’’ایک گدھے کی سرگزشت‘‘ کرشن چندر کا طنزیہ و مزاحیہ ناول ہے۔ اس ناول میں انھوں نے طنز و مزاح کےلبادے میں معاشرتی، سیاسی اور نفسیاتی حقائق کو بے نقاب کیا ہیں۔ اس ناول کا مرکزی کردار ایک گدھا ہے جو انسانوں کی طرح بولتا، پڑھتا اور سمجھتا ہے۔ گدھے نے لکھنا پڑھنا کچھ اس طرح سیکھا کہ جب وہ بارہ بنکی کے دھنو کمار کی ملکیت میں تھا تو اس وقت لکھنؤ کے ایک جانے مانے بیرسٹر سید کرامت علی شاہ کی کوٹھی بن رہی تھی اور یہ گدھا وہاں اینٹیں ڈھوتا تھا۔ سید کرامت علی شاہ اخبار بینی اور کتب بینی کے دل دادہ تھے اس لیے انھوں نے سب سے پہلے کوٹھی کا وہ حصہ تعمیر کیا جہاں لائبریری تھی۔ کرامت علی شاہ علی الصبح لائبریری میں بیٹھ کر زور زور سے مطالعہ کرتے تھے۔ گدھا بھی اس کے پہلو میں کھڑا ہوجاتا اور اس کو سنتا رہتا ہے۔ بعد میں گدھے کو بھی پڑھنے کی لت لگ گئی۔ وہ اتنا ماہر ہوا کہ سید کرامت علی شاہ سے مطالعے میں آ گے آگے رہتا۔ ایک دن سید کرامت علی شاہ کی کوٹھی تیار ہوجاتی ہے اور دھنو اور اس کے گدھے کو وہاں سے رخصتی مل جاتی ہے۔ دھنو گدھے کو مارتا پیٹتا گھر لے آتا ہے اس لیے گدھا پڑھنے اور دھنو کے ظلم سے چھٹکارا پانے کے واسطے سید کرامت علی شاہ کی کوٹھی پر واپس آنے کا ارادہ کرتا ہے کیوں کہ وہ گدھے کو پسند کرتا تھا اور اس سے کہتا کہ کاش! اگر تو گدھا نہ ہوتا تو میں تجھے اپنا بیٹا بنا لیتا۔ جب گدھا وہاں پہنچتا ہے تو اسے پتہ لگ جاتا ہے کہ اس کی کوٹھی پر رات کو فسادیوں نے حملہ کیا اور کرامت علی شاہ اپنی جان بچا کر پاکستان چلے گئے۔ اس کی کوٹھی لاہور کے گنڈا سنگھ پل فروش کو مل جاتی ہے جو لائبریری میں کتابوں کی جگہ پل رکھ دیتے ہیں۔ اس سپاکی کا بیان(جس میں علم کی ناقدری کا نوحہ پوشیدہ ہے) کرشن چندر یوں کرتے ہیں:
’’یہ شیکسپیئر کاسٹ گیا اور تربوزو کا ٹوکرا اندر آیا۔ یہ غالب کے دیوان باہر پھینکے گئے اور ملیح آباد کے آم اندر رکھے گئے۔ یہ خلیل جبران گئے اور خربوزے آئے۔ تھوڑی دیر کے بعد سب کتابیں باہر تھیں اور سب پل اندر تھے۔ افلاطون کے بجائے آلو بخارا، جوش کی جگہ جامن، مومن کی جگہ موسمبی، شیلے کی جگہ شریفے، سقراط کی جگہ سیتا پل، کیٹس کی جگہ ککڑیاں، بقراط کی جگہ بادام، کرشن چندر کی جگہ کیلے اور آل احمد کی جگہ لیموں بھرے ہوئے تھے ‘‘(۱)
کتابوں اور عالموں فاضلوں کی بے حرمتی دیکھ کر گدھا بارہ بنکی سے دہلی ہجرت کرتا ہے۔ دہلی میں گدھا فسادات کا سامنا کرتا ہے۔ راستے میں ایک شخص کی مدد کرتا ہے جو کہ مسلمان ہوتا ہے اس کو راستے ہی میں ہندو مار دیتے ہیں۔ گدھا ایک ہندو کے قبضے میں آجاتا ہے۔ جب وہ ہندو مسلمانوں کے گاؤں سے گزرتا ہے تو اسے مار بھی دیا جاتا ہے۔ اب گدھا ایک مولوی صاحب کے حصے میں آجاتا ہے۔ گدھا مولوی کے ہاتھوں سے باگ جاتا ہے اور کئی دنوں کے سفر کے بعد دلی پہنچ جاتا ہے۔ دلی میں بھی انھیں ہر طرف ریفیوجی نظر آتے ہیں۔ وہاں پر سنیما کے علاوہ وہ جگہ جگہ وہ نامردی کی دوائیوں اور طاقت کی گولیوں کے اشتہار دیکھتا ہے۔ ایک لڑکی اپنے حسن و جمال کو نمایاں کیے ہوئی تانگے میں جارہی ہوتی ہے جس پر لکھا ہوتا ہے کہ اصلی طاقت کی گولی اندا سنگھ جلیبی والے سے خریدیں۔ دلی کی یہ بے ہنگم تہذیب دیکھ کر گدھا بے اختیار ہنسنے (ہانکنے) لگتا ہے۔ لوگ گدھے کو یوں دیکھ کر قہقہے لگاتے ہیں اس پر گدھا کہتا ہے : ’’وہ بے چارے میری بے ہنگم آواز پر ہنس رہے تھے اور میں ان کی بے ہنگم تہذیب کا ماتم کررہا تھا۔(۲)
اس کے بعد گدھا انڈیا گیٹ پہنچ جاتا ہے وہاں گھاس چرتے ہوئے پولیس کے ہاتھوں لگ جاتا ہے۔ پولیس کانسٹیبل ایک گدھے کو بولتا دیکھ کر حیران ہوجاتا ہے اور اسے تھانے لاتا ہے۔ تھانے میں پولیس اسےغیر ملکی جاسوس سمجھ کر خوب پیٹتے ہیں لیکن وہ تو گدھا ہی ہوتا ہے۔ پھر اسے نیلام کیا جاتا ہے اور بالآخر رامو دھوبی اسے خرید لیتا ہے۔ رامو اس پر کپڑے لاد کر دھوبی گھاٹ لے جاتا رہتاہے۔ گدھے کی زندگی ایک کھونٹی سے دوسری کھونٹی تک، گھر سے گھاٹ تک اور گھاٹ سے گھر تک محدود ہوجاتی ہے۔ رامو کے ہاں نہ کوئی کتاب ہوتی ہے اور نہ اخبار جسے گدھا دیکھ اور پڑھ سکے اور دنیا کے حالات سے باخبر ہوسکے۔ ایک دن رامو جمنا کے کنارے کپڑے دھو رہا ہوتا ہے کہ ایک مکرمچھ اسے ہڑپ لیتا ہے اور یوں رامو کی بیوی اور بچے بے سہارا ہوجاتے ہیں۔ گدھا رامو کے خاندان کو انصاف دلوانے کا بیڑا اٹھاتا ہے اور مختلف محکموں میں عرضی پیش کرنے کا ارادہ کرلیتا ہے۔
گدھا سب سے پہلے کرشن نگر کی میونسپل کمیٹی کے محرر سے ملاقات کرتا ہے اور اسے رامو کی موت اور خاندان کی بدحالی کے حوالے سے درخواست پیش کرتا ہے۔ کمیٹی کا محرر مختلف حیلے بہانے کرتا ہے جب بات نہیں بن پاتی تو آخر میں کہتا ہے کہ جہاں یہ واقعہ پیش آیا ہے وہ جگہ ہماری حدود سے باہر ہے۔ وہ علاقہ دلی میونسپلٹی کے پاس ہے۔ گدھا وہاں جانے کا ارادہ کرتا ہے۔ دہلی میونسپلٹی کے چیئرمین سے اس کی ملاقات ہوتی ہے۔ چیئرمین اسے ایک بہروپیا سمجھتا ہے اور کہتا ہے کہ کیا تم نے ایک گدھے کے بہروپ میں الیکشن لڑنے کا ارادہ کیا ہے؟ گدھا اسے یقین دلانے کی کوشش کرتا ہے کہ میں ایک گدھا ہوں۔ غصے کی وجہ سے چیئرمین کے منہ سے سگار گر جاتا ہے اور کمرے میں موجود فائلوں کو اگ لگ جاتی ہے۔ فائر بریگیڈ والوں کو بلایا جاتا ہے اور گدھے کو وہاں سے بھگا دیا جاتا ہے۔ پھر ایک بڈھے کلرک کو گدھا سارا قصہ سناتا ہے۔ وہ سرمایہ داروں اور بے رحم سماج کو صلواتیں سناتا ہیں اور پھر گدھے سے کہتا ہے کہ اگر دو روپے ہو تو تمھاری عرضی لکھ کر دفتر بھیجوا دیتا ہوں۔ گدھا اسے کہتا ہے کہ میں تو دھوبی کا گدھا ہوں نہ گھر کا نہ گھاٹ کا، میرے پاس روپے کہاں سے ہوں گے۔ یہاں سے بھی گدھا ناامید چلا جاتا ہے اور سیدھا نوآبادی کی دفتر پہنچتا ہے۔ دفتر کو دیکھ کر اس پر بیوٹی پارلر کا گمان کرتا ہے۔ وہاں ایک حسین و جمیل لڑکی کو عرضی پیش کرتا ہے۔ وہ ایک ایک صاحب کو فون ملاتی ہے۔ دوسری طرف سے تمام صاحبان یوں باتیں کرتے ہیں کہ گویا اس لڑکی کی آواز سننے کےلیے برسوں سے ترس رہے تھے۔ ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ تو یہاں تک کہہ دیتا ہے کہ بھئی نرملا ! تم کو وہ ساڑھی پسند آئی؟نرملا بھی شوخی سے بول دیتی ہے، جی وہی پہنے ہوئی ہوں۔ ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ سے آخرکار گدھے کی ملاقات ہوجاتی ہے۔ وہ اسے واقعہ بیان کرتا ہے۔ ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ اسے کہتا ہے کہ یہاں صرف پاکستانی ریفیوجی لوگوں کی مدد کی جاتی ہے۔ گدھا اسے کہتا ہے کہ ہندوستانی ناداروں اور ضرورت مندوں کا کیا ہوگا۔ گدھے کو باہر دھکے دے کر نکال دیا جاتا ہے۔ باہر آکر وہ حور شمائل نرملا گدھے دے کہتی ہے:
’’سپرنٹنڈنٹ ٹھیک کہتا ہے۔ تم اگر پاکستان سے آئے ہوتے پھر چاہے گدھے ہی کیوں نہ ہوتے تمھیں یہاں سے مدد مل جاتی۔ اب تو تمھیں یہاں سے ڈیپارٹمنٹ آف لیبر اینڈ انڈسٹریز میں جانا پڑے گا۔‘‘(۳)
گدھا مذکورہ ڈیپارٹمنٹ کی راہ لیتا ہے۔ وہاں شری پی۔کیو۔رنگا چاری اور وائی۔زیڈ۔سبرمنیم سے ملاقات کرتا ہے۔ رنگا چاری دس زبانیں جانتا تھا اور دس مزید سیکھ رہا تھا۔ انگریزی آکسفورڈ کے معلموں اور اردو مولانا ابوالکلام آزاد کی طرح بولتا تھا۔ اسی طرح سبرمنیم پچیس زبانیں، دس سرمائے دار اور دو وزیروں کو اچھی طرح جانتا تھا۔ ان لوگوں نے گدھے کی عرض داشت کو بڑی سنجیدگی سے سنا۔ اس پر کافی بحث و تمحیص کی اور آخر میں اس نتیجے پر پہنچے کہ رامو کو مگر مچھ نے مارا ہے اس لیے یہ مسئلہ ہمارا نہیں بل کہ مچھلیوں کے ڈیپارٹمنٹ کا ہے۔
گدھا مچھلیوں کے ڈیپارٹمنٹ چلا جاتا ہے۔ وہاں ایک بڈھے کلرک سے ملاقات ہوتی ہے جو سماعت سے محروم ہوتا ہے۔ وہ مسئلے کو مزید گھمبیر بنا دیتا ہے۔ اس ڈیپارٹمنٹ میں ایک ادھیڑ عمر کے انگلیو انڈین سے گدھا ملتا ہے۔ وہ آخر میں یہ ترکیب نکالتا ہے کہ رامو چوں کہ دھوبی تھا اور دھوبی کا تعلق صابن سے ہے اور صابن کے درآمد برآمد کا تعلق کامرس ڈیپارٹمنٹ سے ہے اس لیے وہ گدھے کو کامرس ڈیپارٹمنٹ جانے کا مشورہ دیتا ہے۔گدھا من سکھ لال کامرس منسٹر کی کوٹھی پر جاتا ہے۔ وہ گدھے سے بہت اچھے طریقے سے پیش آتا ہے اور اسے مشورہ دیتا ہے کہ یہ مسئلہ وزیراعظم پنڈت جواہر لال نہرو کے علاوہ کوئی حل نہیں کرسکتا۔
جواہر لال نہرو سے گدھا ایک طویل ملاقات کرتا ہے۔ اسے مسئلہ بیان کرتا ہے اور کہتا ہے کہ کسی خاندان کی سرفہرست کا مرجانے کی صورت میں اس خاندان کی نگہداشت کی ذمہ داری حکومت کی ہونی چاہیے۔ ملاقات کے آخر میں گدھے کی فرمائش پر نہرو اس پر بیٹھ کر ایک دو چکر لگاتا ہے۔ جس سے گدھا شہرت کی سیڑھیوں پر چڑھنے لگ جاتا ہے۔ اخباروں میں خبریں چھپ جاتی ہیں کہ ایک گدھے نے وزیراعظم سے ملاقات کی۔ ایک پریس کانفرنس بھی گدھے کےلیے منعقد کی جاتی ہے۔ کانفرنس میں گدھے سے مختلف سوالات پوچھے جاتے ہیں کہ نہرو سے کس حوالے سے باتیں ہوئیں۔ اس کے بعد سیٹھ برجوٹیا گدھے کی خوب مہمان داری کرتا ہے اور اسے اپنی کوٹھی پر بلاتا ہے۔ اس کو ایک الگ کمرہ دیتا ہے اور کھلاتا پلاتا ہے۔ سیٹھ برجوٹیا گدھے سے اصل بات کرنے کےلیے بے تاب ہوتا ہے۔ گدھا اسے کہتا ہے کہ نہرو نے پانچ کروڑ کے ایک ٹھیکے کا بتایا۔ برجوٹیا اتنی رقم کا سن کر پوری بات بھی نہیں سنتا اور یوں سمجھ لیتا ہے کہ گویا یہ ٹھیکہ گدھے کے ساتھ طے ہوا ہے۔ اس بعد گدھے کے وارے نیارے ہوجاتے ہیں۔ چاندنی چوک میں گدھے کےلیے جلوس نکالی جاتی ہے۔ عورتیں گدھے کا خوب استقبال کرتے ہیں۔ ان کو مختلف خوشبوؤں سے معطر کیا جاتا ہے۔ گدھا کہتا کہ میں نے زندگی میں پہلی بار خود کو اتنا صاف ستھرا محسوس کیا۔ وہ دہلی میونسپلٹی جس نے اس گدھے کو پہلی بار ریجیکٹ کیا تھا اس کو بلانے کی فرمائش کرتا ہے۔اسی طرح سیٹھ من سکھ لال اپنی کوٹھی میں گدھے کے اعزاز میں ایک بڑی پارٹی کا اہتمام کرتا ہے جس میں بڑے بڑے لوگ بلائے جاتے ہیں۔ ہندوستان کے نامی گرامی سیٹھوں اور تاجروں سے گدھے کی ملاقات ہوتی ہے۔ یہ سب صرف اس سستی شہرت کے واسطہ ہوتا ہے کیوں کہ یہ گدھا جواہر لال نہرو سے ملا ہے اور ان لوگوں کی نظر میں گدھے نے نہرو کے ساتھ پانچ کروڑ کے ٹھیکے پر دست خط کیا ہے۔
سیٹھ من سنگھ لال اپنی خوب صورت بیٹی روپ وتی کی شادی گدھے کے ساتھ طے کرتا ہے۔روپ وتی بھی اس واسطے تیار ہوجاتی ہے کہ پیسے اس کے نام ہوجائیں گے۔ اسی اثنا گدھے کو من سنگھ لال کے توسط سے مقابلہ حسن میں صدارت کا شرف بھی حاصل ہوجاتا ہے۔ گویا انسانوں میں حسنِ اول کا انتخاب ایک گدھے کے ہاتھ میں دیا جاتا ہے کہ وہ مختلف حسیناؤں میں مِس ہندوستان کو چنے گا۔ گدھا جب مقابلہ حسن کے نتیجے کے حوالے سے تقریر کرتا ہے تو حیرت انگیز حقائق بیان کرتا ہے کہ یہاں جس حسن کا نظارہ ہم نے کیا یہ کناٹ پلیس، مال روڈ اور سول لائن کا حسن ہے۔ یہ بڑے بڑے گھروں کے پرتعیش و پرسکون ماحول میں پلا ہوا حسن ہے۔ اس حسن نے نہ غم دیکھا ہے اور نہ کوئی فاقہ۔ اس حسن نے چیتھڑے نہیں پہنے نہ سڑکوں پر سویا ہے۔ حسن تو اس مزدور عورت کا ہے جو دو بچوں کی ماں ہے اور کانپور ٹیکسٹائل مل میں نوکر ہے۔ دو بچوں کی ماں ہونے کے باوجود وہ اس قدر خوب صورت ہے کہ اگر وہ کسی طریقے سے اس مقابلے میں شرکت کرسکتی تو آپ سب حیران رہ جاتے۔ ایسی باتیں جب گدھا کرتا ہے تو اس کو ذلیل اور کمینہ کہہ کر بھگا دیا جاتا ہے۔ بھاگتے بھاگتے اس کی ملاقات نامی گرامی چند ادیبوں، مفکروں، سنگیت کاروں سے ہوتی ہے۔ وہاں پر مختلف نظریات اور تحاریک پر تبادلہ خیال کیا جاتا ہے۔ روپ وتی پھر آکر اپنے ہونے والے شوہر (گدھے)کو پکڑ کر لے جاتی ہے۔ من سنگھ لال کی کوٹھی میں راز افشاں ہوجاتا ہے کہ جس پانچ کروڑ روپے کی بات ہوئی تھی وہ کوئی ٹھیکہ نہیں تھا بل کہ یہ برما شیل آئیل ریفائنری کے پراجیکٹ کا کنٹریکٹ تھا۔ اس کے بعد روپ وتی اور من سنگھ گدھے کو مار مار کر اس کی ہڈیاں، پسلیاں توڑ دیتے ہیں۔
تلخیص سے پتہ چلتا ہے کہ کرشن چندر کا ناول “ایک گدھے کی سرگزشت” حقائق کا مرقع ہے۔ اس ناول میں ہر اس ادارے کو نشانہ زد بنایا گیا ہے جو سماج میں عام سے عام آدمی کی مدد کےلیے بنایا گیا ہے۔ رامو جوکہ ایک دھوبی ہوتا ہے اس کے مرنے کے بعد اس کا خاندان فاقے برداشت کررہا ہے۔ ایک گدھا اٹھتا ہے اور انسانوں سے انصاف کی بھیک ایک انسان ہی کےلیے مانگتا ہے۔ لیکن یہ انسان نما انسان جن کے اندر انسانیت کا ذرہ بھی باقی نہیں کوئی رحم نہیں دکھاتے۔ گدھا جو صبر و تحمل کی علامت ہے اپنی کوشش جاری رکھتا ہے۔ ایک چھوٹے سے چھوٹے کلرک سے ہوکر منسٹروں، وزیروں، آفیسروں سے ہوتے ہوئے وزیراعظم تک پہنچتا ہے لیکن وزیراعظم نہرو بھی اسے نصیحت کی دو باتیں کہہ دیتا ہے اور محض رامو کے بیوی بچوں کےلیے سو روپے دے دیتا ہے۔ عام آدمی کا مسئلہ اگر وزیراعظم تک پہنچ جائے اور اس کے حل کےلیے کوئی اقدام نہ کی جائے تو یہ ایک بڑا المیہ ہے۔
ناول کے ابتدا ہی میں تقسیم ہند کے فسادات کا ذکر ملتا ہے۔ اول تو کرامت علی خان کی کوٹھی فسادات کی نذر ہوجاتی ہے۔فسادات کا اثر دیکھیے کہ اس کی لائبریری ایک فروٹ شاپ میں تبدیل ہوجاتی ہے۔ اس کے بعد گدھا جب دلی کی ہجرت کا ارادہ کرتا ہے تو راستے میں اسے ایک بھٹکا ہوا داڑھی والا مسلمان ملتا ہے جس کے پیچھے لوگ لگے ہوتے ہیں۔ گدھا انسانیت کا مظاہرہ کرکے اس شخص کی مدد کرتا ہے۔ راستے میں ہندو اسے گھیر لیتے ہیں۔ وہ اپنی جان بچانے کی بہت کوشش کرتا ہے لیکن بے سود۔ گدھا ایک ہندو کے حصے میں آجاتا ہے۔ جب وہ ہندو گدھے سمیت مسلمانوں کے گاؤں کا سامنا کرتا ہے تو ایک مسلمان کہتا ہے کہ دیکھو یہ غریب گدھا کسی مسلمان کا لگ رہا ہے اور اسے ایک فسادی ہندو نے قبضے میں لیا ہے۔ اس گاؤں کے فسادی مسلمان، ہندو کو تہہ تیغ کرکے گدھا اس سے چھین لیتے ہیں۔ اس کے بعد گدھا ایک مولوی کے حصے میں آجاتا ہے۔ گدھا اس سے آزادی طلب کرتا ہے لیکن مسلمان اس کو مالِ غنیمت سمجھتا ہے۔ وہ گدھے سے مذہب کے بارے میں پوچھتا ہے کہ :
’’مولوی : اچھا یہ بتاؤ کہ تم ہندو ہو یا مسلمان۔ پھر ہم فیصلہ کریں گے(گدھے کو آزاد کرنے کا)۔
گدھا : حضور میں نہ ہندو ہوں نہ مسلمان، میں تو ایک گدھا ہوں۔ اور گدھے کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔
مولوی : میرے سوال کا ٹھیک ٹھیک جواب دو۔
گدھا : ٹھیک تو کہہ رہا ہوں مولوی صاحب ایک مسلمان یا ہندو گدھا ہوسکتا ہے لیکن ایک گدھا مسلمان یا ہندو نہیں ہوسکتا۔‘‘(۴)
اسی طرح جب گدھا دلی پہنچتا ہے تو وہاں بھی اسے چاروں طرف ریفیوجی ہی ریفیوجی نظر آتے ہیں۔ کرشن چندر اگرچہ ہندو تھے لیکن ایک مصنف ہونے کے ناطے انھوں نے مذہبی تفاوت کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ہندو و مسلمان دونوں کے مظالم بیان کیے ہیں۔
غربت و افلاس اور بھوک کا بیان اس ناول میں رامو کے خاندان کے توسط سے ہوا ہے۔ یہ ترقی پسندوں کا مرغوب موضوع ہے۔ کرشن چندر ایک ایسے تخلیق کار ہیں جو ترقی پسندی اور رومانویت کے سنگم پر کھڑے نظر آتے ہیں۔ ان کا اسلوب رومانوی اور جمالیاتی ہے۔ لیکن انھوں نے خود کو کسی مخصوص مکتبہ فکر تک محدود نہیں رکھا۔ بدلتی زندگی کے تمام رجحانات ان کی فکر کا حصہ ہیں۔ مذکورہ ناول میں رامو کا کردار کپڑے دھوتا ہے اور اپنے اپنی بیوی بچوں کی کفالت کرتا ہے۔ سنیما جانے کےلیے ترستا رہتا ہے لیکن جب اپنے جیب کو دیکھتا ہے تو اس کے من میں خیال آتا ہے کہ اگر سنیما گیا تو آٹا کہاں سے آئے گا۔ ایک روز تنگ آکر (چھ مہینے بعد)سنیما کا رخ کرتا ہے اور تاڑی بھی پی لیتا ہے لیکن جب گھر پہنچتا تو بیوی اس کی خوب خاطر مدارت کرتی ہے کہ گھر میں ہم بھوکے مر رہے ہیں اور تم عیاشیاں کرتے پھر رہے ہو۔ اس روز رامو کو بیوی کی طرف سے تھپڑ بھی ملتا ہے۔ اس روز رامو کے تاثرات کچھ یوں ہوتے ہیں :
’’رامو نے کہا، میں بھی تو بھوکا رہا ہوں۔ سچ کہتا ہوں پیٹ کی بھوک بُری بلا ہے لیکن کبھی کبھی کوئی ایسا بھوک بھی جاگ پڑتی ہے کہ رہا نہیں جاتا، کیا ہوا دھوبی ہوں آخر کو انسان ہوں، پیٹ کی بھوک کے سوا اور بھی بھوک لگتی ہے ایسی کہ دل اندر ہی اندر بھٹی کی طرح سلگنے لگتا ہے۔ ‘‘(۵)
جاری ہے
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں