روداد سفر (48)چائنہ سے پاکستان واپسی کا فیصلہ۔۔شاکر ظہیر

میری بیٹی حنا کو میری بیوی نے وہیں شاہ تن گاؤں کے ایک پرائمری سکول میں داخل کروایا ۔ چھ ماہ تک وہ وہاں پڑھتی رہی ۔ آخری بار جب میں وہاں شاہ تن گاؤں میں ان کے پاس ایک ماہ رہ کر واپس ایوو شہر آیا کہ کچھ کام آیا ہوا تھا جسے نمٹانا بہت ہی ضروری تھا ۔ کاروباری حالات خراب سے خراب ہو رہے تھے اس لیے کسی چھوٹے سے چھوٹے کام کو بھی چھوڑا نہیں جا سکتا تھا ۔ میرے ایوو آنے کے ایک آٹھ دس دن بعد ہی ایک رات میں سویا ہوا تھا کہ دروازے پر دستک ہوئی ۔ دروازہ کھولا تو سامنے میری بیوی ماریا دونوں بیٹیوں حنا اور صنا کے ساتھ موجود تھی ۔ دروازے پر ہی اس نے جھگڑنا شروع کر دیا کہ تمہیں ہمیں وہاں چھوڑ کر یہاں مزے کر رہے ہو ۔ انہیں کھینچ کر اندر کیا اور کھانا جو موجود تھا گرم کر کے سامنے رکھا ۔ لیکن وہاں تو حالات کچھ اور نظر ا رہے تھے ۔ میں رات کے اس وقت کسی بھی قسم کی بدمزگی سے بچنا چاہتا تھا اس لیے خاموش رہا صرف کہا کہ کھانا کھائیں اور آرام کریں بہت لمبے سفر سے آئے ہیں یہ لڑائی ہم صبح فریش ہو کر کر لیں گے ۔ بڑی مشکل سے یہ بات تسلیم کی گئی ۔

صبح میں پہلے اٹھا ناشتہ تیار کیا اور سب نے مل کر اکٹھے ناشتہ کیا ۔ پھر بیٹھ کر آرام سے پوچھا کہ اللہ خیر کرے کیا مسئلہ پیش آ گیا ہے ۔ پہلے تو میری بیوی ماریا طعنے ہی دیتی رہی کہ تم ہمیں وہاں چھوڑ کر بے فکر ہو کر بیٹھ گئے ۔ میں نے کہا اگر میں بھی وہاں بیٹھ جاؤں تو کاروبار زندگی کیسے چلے گا ۔ اس شاہ تن گاؤں میں کرنے کو کچھ بھی نہیں آخر میں کم ازکم ایک ماہ وہاں آپ کے ساتھ رہ کر آیا ہوں ، یہاں کچھ کرنے کو کام آیا ہے تو آ گیا ۔ کام ختم کرنے کے بعد پھر آ جاتا اور سب سے اہم مسئلہ یہ ہے کہ حنا بیٹی وہاں سکول میں پڑھ رہی تھی یہاں ہم اسے کیسے سکول میں داخل کروائیں ۔ بیوی نے جواب دیا کہ میری وہاں ساری سہیلیاں یہی طعنے دے رہی تھی کہ تمہارا شوہر اپنی آسانی اور آزادی کےلیے تمہیں یہاں چھوڑ کر خود ایوو چلا گیا ، کیا پتہ تم یہیں بیٹھی ہو اور وہ وہاں ایوو میں کسی اور سے عشق عشق کھیل رہا ہو یا تمہیں یہیں چھوڑ کر ایوو سے پاکستان چلا جائے ۔ اور کہہ رہی تھیں کہ اس سے جان چھڑاؤ اور کوئی امیر آدمی دیکھ کر شادی کر لو ، تم ہو بھی بہت خوبصورت ، اس غیر ملکی کا کیا اعتبار ۔ میں ان طعنوں سے تنگ آ کر واپس آ گئی ہوں اور یہیں تمہارے ساتھ ہوں ۔ میں نے بہت آرام سے سمجھایا کہ مرد کی نظر مستقبل پر ہوتی ہے ۔ میں خود تنگ ہو رہا ہوں کہ ہر بیس پچیس دن بعد سفر کرکے تمہارے پاس آتا ہوں ، پیچھے کام کی الگ ٹیشن اور اخراجات الگ ۔ یہ سب کچھ بچیوں کےلیے کر رہا ہوں ، آخر انہوں نے تعلیم تو حاصل کرنی ہے ۔

یہ شکوک تم کیوں  دل میں لیے بیٹھی ہو ۔ میں بھی تو یہاں تنہائی کا شکار ہوں لیکن اس کا کوئی حل میری سمجھ میں نہیں آ رہا ۔ بیوی ماریا نے مجھے کہا کہ یہیں کسی سکول میں ایڈمشن کرواتے ہیں ۔ میں نے اسے ساتھ لیا اور اردگرد کے علاقے میں موجود سکولوں کے چکر لگائے ۔ ہر جگہ سے انکار ہی ہوا کیوں یہ سکول صرف مقامی بچوں کو ایڈمشن دیتے ہیں اور دوسرے علاقوں سے آئے بچوں کے والدین سے ایک کثیر رقم ڈونیشن کے نام پر لے کر اور تگڑی سفارش سے ایڈمیشن دیا جاتا ہے ۔ میری بچیوں کی رجسٹریشن میری بیوی کی فیملی بک پر ان کے علاقے کی تھی اس لیے ایوو شہر ان کا مقامی شہر نہیں بنتا تھا بلکہ الگ صوبہ بنتا تھا ۔ اس لیے یہ  یہ ایوو حکومت کی ذمہ داری نہیں تھی کہ میری بچیوں کو حکومتی سکول میں ایڈمیشن دے ۔ جیسا بھی ہے  ٹھیک یا غلط بہرحال یہ قانون موجود تھا ۔ پرائیویٹ سکول بہت کم ہیں اور بہت ہی مہنگے ۔ پھر ان پرائیوٹ سکولوں میں تعلیم کا معیار بھی حکومتی سکول کی نسبت بہت ہی کم ہے ۔

میری بیوی نے اپنی تمام سہیلیوں سے اس مسئلہ پر بات کی لیکن کسی نے حامی نہ بھری ۔ اب بات وہیں کھڑی تھی کہ کیا کیا جائے ۔ کچھ دن اسی بحث میں گزر گئے کہ آخر کیا کیا جائے ۔ بیوی ماریا واپس اپنے گاؤں جانے کےلیے بھی تیار نہیں تھی ، ایوو میں کوئی سکول ایڈمیشن دینے کو تیار نہیں ۔

یہ چائنا کے اندر ایک بہت بڑا مسئلہ ہے کہ ہر علاقے کے حکومتی سکول صرف انہی بچوں کو ایڈمیشن دیتے ہیں جن کی فیملی رجسٹریشن اس علاقے کی ہو یعنی وہ مقامی اسی علاقے سے ہوں ۔ مسئلہ یہ پیدا ہو رہا ہے کہ گاؤں کے لوگ کام کاج کے سلسلے میں شہروں کا رخ کرتے ہیں ۔ دونوں میاں بیوی کام کرتے ہیں تو شہر میں رہنے کے اخراجات اور پیچھے بچوں کے اخراجات پورے کر سکتے ہیں ۔ انہیں مائیگرینٹس ورکر کہا جاتا ہے ۔ بچے پیچھے گاؤں میں دادا دادی ، نانا نانی کے پاس ہوتے ہیں لیکن اگر وہ بھی موجود نہیں تو اکیلے ہی ہوتے ہیں ۔ یعنی کوئی ایک بڑا بچہ یا بچی خود پڑھائی بھی کرتا ہے اور باقی چھوٹوں کو سنبھالتا بھی ہے ۔ اس کے علاؤہ سبزی وغیرہ کاشت بھی کرتا ہے ۔ یہ بچے تنہائی اور بہت چھوٹی عمر میں بہت زیادہ ذہنی دباؤ کا شکار ہو جاتے ہیں ۔ کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ روزانہ وائس کال یا ویڈیو کال سے ساتھ ہونے کا احساس مکمل ہو جاتا ہے یا کسی حد تک پورا ہو جاتا ہے لیکن میرے خیال سے خام خیالی ہی ہے ۔ یہ لمس کا احساس بھی بہت حساس ہوتا ہے اور اس کی کمی فون کی بصارت اور سماعت سے کبھی پوری نہیں ہو سکتی ۔ دو چار بار کی فون کال کے بعد بچے اس سے بھی کترانے لگتے ہیں اور اسے اپنے لیے ذہنی اذیت ہی سمجھنے لگتے ہیں ۔ پھر کسی بیماری کی صورت میں بھی خود کو خود ہی سنبھالنا ہوتا ہے کوئی تسلی تشفی دینے والا لمس پاس نہیں ہوتا جو یہ احساس دلائے کہ بچہ اکیلا نہیں ہے اس کے درد کو محسوس کرنے والا ساتھ موجود ہے جو اس کےلیے پریشان ہے ۔ آہستہ آہستہ یہ بچے اپنی مشکلات کو بھی والدین سے ڈسکس کرنا چھوڑ دیتے ہیں کہ جب مشکلات کا سامنا اکیلے ہی کرنا ہے تو کسی سے صرف باتیں اور مشورے لینا بے مقصد ہی ہے ۔

کچھ ملکی این جی او نے باقاعدہ اسے اپنی سٹڈی کا موضوع بھی بنایا ہے ۔ ان کے ورکر مختلف دور دراز علاقوں میں ان بچوں سے ملاقاتیں کرتے ہیں جو احساس کمتری اور ذہنی مسائل کا شکار ہو گئے ہیں ۔ والدین صرف چائنیز نیو ائیر پر ہی بچوں کے پاس کچھ وقت اکٹھے رہتے ہیں لیکن اس میں بھی بچے والدین سے وہ لگاؤ ہی محسوس نہیں کرتے کیونکہ والدین نے بھی چند دن کے بعد واپس ہی چلے جانا ہوتا ہے اور پیچھے رہ جانے والی وہی تنہائی ہی ہوتی ہے ۔ اس نسل کو لیفٹ اور جینریشن کہا جاتا ہے ۔ یہ بچے جب خود بڑے ہو کر کام کاج کےلیے نکلنے ہیں تو یہ بھی والدین سے لاپرواہ ہی رہتے ہیں ۔ کیونکہ ان کا بھی کوئی جذباتی لگاؤ والدین سے نہیں ہوتا ۔ یہ عجیب ہی حالت بن رہی ہے ۔ یہ بچے اخلاقی تربیت کی کمی کا شکار بھی ہوتے ہیں اور انہیں نہ اپنے اوپر اعتماد ہوتا ہے اور کسی اور کے اوپر ۔ خاندان کا ادارہ آخری حد تک ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے ۔ یہ ترقی کی قیمت ہے جو معاشرہ ادا کر رہا ہے ۔

یہ ساری باتیں ہمارے ذہن میں تھیں ۔ آخر بیوی نے گیند میری کورٹ میں پھینک دی اور کہہ دیا کہ اب خود کوئی حل سوچو ۔ میں نے بھی کچھ دن اپنے سارے دوستوں سے گزارش کی کہ کوئی حل بتائیں لیکن مایوسی ہی ہوئی ۔ آپ ایک ہی حل رہ گیا تھا کہ واپس پاکستان آیا جائے ۔ یہ سارا عرصہ انتہائی پریشانی کا تھا کہ آخر کیا کیا جائے ہر طرف سے انکار ہی ہو رہا تھا ۔ پھر ایک رات کھانے پر میں نے بیوی ماریا سے واپس پاکستان کی تجویز دی جس کےلیے وہ تیار نہیں تھی ۔ اس میں ایک مسئلہ یہ بھی تھا کہ وہاں نئے سرے سے ابتداء کرنی تھی ۔ تمام حالات کو ڈسکس کیا گیا اور بیوی نے بددلی سے اس تجویز کو قبول کر لیا ۔ میں نے اپنا کام سمیٹا ، پاسپورٹ سب کے بنے ہوئے تھے ویزے لگوائے اور تیاری شروع کر دی ۔

میری بیوی ماریا نے پاکستان گھر میں موجود ہر ایک کی عمر پوچھی اور اس کے لحاظ سے ہر ایک کےلیے تحائف خریدے ۔ آخر وہ دن بھی ا گیا کہ ہم نے سفر کی ابتداء ہانزو شہر سے کی اور ارومچی پہنچ گئے۔ رات ارومچی رکے اور صبح ارومچی سے اسلام آباد کےلیے فلائٹ لینی تھی ۔ رات ایک ہوئی مسلم کے گھر گئے جو شاہ تن میں وقت گزار چکے تھے ۔ صبح جب ائیر پورٹ پاکستان کی فلائٹ کےلیے پہنچے تو سب سے برا رویہ امیگریشن والوں کا میری بیوی کے ساتھ تھا اور اس کی انتہائی سخت چیکنگ کر رہے تھے اور ساتھ ساتھ اسے پاکستان جانے سے روکنے کےلیے طرح طرح کی عجیب و غریب باتیں بھی کر رہے تھے ۔ انہوں نے اس کا سکاف ، جوتے اتروائے ، بندھے ہوئے بال کھلوائے اور دو تین بار چیک کیا ۔ میری بیوی کی برداشت ختم ہو گئی اور ویٹنگ ہال میں پہنچ کر اس نے رونا شروع کر دیا ۔ اللہ اللہ کر کے پاکستان کےلیے جہاز پر بیٹھے اور اسلام آباد کی طرف رخ کر لیا ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

یہ فیصلہ میری زندگی کا انتہائی غلط فیصلہ ثابت ہوا ۔ وہ تمام خدشات جو میری بیوی کو پاکستانی گھرانوں اور ان میں موجود سیاست کے متعلق تھے سب سچ ثابت ہوئے ۔
میں بھی ٹوٹ کر رہ گیا ۔ پھر وہ سب کچھ ہو گیا جس کا میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا ۔ ہم شاید دنیا کے منافق ترین لوگ ہیں جن کے ہاتھوں میں تسبیح ، سر پر ٹوپی ، ماتھے پر محراب ، مسلم لباس ، حج ، عمرے سب کچھ ہے ، نہیں ہے تو ان سب باتوں کا شعور نہیں جنہیں خدا نے کھانے پینے کے علاؤہ حرام قرار دیا ہے ۔ شرک ، فواحش ، حق تلفی ، ناحق زیادتی اور خدا پر جھوٹ باندھنا ۔ ہمیں یہ شعور نہیں کہ یہ چیزیں بھی اتنی ہی حرام ہیں جتنا کہ سور کا گوشت کھانا ۔ ہم اپنی انا بچانے کےلیے کسی حد تک بھی جا سکتے ہیں ۔ خدا ہمیں انسانیت اور بنیادی انسانی اخلاقیات ہی دے دے ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply