پوسٹ ٹرامیٹک اسٹریس Post Traumatic Stress/سید رضی عمادی

جہاں فوجی سروس سے دستبردار ہونے والے اسرائیلی فوجیوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے، وہیں اسرائیلی فوجیوں کی خودکشی کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ صہیونی اخبار “یدیوت احرانوت” نے جمعرات (3 اگست) کو مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں واقع قصبے “نیتنیہ” میں ایک صہیونی فوجی کی خود سوزی کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے دم توڑ گیا۔

 

 

 

 

Yediot Aharanot کے مطابق، اس صہیونی فوجی نے وزارت جنگ سے، “پوسٹ ٹرامیٹک اسٹریس” میں مبتلا ہونے کی وجہ سے “فوج میں معذوری” کی درخواست دی تھی، جسے فوجی حکام نے مسترد کر دیا، فوجی حکام کے اس رویئے پر اس نے خود سوزی کا ارتکاب کیا۔ یہ فوجی 2014ء میں غزہ میں فلسطینیوں کے خلاف جنگ کے دوران نفسیاتی و جسمانی مشکلات کا شکار ہوا تھا۔

اسرائیلی فوج خاص طور پر جنوری 2023ء سے، جب سے بنجمن نیتن یاہو کی نئی کابینہ نے کام کرنا شروع کیا تھا، مشکل سے مشکل تر حالات کا سامنا کر رہی ہے۔ یہ صورتحال نیتن یاہو کی کابینہ کی کارکردگی کی وجہ سے پیدا ہوئی ہے۔ نیتن یاہو کی کابینہ نے اپنے آغاز سے ہی عدالتی اصلاحات کے منصوبے کی تجویز پیش کی تھی، جس کی وجہ سے اس کے خلاف عوامی مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ ان مظاہروں میں اسرائیلی فوجیوں اور مظاہرین کے درمیان جھڑپیں بھی ہوئیں۔ اس صورتحال نے اسرائیلی فوجی دستوں کی نفسیات پر گہرے اثرات مرتب کئے ہیں۔سینکڑوں اسرائیلی فوجیوں نے عدالتی اصلاحات کے منصوبے کے خلاف احتجاجاً اپنی سرگرمیاں روک دی ہیں اور سینکڑوں ریزرو فوجیوں نے فوج میں خدمات سے استعفیٰ بھی دے دیا ہے۔

صہیونی پولیس نے گذشتہ بدھ کو اعلان کیا تھا کہ انہیں درجنوں افراد کی جانب سے درخواستیں موصول ہوئی ہیں، جنہوں نے رضاکارانہ طور پر پولیس فورسز کے ساتھ تعاون کرنے سے انکار کیا ہے، اس دوران متعدد افراد نے پولیس کے ساتھ اپنا تعاون ختم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ عدالتی اصلاحات کے منصوبے پر اسرائیلی فوج کے اعتراض کے علاوہ فوج اور عوام کے درمیان محاذ آرائی بھی فوج پر دباؤ ڈالنے کا ایک عنصر بن گئی ہے۔ مقبوضہ علاقوں میں سیاسی اور سماجی بحران پر قابو پانے کے لیے اسرائیلی فوج بالخصوص پولیس فورسز کو عوام کے خلاف مصروف عمل رہنا پڑتا ہے اور اس صورتحال نے ان کے لیے نفسیاتی مسائل پیدا کیے ہیں۔ اس حوالے سے سابق وزیر جنگ بینی گینٹز کا کہنا تھا کہ ’’فوج اور عوام ایک دوسرے کے ساتھ گھرا تعلق رکھتے ہیں اور اگر عوام میں پھوٹ پڑی تو یہ تقسیم اور فرق فوج کی صفوں میں بھی پھیل جائے گا۔”

واضح رہے کہ نیتن یاہو کی کابینہ اس صورتحال کی ذمہ دار ہے۔ فوج نے یہ مسئلہ پیدا نہیں کیا بلکہ وہ اس سے متاثر ہوئی ہے۔ توقع ہے کہ آنے والے دنوں میں پولیس اور اسرائیلی مظاہرین کے درمیان سڑکوں پر پرتشدد جھڑپوں میں اضافہ ہوگا۔ ایک ایسا عنصر جس سے استعفوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوگا۔ اس بنا پر تل ابیب یونیورسٹی سے وابستہ صیہونی حکومت کے داخلی سلامتی سے متعلق انسٹی ٹیوٹ نے استعفوں کی لہر کی وجہ سے فوجی ڈھانچے اور فوج کے زوال کے امکان پر بات کی ہے۔ یہ ایک ایسی صورت حال ہے کہ اسرائیلی فوج کو ماضی کے سنگین مسائل کا سامنا ہے۔ اسرائیلی فوجی مسلسل ناکامیوں کی وجہ سے ایک ایسے مسئلے کا شکار ہیں جسے “پوسٹ ٹرامیٹک اسٹریس” کہا جاتا ہے۔ یہ مسائل صیہونی حکومت کی مزاحمتی جماعتوں کے ساتھ بار بار کی جنگوں کی وجہ سے پیدا ہوئےہیں۔

صہیونی فوج کے اعلان کے مطابق ذہنی اور جسمانی حالت کے باعث لازمی فوجی سروس سے استثنیٰ کی درخواستوں میں اضافہ ہوا ہے۔ 2015ء میں ذہنی اور جسمانی حالت کی وجہ سے لازمی فوجی سروس سے استثنیٰ کی اوسط درخواستیں 4.5 فیصد تھیں، جو 2020ء میں بڑھ کر 8.5 فیصد ہوگئی ہیں۔ اب اس میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ ذہنی اور نفسیاتی مسائل، فوجی ملازمت سے استثنیٰ کی درخواستوں میں اضافے کا سبب بنتے ہیں، اسرائیلی فوجیوں میں خودکشی میں اضافے کا ایک عنصر فوجی حکام کا سخت رویہ اور مستقبل سے مایوسی بھی ہے۔صہیونی اخبار Yediot Aharonot کے فراہم کردہ اعداد و شمار کے مطابق 2022ء کے دوران 14 اسرائیلی فوجیوں نے خودکشی کی جبکہ 2023ء میں اس میں نمایاں اضافے کا امکان ہے، اس طرح کے اعداد و شمار کی گذشتہ 5 سالوں میں کوئی مثال نہیں ملتی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

بشکریہ اسلام ٹائمز

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply