دردِ دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو۔۔ولائیت حسین اعوان

سپین کے ایک شہر کے سمندر کے نزدیک واقع دکان پر ایک جرمن معمر جوڑا جو چھٹیاں گزارنے اس جزیرہ پر آیا ہوا تھا،،کچھ خریداری کے لیئے میرے پاس آیا ۔انکے ساتھ 14،15 سال کی ایک بچی بھی تھی۔ان بزرگوں نے اپنے لیئے تو کچھ نہ خریدا لیکن بچی کو وہ مختلف چیزیں دکھاتے رہے ۔میں نے سوچا کہ چند منٹ ان کو خود تسلی  سے سوچنے اور فیصلے کا موقع دوں تا کہ کسی نتیجہ پر پہنچ سکیں۔ کچھ دیر بعد میں نے ان سے خریداری کے سلسلے میں ان کی مدد کرنے کا پوچھا تو انھوں نے بتایا کہ ہم نے اپنی اس پوتی کے لیئے پرس خریدنا ہے۔بچی کو چند پرس دکھائے۔
بالآخر بچی نے اپنے لیئے ایک پرس پسند کیا۔۔۔۔
اکثریت جرمن لوگ اپنی زبان میں گفتگو کو ہی اہمیت دیتے ہیں۔حالانکہ ماسوائے 10 فیصد کے سب انگلش سمجھتے بھی ہیں اور بہت مجبوری میں بول بھی لیتے ہیں۔چونکہ مجھے  دو چار  الفاظ کے علاوہ جرمن زبان نہیں آتی لہذا میں انگلش میں ہی سیاحوں سے بات چیت کرتا ہوں۔ میں نے ان سے چند رسمی کاروباری جملے بولے۔جرمن جوڑا تو انگلش اچھی سمجھتے بولتے تھے لیکن بچی سے وہ جرمن زبان میں کچھ پوچھ کر مجھے ترجمہ کر کے بتاتے۔میں نے دریافت کیا کہ آپ تو بہت اچھی انگلش جانتے ہیں لیکن کیا وجہ ہے کہ بچی نہیں جانتی؟
انھوں نے بتایا کہ اگر آپ عربی بول سکتے ہیں تو آپ اس سے عربی میں بات کر سکتے ہیں۔مجھے بہت حیرانی ہوئی۔پوچھا آپ جرمن اور اس بچی کو آپ نے انگلش کے بجائے عربی سکھائی؟کچھ سمجھ نہیں آیا۔۔(چونکہ میں تو اس بچی کو ان کی پوتی سمجھ رہا تھا )
ایسا لگ رہا تھا کہ میرا سوال ان کے لیئے بھی مشکل تھا۔دونوں میاں بیوی نے ایک دوسرے کو دیکھا اور کچھ ہچکچاہٹ کے بعد مجھے جواب دیا۔۔
جو جواب انھوں نے دیا۔اس نے مجھے حیران بھی کیا اور ان کے لیئے میرے دل میں عزت تکریم میں بھی اضافہ ہوا۔
انکے جذبہ انسانیت سے متاثر ہو کر ان کی مرضی سے انکی تصویر لی اور پھر اسے فیس بک پر پوسٹ کرنے کی بھی اجازت حاصل کی۔۔

انکا جواب تھا۔۔

یہ بچی مسلمان اور شامی ہے۔۔شام کے اپنے ملک سے ہزاروں دربدر خاندانوں میں سے ایک خاندان کی یہ بھی بچی ہے اور ہم نے اسکو اسکی مصیبت و  پریشانی میں مدد کے نکتہ نظر سے Adopt کیا ہے یعنی اب اسکی پرورش تعلیم اور ضروریات زندگی کی ذمہ داری مستقل طور پر ہماری  ہے۔اور ہم اسکے ساتھ بہت خوش اور مطمئن ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ہمارے دنیا میں آنے کا کچھ فائدہ ہوا یا ہماری قیمتی خوبصورت زندگی کا ایک قرض ادا ہو گیا (اور آپ شاید جانتے ہوں کہ جرمن پوری دنیا میں واحد ملک ہے یا شاید واحد غیر مسلم ملک جس نے بہت بڑی تعداد میں شامیوں کو اپنے ملک میں پناہ دی۔)
صرف یہ اس ایک جوڑے کی بات نہیں جرمنی میں لوگوں نے اپنے گھروں کے دروازے شامی مہاجرین کے لیئے کھول دیئے ۔۔بالکل اسی طرع جس طرع ہمارے پیارے پیغمر محمد مصطفی صلی اللہ وآلہ وسلم کے حکم پر مدینہ کے انصار نے مہاجرین کے لیئے اپنا تن من دھن پیش کیا۔۔۔
صرف یہی مثال نہیں یورپ کے بے شمار ممالک سے آنے والے سیاحوں میں سے کئی جوڑوں کو میں نے دیکھا کہ افریقہ کے کسی انتہائی پسماندہ غریب ترین اور تباہ حال ملک کے کسی کالے بچے بچی کو اسی طرع adopt کیا ہوا ہے۔ان کو سیر کرانے بھی لاتے ہیں اور ان کے نازنخرے فرمائشیں بھی اپنے بچوں کی طرح اٹھا رہے ہوتے ہیں۔

انسانیت کے ایسے عظیم جذبوں کے حامل لوگوں ۔۔رنگ و نسل اور مذہبی، مسلکی تفریق کے بنا لوگوں کی مشکل وقت میں مدد کرنے، انسانیت سے محبت کرنے اور دکھ درد بانٹنے والی قوم کو زوال کیسے آ سکتا ہے؟؟

اور انکے اس سارے خلوص کا انکو اپنے ملک میں کیا ردعمل مل رہا ہے اور کیا مشکلات پیش آ رہی ہیں اسکا ذکر پھر کبھی سہی۔۔۔۔

میں نے تجربے ،مشاہدے اور معلومات کی بنیاد پر ان کے بارے میں یہ جانا ہے کہ یہ وفادار لوگ ہیں۔محنتی اور بہت سادہ لوح ہیں۔مکار نہیں۔۔انسانیت کا جذبہ رکھنے والے ہیں۔اپنے کام سے کام رکھتے ہیں۔کسی سے حسد نہیں، نہ کسی سے شکوہ ۔
ڈاکٹر علامہ محمد اقبال  کی بیوی جب فوت ہوئی تو انکی بچی کی عمر شاید 3 سال تھی۔اور جاوید اقبال شاید 7 سال کے۔علامہ اقبال صاحب جیسے دور اندیش بندے نے بھی ساری زندگی بچوں کی پرورش کے لیئے انکی نگران نگہبان کے طور پر ایک جرمن خاتون کو ہی اہل سمجھا۔۔ایک پوری کہانی ہے جو اس پر لکھی جا سکتی ہے۔اس خاتون نے علامہ صاحب کے بچوں کے ساتھ خلوص برتا شفقت دکھائی اور وفا کی،خدمت کی،بچوں کے جوان ہونے تک علامہ صاحب کے بچوں کی دیکھ بھال کی۔اور پھر بدلے میں جاوید اقبال اور منزہ اقبال نے بھی انکی آخری عمر میں بہت نگہداشت اور خدمت کی۔اور زندگی کے آخری ایام میں انکو جرمنی سے واپس پاکستان لے کر آئے۔ابھی کچھ عرصہ پہلے انسانیت کے ماتھے کا جھومر اور پاکستانیوں کی عظیم محسن پُرعزم خاتون ڈاکٹر رتھ فاؤ کا انتقال ہوا جس نے اپنی تمام عمر پاکستان کے کوڑھ کے مریضوں کی خدمت میں گزاری۔جو 25 سال کی عمر میں پاکستان آئیں اور پھر یہیں  کی ہو کے رہ گئیں۔کوڑھ کے مریضوں کے لیئے ان کی خدمات پر دنیا کا بڑا سے بڑا تمغہ بھی ان کی خدمات، جذبے، خلوص کے مقابلے میں حقیر ہے۔

یہاں مجھے جرمن چانسلر انجیلا مارکل کی وہ بات شدت سے یاد آ رہی ہے جو اس نے سعودی بادشاہ کے اس بیان کے جواب میں کہی جس میں “عالی جاہ ” نے فرمایا کہ ہم شامی مسلمانوں کو جرمنی میں 200 مساجد بنا کر دیں گے۔انجیلا کا جواب تاریخ کی کتابوں کے نمایاں باب میں درج ہو گا۔۔اس نے جواب میں کہا۔۔
“سعودیہ شامیوں کے لیئے جرمنی سے زیادہ نزدیک تھا۔شامیوں کو مشکل وقت میں مساجد کی نہیں ہمدردی، پناہ اور خوراک کی ضرورت تھی، جرمنی نے شامیوں کے لیئے بانہیں پھیلائیں۔اگر جرمنی انکی خوراک رہائش تعلیم صحت کی سہولیات کا بندوبست کر سکتا ہے تو مستقبل میں مساجد بنانا بھی کوئی مشکل نہیں”

Advertisements
julia rana solicitors london

انسانیت کا درد رکھ کر جئیں۔اور اپنے آس پاس رنگ و نسل قوم اور مذہب مسلک کی تفریق سے بالا تر ہو کر ہر ضرورتمند کے لیئے جتنا آپ کے اختیار میں ہے وہ ضرور کریں۔۔۔

Facebook Comments

ولائیت حسین اعوان
ہر دم علم کی جستجو رکھنے والا ایک انسان

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply