کیا ہم بھی ایک ڈیپارٹمنٹل سٹور ہیں؟/یاسر جواد

جب میں اپنے موجودہ گھر اور کالونی میں شفٹ ہُوا، کوئی دس سال قبل تو یہاں قریب ہی ایک بہت بڑا جنرل سٹور یا ڈیپارٹمنٹل سٹور تھا۔ سٹور کافی بڑا تھا، سامان بھی کافی سلیقے سے لگا تھا۔ لیکن مالک کبھی دکھائی نہیں دیتا تھا۔ کبھی رات کو دیر سے جانا ہوتا تو ایک آدمی عینک لگا کر حساب کتاب لے رہا ہوتا۔

پتا چلا کہ سب سے بڑا مسئلہ کیش کاؤنٹر کا ہے۔ مالک خود اتنا وقت دے نہیں سکتا تھا، شاید اُس کے بیٹے بیرونِ ملک ہوں یا کوئی بیٹا ہی نہ ہو۔ آہستہ آہستہ کاؤنٹرز اُجڑنے لگے، کیش لیتے دیتے وقت بہت سی رکاوٹیں محسوس ہوتیں، اضافی مہریں لگائی جاتیں ہر رسید پر۔ اجاڑ رَیکوں پر کیمرے بھی فکس ہو گئے۔ ہر دوسرے تیسرے ماہ کوئی نیا منتظم آ جاتا، اور رَیک پر کچھ نیا سودا نظر آنے لگتا۔ لیکن ورائٹی کم ہوتی جا رہی تھی۔ جھاڑو بھی صرف ایک یا دو قسم کے ملتے، وائپر بھی ایک دو قسم کے تھے۔ مطلوبہ چیز کے سوا ہر چیز ملتی۔

سٹاف یا عملے میں داڑھی والے لڑکے بھی شامل کیے گئے، شاید خیال ہو کہ وہ زیادہ ایمان دار ہوں گے۔ اُن کی وجہ سے ایک تو سٹور پسماندگی کا تاثر دینے لگا، اور دوسرے خواتین بھی جھجک محسوس کرنے لگیں۔

دو یا تین مرتبہ سٹور کا نام بھی تبدیل ہوا۔ پھر مالک نے سوچا کہ سامنے اتنی جگہ خالی ہے تو وہاں کوئی اور کاروبار شروع کروا کر کرایہ لیا جائے۔ جہاں جھاڑو اور وائپر رکھے جاتے تھے، وہ ایک طرف کر کے سامنے والے حصے کا ایک کونہ پراٹھے اور نان چنے بیچنے والے کو کرائے پر دیا گیا۔ دوسرے کنارے پر کون آئسکریم کی مشین رکھ دی گئی۔ ایک پان والا کھوکھا اور شادی و قبر کے لیے گلاب کی پتیاں بیچنے والا بھی آ گیا۔ نتیجتاً سٹور کا چہرہ ہی چھپ گیا۔

مجھے لگتا ہے کہ اس سٹور سے فائدہ اُٹھانے والا ہر شخص اُسے ختم کرنے پر تُلا ہوا تھا۔ آج کل کبھی معیشت اور سیاست کے بارے میں کوئی تجزیہ کان میں پڑ جائے تو وہ سٹور بہت شدت سے یاد آتا ہے۔ اور یہ محاورہ بھی کہ ’’قبریں بدلنے سے عذاب نہیں بدلتے۔‘‘

Advertisements
julia rana solicitors london

لگتا ہے ہم منتشر ہو رہے ہیں۔ مگر شاید بہت سے ملک ہمارا انتشار نہیں چاہتے۔

Facebook Comments

یاسر جواد
Encyclopedist, Translator, Author, Editor, Compiler.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply