لیٹر باکس/علی عبداللہ

وہ کب سے اس جگہ موجود تھا کوئی بھی نہیں جانتا یا شاید کسی کو یہ جاننے میں دلچسپی ہی نہیں تھی۔ البتہ یہ بات طے تھی کہ وہ علاقے کے لوگوں کے رازوں کا امین تھا۔ یہاں کے لوگ اپنے جذبات کا اظہار کرنے اور اپنا حال بانٹنے میں اسے بے حد مددگار مانتے تھے۔ ہاڑ ہو یا ساون یا پھر پوہ، وہ ہمیشہ اسی جگہ اپنا بسیرا کیے رکھتا تھا۔

 

 

 

یہاں شریں کا ایک گھنا درخت تھا جس کی شاخیں اس پر چھاؤں کیے رکھتیں، پاس ہی ایک پرانا نلکا تھا جہاں کچھ لوگ ڈھور ڈنگروں کے لیے پانی بھرتے اور اس سے کچھ فاصلے پر ایک برائے نام سرکاری سکول تھا جہاں طلبا  کم اور بھیڑ بکریاں چرتے ہوئے زیادہ دکھائی دیا کرتی تھیں۔ ہفتے میں دو تین مرتبہ ایک اجنبی شخص اس کے پاس آتا اور کچھ دیر اس کے پاس ٹھہر کر پھر واپس چلا جاتا تھا۔ علاقے کے لوگوں کے لیے یہ بہت جذباتی لیکن امید بھرا لمحہ ہوتا تھا۔ چونکہ وقت کے ساتھ ساتھ وہ کافی کمزور ہو چکا تھا لہذا وہ اکثر اس بات پر افسردہ رہتا کہ کیا اس کے جانے کے بعد لوگوں کے جذبات و احساسات یونہی برقرار رہیں گے؟

اس کے پاس کئی لوگ آتے جاتے رہتے تھے لیکن کچھ لوگوں کو وہ کبھی نہیں بھول پایا تھا۔ اسے یاد تھا ہاڑ کی ایک ویران دوپہر ایک بوڑھا اس سے اپنے شہر جا کر بھول جانے والے بیٹے کا شکوہ لے کر آیا تھا۔ اس بوڑھے کی آنسوؤں سے لبریز آنکھوں میں اداسی، بے بسی اور وقت کی بے وفائی واضح دکھائی دیتی تھی۔ پھر اسے وہ نوجوان بھی یاد تھا جس نے ایک شام بہت گرم جوشی سے ایک دوست کو اپنی شادی پر آنے کا دعوت نامہ بھیجا تھا، لیکن وہ دوست شہر کی مصروفیت کا بہانہ بنا کر کبھی اس کی شادی پر نہ پہنچ سکا تھا۔ اسے اب تک اس نوجوان کی گرمجوشی اور دوستی یاد تھی۔ پھر وہ اس خوبصورت مٹیار کو کیسے بھول سکتا تھا جس نے سب کی نظروں سے بچا کر ایک دوست کے ہاتھ اپنے محبوب کو محبت نامہ بھیجا تھا۔ اس نے کیا لکھا تھا مکمل تو یاد نہیں لیکن اسے کچھ سطور ابھی تک یاد تھیں کہ “محبت ہجر اور وصل کی محتاج نہیں ہوتی، ہاں البتہ دیدار اس کی فقط واحد آرزو کہی جا سکتی ہے۔ محبت ہزاروں میل دور کسی شخص کے خیال سے دھڑکنوں کو بے قرار بھی کر سکتی ہے اور محبت کسی محفل میں انسان کو تنہا بھی کر سکتی ہے۔ پھر دھاگے، تعویز، تالے، سکے کچھ معنی نہیں رکھتے یہ تو بس انسان اپنے خدشوں سے فرار کا ایک راستہ سمجھتا ہے”۔

اچانک اسے اس لڑکے کا پیغام بھی یاد آیا جو ہر روز اس کے پاس آ کر دیر تک بیٹھا رہتا تھا۔ وہ کسی کی بے وفائی پر اپنا یہ آخری پیغام بھجوانا چاہتا تھا، “عورت اس جہاں کی وہ خوبصورتی ہے جسے محبت کا نام دینے کی ضرورت ہی نہیں، وہ تو اَن چاہے بھی چاہی جاتی ہے۔ وہ کائنات کا ایسا رنگ ہے جس کے رنگ میں محبت کا روپ دھارے بِنا ہی رنگا جا سکتا ہے۔ محبت پر عورت کا وجود کبھی حاوی نہیں رہا بلکہ محبت تو کائنات کا وہ خوبصورت ترین جذبہ ہے جو خواہشات سے بالاتر اور وقت کی قید سے آزاد ہے اور اسے صرف مادی مجسموں میں پھونک کر مسیحائے محبت کا روپ دھار لینا درحقیقت اس خوبصورت جذبے کو بے رنگ کر دینے جیسا ہے”۔

اسے وہ سپاہی بھی یاد تھا جس نے اس کے ہاتھ اپنی بوڑھی ماں کو محاذ سے جلد واپس لوٹنے کی امید دلائی تھی اور کہا تھا کہ وہ جب آئے گا تو اس کے ہاتھ کا بنا ہوا ساگ ضرور کھائے گا۔ وہ بوڑھی بہت عرصے تک اس امید پر زندہ رہی مگر پھر وہ بھی مایوس ہو کر ایک روز خاک میں جا ملی۔ اسے وہ شخص بھی نہیں بھولا تھا جو اسے کہتا تھا کہ میرا رقعہ بھجوا دو مگر اس کے ہر رقعے پر کسی کا نام یا پتہ موجود نہیں ہوتا تھا۔ ایک رقعے کا کچھ حصہ اسے یاد آنے لگے جس میں کہا گیا تھا، ” یہ سب لکھنے پر بھی رات کے اس پہر جب تم سامنے نمودار نہیں ہوتے تو اس صفحہ قرطاس پر الفاظ کی بانہوں سے لپٹ کر میں بہت دیر تک یونہی سمٹا رہتا ہوں۔ اور پھر لفظوں سے تیرے نمودار ہونے کا انتظار کرتے کرتے نجانے کب انہی الفاظ کی باہوں میں محو خواب ہو کر میں تیرے روبرو آ جاتا ہوں”۔
کیا کچھ یاد نہیں تھا اسے، لیکن یہ اس کا ظرف تھا کہ آج تک اس نے یہ سب کسی غیر پر آشکار نہیں ہونے دیا تھا۔

ابھی وہ یہ سب سوچ ہی رہا تھا کہ اچانک وہ اجنبی جو ہر ہفتے اس کے پاس آیا کرتا تھا، اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ بغیر کچھ کہے اسے اپنی جگہ سے بے رخی سے اٹھانے لگا۔ بوڑھا ہونے کے باوجود اس نے مزاحمت کی، لیکن جیت اس اجنبی کی ہوئی۔ اس نے اسے اٹھا کر ایک پرانی گاڑی کے پچھلے حصے میں یوں پھینکا جیسا وہ اسے جانتا ہی نہ ہو۔

Advertisements
julia rana solicitors

پھر اپنے ساتھیوں سے وہ یہ کہتا ہوا گاڑی میں بیٹھ گیا کہ “محکمہ اپنے نظام کو بدلنے میں کامیاب نہیں ہو سکا، لہذا اس لوہے کے بے کار لیٹر بکس کی اب ضرورت نہیں رہی”۔ یہ کہہ کر انہوں نے تیزی سے گاڑی موڑی تو پچھلے حصے سے کئی پھٹے ہوئے، بوسیدہ اور کبھی نہ پہنچنے والے خطوط ہوا میں اڑنے لگے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply