کرشن چندر کا ناول” غدار” جو ہمیں سوچنے پہ مجبور کرتا ہے/محمد سلیم حلبی

قوم پرستی نے جہاں اتحاد و یگانگت پیدا کیا  ہے وہیں نفرت و تعصب کو بھی پروان چڑھایا ہے۔قوم پرست دوسرے فرد کو مخصوص عینک و شک کی نگاہ سے پرکھتا ہے۔یہ تعصب اب دنیا کے ایک قریے سے دوسرے قریے تک پہنچ چکا ہے۔اس نے سرحدوں کو روند اور پھلانگ کے دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔

پاکستان اور بھارت کی آزادی کے بعد  دونوں ملکوں کے حالات و واقعات اور تعلقات ہمیشہ کشیدہ رہے ہیں۔آزادی پہ بہت کچھ لکھا جاچکا ہے اور ہر لکھاری نے اپنے اپنے انداز سے آزادی و بٹوارے کو پیش کیا ہے۔ان تحریروں کا محور آزادی,ہجرت,ہجر و وصال اور قتل و غارت گری ہے۔اس آزادی نے باپ کو بیٹے,ماں کوبیٹی,بہو کو ساس اور بھائی کو بہن سے جدا کیا ہے۔

کرشن چندر کا ناول غدار بھی آزادی کے  موضوع کے گرد گھومتا  ہے۔اس ناول میں نسلوں اور گروہوں کو ہجرت کرتے اور قتل کرتے ہوۓ دکھایا گیا ہے۔یہاں محبوبہ کو محبوب,بیوی کو شوہر اور بھائی کو بہن کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر محفوظ و مسرور اور شاداں دکھایا گیا ہے۔مگر یہ وقتی اور لمحاتی ہے۔آزادی کا  اعلان ہوتے ہی فسادات پھوٹ پڑتے ہیں اور انتشار و خلفشار کار دور دورہ شروع ہوتا ہے۔مسلمان ہندو اور سکھوں پر ٹوٹ پڑتے ہیں جبکہ ہندو اور سِکھ مسلمانوں پہ۔کسی کا سربریدہ لاش ملتا ہے تو کسی کا کٹا بازو۔کہیں ہندو مسلم لڑکی کا ریپ کر رہے ہیں تو کہیں مسلم ,غیر مسلم عورتوں کی پستانیں کاٹ رہیں۔کہیں باپ بچے  سے جدا کرکے ذبح کیا جارہا ہے تو کہیں بچے کو ماں سے جدا کرکے اس کے سینے میں بلم و خنجر گھونپا جا رہا ہے۔ کہیں باپ بیٹے اور بیوی کو چھوڑ کر اپنا  سر بچانے میں کوشاں ہے  ۔ اس ناول میں تحریر   چند دلخراش مناظر  دیکھیے۔۔

یہ لاہور ریلوے اسٹیشن ہے ہندو اور سِکھوں کی لاشوں کا انبوہ بکھرا پڑا ہے۔تیج پانی کی تلاش میں یہاں تک آگیا ہے۔آہٹ سنتے ہی تیج کولر کے عقب میں چھپ جاتا ہے۔اک بوڑھا نمودار ہوتا ہے۔جو لاشوں کی  جیب ٹٹولتا ہے ان سے مال و زر نکال کے جیب میں ڈالنے میں مصروف ہوجاتا ہے۔تیج جو پیچھے سے کندھا تھپتھپا کے بوڑھے کو اپنی طرف متوجہ کرتا ہے کہتا ہے اے مسلم اپنی موت کےلئے تیار ہوجا ،تو بوڑھا کہتا ہے میں بلاقی شاہ ہوں اور یہ مال و زر اپنی بیٹی کے  جہیز کےلئے اکٹھا کر رہا ہوں۔اور یوں مصنف ہمیں پیغام پہنچانے کی کوشش کرتا ہے کہ بعض حریص انسان اس نفسا نفسی اور قتل و غارت گری میں بھی مال و زر اکٹھا کرنے میں لگے رہتے ہیں۔جبکہ اک اور نظر ڈال کے دیکھ لیں تو جہیز جیسی لعنت اکٹھا کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔

یہ منظر اس پُل کا ہے جہاں سے دونوں اطراف سے یعنی انڈین اور پاکستانی اپنے اپنے ملک کی جانب سفر کر رہے ہیں۔اچانک دو بچھڑے دوستوں کی آنکھیں چار ہوتی ہیں۔تو اک دوست آواز لگاتا ہے اوے احمد یار تو کدھر؟ احمد یار کہتا ہے اوے نتھو ا تو کتھے؟ یوں نتھو احمد یار کو اپنے ہاں رہنے کی التجاء کرتا ہے مگر بادل نخواستہ احمدیار خان کو پاکستان جانا پڑتا ہے۔آخر میں احمد یار خان یہ کہہ کے اجازت لیتا   ہے کہ ہم دونوں موچی ہیں یہاں بھی موچی تھے اور وہاں بھی موچی رہیں گے تو پھر یہ بٹوارہ اور قتل گری کیوں؟

اک اور منظر دیکھیے

اک ہندو لڑکی پاکستان کی جانب گامزن ہے۔پوچھنےپہ بتاتی ہے کہ اسے اک مسلم لڑکے امتیاز سے پیار ہوگیا تھا۔مگر لڑکے کو محبوبہ کے اہل و عیال اس لئے قتل کردیتے ہیں کیونکہ لڑکا مسلم ہے ۔مگر لڑکی کی  محبت کو نظر انداز کیا جاتا ہے۔بٹوارہ کے دوران امتیاز کے والدین پاکستان ہجرت کرتے ہیں تو لڑکی ساتھ شامل ہوجاتی ہے تاکہ وہ  بیوہ عورتوں کی طرح  رہتے ہوئے بھی اپنے محبوب کے والدین کی خدمت کرے۔

ناول خون اور آنسوؤں کے مجموعے سے لکھا  گیا  ہے۔مسلم ہندو اور سکھوں کے خون اور عزت کے پیاسے  ہیں جبکہ ہندو اور سِکھ مسلمانوں کے۔اک مسلم لڑکی کو دسیوں نو مسلم زیادتی کا نشانہ بنا رہے ہیں تو مسلم سِکھوں اور ہندؤں کی عزت و ناموس کو تار تارکر رہے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

آخرمیں مصنف لکھتے ہیں ماضی میں جو کچھ بیتا اسےبھول کر مستقبل کو درست بنایا جائے اور بجائے قوم پرست اور  متعصب ہونے کے، ہم تعلیم,خوراک اور صحت و معیشت کی بہتری کےلئے تگ و  دو کریں اور ایٹم بم,نفرت,انتشار اور تعصب کا خاتمہ کرکے بہترین,مہذب اور ترقی یافتہ ہمسایہ   ممالک بنیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply