہو گئی ہے
کیسے اتنے فخر سے کہتے ہو غالب
(لفظ جن کی چشم بینا بجھ چکی ہے)، پوچھتے ہیں
’’قافیہ بندی مرا شیوہ نہیں ہے!‘‘
۰۰۰۰۰۰
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں