شادی ،اِک جہانِ حیرت/ناصر خان ناصر

ایک پاکستانی مہیلا نے تین دیش الانگ کر اپنے مذہب کو تبدیل کرنے، پچھلے نکاح کو خود فاسق و ساقط قرار دینے اور ہندو سناتن دھرم اختیار کرنے کے بعد اپنے نئے وواہا رچانے کا اعلان کیا کِیا، ایک عالم میں اک کھلبلی سی مچا کر رکھ دی ہے۔

سوال اب یہ اٹھتا ہے کہ کیا ایسا کرنا کسی طور پر بھی جائز ہے؟

اس سلسلے میں اسلام کیا کہتا ہے اور اس معاملے میں سناتن دھرم کی کیا اِچّھا ہے۔؟

جب سے یہ دنیا بنی ہے اور اس پر انسان وجود میں آئے ہیں، تب ہی سے شادی کی بے حد عجیب و غریب رسومات قائم رہی ہیں۔
وقت کے دهارے میں بہتے، سدا تبدیل ہوتے کلچر، تہذیب اور مذاہب کے ساتھ ساتھ یہ رسومات اور ریتیں یوں بدلتی چلی آئی ہیں کہ سوائے تعجب اور حیرانی کے ایک لفظ نہیں کہا جا سکتا۔
مسلمان، عیسائی اور یہودی تینوں ابراہیمی مذاہب تو خیر آدم اور حوّا پر مکمل یقین رکھتے ہیں۔ حضرت آدم اور اماں حوّا کی اولاد کی آپس ہی میں شادی ہو جایا کرتی تھی۔ سو اوائل زمانے میں اپنے سگے بہن بھائیوں تک کی شادی مکمل جائز ہوا کرتی تھی۔

کچھ عرصے بعد اللہ پاک کے بھیجے طوفان نوح میں ساری خلقت اور خدائی مکمل طور پر ڈوب گئی  تھی۔ صرف اللہ کے پیغمبر نوح علیہ السلام اور ان کا خاندان ہی باقی بچا تھا۔ نوع انسانی کو بچانے کے پھر شاید ایک بار وہی بہن بھائیوں کا بیاہ ناگزیر ہو گیا تھا وگرنہ ہم آپ کہاں سے تشریف فرما ہوتے؟

قدیم مصر میں فرعونوں کے زمانے میں باپ اپنی سگی بیٹیوں تک سے بیاہ رچا لیتے تھے اور بھائی بہنوں کا بیاہ بھی خیر سے اب تک بخوبی چلتا رہا تھا۔مشہور عالم ساحرہ قلوپطرہ کا بیاہ گیارہ سال کی عمر میں پہلے اپنے بڑے بھائی  بطلیموس دوازدہم تھیئوس فلاپاٹر (51 ق.م–47 ق.م) سے ہوا تھا۔ اس کی ہلاکت کے بعد جب وہ اٹھارہ برس کی تھی، اس کا چھوٹا بھائی  بطلیموس چہاردہم (47 ق.م–44 ق.م) مصر کا حکمران بن گیا اور اسے اپنے چھوٹے بھائی سے بھی شادی کرنا پڑی۔ جولیس سیزر اور اس کے بعد مارک انتھونی (32 ق.م–30 ق.م) قلوپطرہ کے جیون ساتھی بنے تھے۔

برصغیر میں بھی پراچین وقتوں سے بیاہ کی عجب رسومات قائم تھیں۔ بھارت کے ایک کونے میں ماموں اپنی بھانجی سے بیاہ کر سکتا ہے تو دوسرے کونے میں دور کی رشتہ داری نکل آنے پر بھی کوئی وواہ ہرگز ہرگز نہیں ہو سکتا۔

قدیم بھارت سے ہندو مت میں دس اقسام کی شادیاں رچائی جا سکتی ہیں۔ اس مذہب کی نظر میں سب سے پسندیدہ قسم گندهروا وواہ ہے۔ جس میں صرف دولہا دلہن ایک دوسرے کو خود چن کر تنہائی ہی میں باہمی اقرار کر لیتے ہیں۔
کسی تیسرے جیو کی حاجت ہے نہ ضرورت، باہمی رضامندی ہی اکلوتی اور ضروری شرط ہے۔

دوسرا بہترین بیاہ شاستروں کی نظر میں دلہن کو بھرے دربار سے اس کے باپ اور بھائی کی موجودگی میں سر عام زبردستی اٹھا کر لے جانا مانا جاتا ہے۔ اسی قسم کا بیاہ بھگوان کرشن نے اپنی پتنی رکمنی جی سے رچایا تھا اور اپنے من کی مراد پائی تھی۔

مہا بھارت کے قصے میں بھیشم نے کاشی کے حکمران کی تینوں بیٹیوں امبا، امبیکا اور امبالیکا کو ان کے سوئمبر سے سب کے سامنے بزور بازو زبردستی اغوا کیا تھا اور اپنے بھائی وچتر ویریا کی دلہنیں بنا ڈالا تھا۔ یہ الگ بات کہ امبا نے جو سلوا کے بادشاہ سے محبت کرتی تھی، وچتر ویریا سے اپنی شادی کو تسلیم نہیں کیا تھا۔ اسے بھیشم نے باعزت اس کی خواہش کے مطابق سلوا بھجوا دیا تھا۔ وہاں بادشاہ نے بھی اسے قبول نہیں کیا تھا۔ وہ واپس آ کر بھیشم سے شادی کرنے کے لیے ملتجی ہوئی۔ اس نے انکار کر کے اسے دوبارا سلوا کے پاس بھجوایا۔ یوں وہ ان دونوں کے درمیان خوار ہوتی رہی اور اس نے بھیشم کو جان سے مار دینے کی قسم کھا کر خودکشی کر لی۔ اگلے جنم میں وہ ایک جنگجو خواجہ سرا سکندی کے روپ میں آئی اور مہا بھارت میں بھیشم کے خاتمے کا باعث بنی۔

بھارت نگر کے اتہاس میں تو مہلاؤں کو بھی مکمل طور پر شانت رکھا گیا تھا۔ انھیں بھی ایک سے زائد پتی رکھنے کی اجازت دی گئی تھی۔

مہا بھارت کی دروپدی نے اپنے پانچ پتی کیے  تھے جو آپس میں بھائی  بھائی  تھے، تین سگے اور دو سوتیلے بھائیوں سے دروپدی کا بیاہ ہوا تھا۔

مردوں میں ایک سے زائد شادیاں مسلمانوں اور مارمن لوگوں کے مذاہب میں اب تلک جائز ہیں۔ مسلمان بیک وقت چار شادیاں کر سکتے ہیں۔ اسی طرح مارمن مذہب میں بھی اَن گِنت بیاہ رچانے کی اجازت ہے۔ بھارت ہی کی طرح عورتوں کی ایک سے زائد شادیوں کو بہت سے دیگر کلچرز بھی ہرگز بُرا نہیں گردانتے۔ آج بھی افریقہ کے کئی قبائل میں عورت گھر اور قبیلے کی سربراہ مانی جاتی ہے۔ کئی قبائل میں عورتیں پورے قبیلے کی سردار ہونے کے ساتھ ساتھ اپنی پسند کے مرد چننے اور انھیں بدلتے رہنے پر بھی قادر ہوتی ہیں۔ کچھ افریقن قبائل میں تو مردوں کی باقاعدہ  بولی لگتی ہے اور انھیں بیاہے جانے پر جہیز بھی دیا جاتا ہے۔

اب ان عالمی عجائب شادی خانہ میں مردوں کے مردوں کے ساتھ اور خواتین کے خواتین کے ساتھ بیاہ بھی قابل قبول ہو گئے ہیں۔ حال ہی میں امریکہ، کینیڈا، آسٹریلیا اور دیگر یورپی ممالک میں اس قسم کے بیاہ مکمل قانونی قرار دئیے جا چکے ہیں۔

آج کی دنیا میں اگر آپ اپنے اردگرد آنکھیں کھول کر دیکھیے تو صاحب، اب کسی بھی قسم کے بیاہ پر کچھ بھی تعجب کرنا مکمل چھوڑ دیجیے۔

اگرچہ ان پرانی مثالوں کو آج کے زمانے پر منقبت کرنا تو ایک بڑی حماقت ہی ہو گی مگر حق ہے کہ شادی کے ضمن میں اب صرف انسانوں اور جانوروں کا بیاہ ہی غیر شنیدن و دیدن رہ گیا ہے۔

مگر ٹھہریے!
اگرچہ انسانی تہذیبوں کے اقدار وقت کے ساتھ ساتھ حیران کُن انداز میں بدلتے رہتے ہیں مگر بنیادی انسان تو اب بھی وہی کے وہی ہیں۔

بھارت کے قدیم پراچین مندروں کی سنگی دیواروں پر جہاں عورت مرد کے اختلاط کے تمام ممکن زاویے اور پوز تفصیلات سے دکھلا دیے گئے ہیں وہیں پر انسانوں اور حیوانوں کے اختلاط کے لاتعداد مجسمے بھی موجود ہیں۔

ٹیکسلا کے کھنڈرات میں موجود ایک قدیم اسٹوپا پر ہم نے خود اپنی گناہگار آنکھوں سے ایک ایسا مجسمہ دیکھ رکھا ہے جس میں مرد کو اپنے ہاتھوں سے خود لذتی کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔

میکسیکو، یونان اور چند دیگر ممالک کے پرانے کھنڈروں سے ملنے والے مجسموں کی اسی قسم کی حرکات و سکنات اور جنسی جسمانی کیفیات اپنی اپنی جگہ منفرد ہونے کے باوجود ہمیں پُرتعجب اور حیران نہیں کر سکتیں۔

سندھ سمیت پاکستان کے کئی  خِطوں میں آج بھی لڑکیوں کی شادی قرآن شریف سے کر دی جاتی ہے۔ یہ خواتین پھر عمر بھر مجبوراً  کنواری ہی رہتی ہیں اور کسی شخص سے بیاہ نہیں رچا سکتیں۔ عیسائی مذہب میں بھی اسی طرح کی کنواری راہبات عام ملتی ہیں۔ کیتھولک لوگوں میں تو راہب اور راہبہ دونوں ہی کو اپنا بیاہ رچانے کی ہرگز اجازت نہیں ہوتی۔

کچھ لوگوں کے اپنے کُتے بلیوں سے ڈھکے چھپے تعلقات آج بھی ہوتے ہیں۔ بھارت کے مشہور عالم ایلورا و اجنتا سمیت جن مزید سات مختلف مندروں کی دیواروں پر انسانوں کے باہمی اور جانوروں کے ساتھ جنسی تعلقات ملاحظہ فرمائے جا سکتے ہیں ان کے نام مندرجہ ذیل ہیں:
1۔ کھجورا مندر۔ مدھیہ پردیش۔
2۔ سوریہ مندر۔ کونارک، اڑیسہ۔
3۔ وروپکشا مندر۔ ہمپی، کرناٹک۔
4۔ جین مندر۔ رونق پور، راجستان۔
5۔ سوریہ مندر۔ مودھیرا، گجرات۔
6۔ ستیہ مورتی پرومل مندر، تامل ناڈو
7۔ لنگھا راج مندر، بھابھنیشور، اڑیسہ۔

جو کچھ بھی اس سورج کے گرد گردش کرتی، خود اپنے محور پر گھومتی گھماتی، خود آرائی میں مشغول پرتھوی کے اوپر اور نت نئے رنگ بدلتے نیلے آکاش کے نیچے ہو رہا ہے۔۔۔
اس میں بالکل کچھ بھی ہرگز نیا نہیں ہے۔ ایسا ہی سب کچھ ازل سے ہوتا آیا ہے اور ابد تک جاری رہے گا۔
یہ سب کچھ ہم سے پہلے بھی ہوتا رہا اور ہمارے بعد بھی ایسا ہی ہوتا رہے گا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

آج عالمی سطح پر شادی کا دفتر ہی خیر سے مکمل طور پر بند ہونے کے قریب ہے۔ شادی کے اس پورے کاروبار کی ہی مکمل طور پر ٹھپ ہو جانے کی منادی ہو رہی ہے۔ امریکہ سمیت پوری دنیا میں اب لوگوں کی اکثریت شادی کیے بنا، بغیر کسی بندھن یا قانونی کاروائی کے ایک ساتھ رہنے کو ترجیح دینے لگی ہے۔ امریکہ کی زیادہ تر ریاستوں میں ڈومیسٹک پارٹنرز کو میاں بیوی کے تمام قانونی حقوق چند سال اکٹھے رہنے کے بعد حاصل ہو ہی جاتے ہیں۔ آجکل کے اس نازک دور اور حالات میں اس موضوع پر کچھ بھی پڑھ کر یا حالیہ واقعات کی طرح  نت نیا قصہ سن کر کم از کم ہمیں تو کوئی حیرت نہیں ہوتی۔
آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا؟

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply