بدن (8) ۔ انگلیوں کے نشان/وہاراامباکر

اکتوبر 1902 کو پیرس میں پولیس کو ایک تفتیش کے لئے بلایا گیا۔ ایک متمول علاقے میں ایک شخص کو قتل کر دیا گیا تھا اور کچھ آرٹ ورک چوری کر لیا گیا تھا۔ قاتل نے سراغ نہیں چھوڑے تھے لیکن خوش قسمتی یہ تھی کہ پولیس نے ایک جاسوس الفونسے برٹیلون کو بلا لیا تھا۔ ان کی مہارت مجرم کی شناخت کرنے میں تھی۔

Advertisements
julia rana solicitors

برٹیلون نے شناخت کا ایک سسٹم ایجاد کیا تھا جسے وہ anthropometry کہتے تھے۔ اور اس کا نام ان کے نام پر برٹیلونیج رکھا گیا۔ ہر گرفتار ہونے والے شخص کی تصویر کھینچے کی پریکٹس جس میں پورا چہرا نظر آ رہا ہو اور ساتھ اس کی پروفائل ہو۔ یہ ان کی متعارف کردہ جدت تھی لیکن سب سے خاص چیز ان کا پیمائش کا جنون تھا۔ وہ ہر قسم کی پیمائش کرتے تھے۔ گال کی چوڑائی، چھوٹی انگلی کی لمبائی، بیٹھے ہوئے قد ۔۔۔ برٹیلون کی دلچسپی ایسے اعداد میں تھی جو عمر کے ساتھ تبدیل نہ ہوتی ہوں۔
فرانس میں دوسری بار کوئی جرم کرنے پر پہلی بار کے مقابلے میں کڑی سزا تھی۔ اور عام طور پر ایسے مجرموں کو دور دراز کے جزیروں میں جلاوطن کر دیا جاتا تھا۔ مجرم کی کوشش ہوتی تھی کہ وہ خود کو پہلی بار کا مجرم بنا سکے۔ برٹیلون کا سسٹم اسی کی پڑتال کرنے کے لئے تھا اور اچھا کام کرتا تھا۔ پہلے سال میں انہوں نے ایسے 241 فراڈ پکڑے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس سسٹم کا ایک اتفاقی حصہ انگلیوں کے نشان تھے۔ اس روز انہیں کھڑکی کے فریم پر انگلی کا نشان ملا اور اس سے انہوں نے ہنری لیون شیفر کی شناخت کر لی۔ قاتل کا اس طرح پکڑے جانا بڑی خبر تھی جو صرف فرانس تک محدود نہیں رہی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انگلیوں کے نشان منفرد ہیں۔ یہ دریافت پرانی تھی۔ چینیوں نے ہزار سال پہلے کر لی تھی۔ اور جاپانی کمہار صدیوں سے اپنے برتن کی شناخت مٹی کو پکانے سے پہلے اس میں انگلی کا نشان ڈال کر کرتے تھے۔
فرانسس گالٹن نے گالٹون سے کئی برس پہلے یہ تجویز دی تھی کہ انگلیوں کے نشانوں کو مجرم پکڑنے کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ برٹیلون اس کے ذریعے قاتل تلاش کرنے والے پہلے شخص بھی نہیں تھے۔ یہ کام ارجنٹینا میں دس سال پہلے کیا جا چکا تھا۔ لیکن اس کا کریڈٹ برٹیلون کے سر آیا۔ کیونکہ اس بڑے کیس کو حل کرنے کے بعد یہ ان کے طریقے کا حصہ بن گیا اور پولیس نے اس کو باقاعدہ طور پر اپنا لیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لیکن یہ نشان ہیں کیوں؟ اس کی ارتقائی وجہ کیا ہے؟ اس کا جواب کسی کو معلوم نہیں۔ آپ کا جسم ایک پرسرار کائنات ہے۔ اس میں ہونے والی بہت سی چیزوں کا ہمیں علم نہیں۔ اور جو ہوتی ہیں، ان کی وجوہات کا علم نہیں۔ اور ان میں ایک حصہ تو وہ ہے کہ جن کی کوئی وجہ بھی نہیں۔ ارتقا ایسا ہی پراسس ہے۔
کیا ہم یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ دنیا کے دو افراد کے فنگر پرنٹ کبھی نہیں ملیں گے؟ صرف یہی کہا جا سکتا ہے کہ ابھی تک کسی کو ایسے فنگرپرنٹ نہیں ملے جو ایک جیسے ہوں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فنگرپرنٹ کا نصابی نام dermatoglyphics ہے۔ اس کے ابھار papillary ridges ہیں۔ ایک خیال یہ ہے کہ یہ پکڑنے میں مدد کرتے ہیں۔ ویسے جیسے ٹائر میں ہوتے ہیں تا کہ اس کی پکڑ سڑک پر اچھی رہے۔ لیکن کوئی اس کو ثابت نہیں کر سکا۔ کچھ کا یہ خیال ہے کہ یہ انگلیوں سے پانی جلد صاف کرنے میں مدد کرتے ہیں اور انگلیوں کی جلد کو لچکدار اور نرم رکھتے ہیں یا حساسیت بڑھاتے ہیں۔ لیکن یہ سب دلچسپ اندازے کہے جا سکتے ہیں۔
اسی طرح انگلیوں میں ایک اور دلچسپ مظہر ہے۔ انگلیاں پانی میں زیادہ دیر رہیں تو ان میں جھریاں سی پڑ جاتی ہیں۔ زیادہ دیر نہائیں تو آپ نے انہیں دیکھا ہو گا۔ یہ کیوں ہے؟ اس کا بھی کسی کو علم نہیں۔ اس کی سب سے عام دی جانے والی وضاحت یہ ہے کہ ان سے پانی کا نکاس بہتر ہوتا ہے اور پکڑ اچھی ہوتی ہے۔ لیکن اس کو کچھ زیادہ تک نہیں بنتی۔ اچھی پکڑ کی ضرورت اس وقت ہوتی ہے جب کوئی پانی میں گر جائے۔ نہ کہ اس کو جو پانی میں بہت دیر رہ چکا ہو۔
شاذ و نادر ایسا بھی ہوتا ہے کہ کوئی ایسا شخص پیدا ہو جس کی انگلیوں کے نشان نہ ہوں۔ اس حالت کو adermatoglyphia کہا جاتا ہے۔ ایسے لوگوں میں پسینے کے غدود بھی کم ہوتے ہیں۔ اس سے ایک اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ انگلیوں کے نشانوں کا کچھ تعلق پسینے سے ہو سکتا ہے۔ لیکن اس کا کنکشن کوئی بنا نہیں سکا۔
لیکن جسم کے لئے فنگرپرنٹ اہم نہیں۔ اس سے کہیں زیادہ اہم پسنے کے غدود ہیں۔
آپ نے شاید ایسا سوچا نہ ہو لیکن پسینہ انسان ہونے کا انتہائی ضروری حصہ ہے۔ نینا جابلونسکی کا تو یہاں تک کہنا ہے کہ “پسینہ وہ شے ہے جس نے انسان کو وہ بنایا جو وہ آج ہے”۔
(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply