معرکہ فلسطین-یہ تمنائیں اور یہ ادائیں۔۔نذر حافی

غزہ جل کر راکھ ہوگیا۔ آگ اور بارود کی بارش مسلسل برستی رہی۔ ان دنوں ہماری اصل پریشانی یہی تھی کہ فتح کا کریڈٹ کوئی اور نہ لے جائے۔ آئیے کچھ دیر کیلئے کریڈٹ کی بند گلی سے باہر جھانک کر دیکھتے ہیں۔ باہر کی دنیا میں ایک تنظیم ہے اخوان المسلمین، یہ نام تو آپ نے سنا ہی ہوگا۔ یہ اہل سنت مسلمانوں کی سب سے بڑی سیاسی تحریک ہے۔ اس کی بنیاد خلافت عثمانیہ کے خاتمے کے چھ سال بعد یعنی 1928ء کو مصر میں حسن البنا نے رکھی۔ یہ اس وقت قائم کی گئی جب مسلمانوں کا شیرازہ بکھر چکا تھا۔ اس نے سارے مسلمانوں کو جمع کرنے کیلئے ملت واحدہ کا نعرہ لگایا۔ اس کے نزدیک مسلمانوں کے مسائل کا حل باہم متحد ہونے میں ہے۔ یاد رہے کہ وحدتِ اسلامی کا یہ نظریہ عرب قومیت کی سراسر نفی کرتا ہے۔

اخوان المسلمین نے اپنے نظریئے کے مطابق مسلمانوں کی دینی، عسکری، سیاسی و اجتماعی تربیت کیلئے کوششیں شروع کر دیں۔ جلد ہی اسے عرب ممالک میں پذیرائی ملی اور پھر اس کے خوف سے عرب بادشاہتیں کانپنے لگیں۔ چنانچہ 12 فروری 1949ء کو رات کی تاریکی میں حسن البنا کو قاہرہ میں گولی مار کر شہید کر دیا گیا۔ اخوان المسلمین کے اتحاد کے نعرے سے سب سے زیادہ خطرہ عرب ریاستوں نے ہی محسوس کیا۔ بعد ازاں 1956ء میں مصر کے اندر جمال عبدالناصر اخوان المسلمین کی مدد سے برسرِ اقتدار آیا۔ اسے بھی اخوان المسلمین کے نظریات اپنے اقتدار کیلئے انتہائی مہلک محسوس ہوئے۔ چنانچہ اس نے عرب بادشاہوں کے درمیان اخوان المسمین کے مقابلے میں عرب قومیت کے تصور کو بامِ عروج تک پہنچایا۔ اس نے اخوان المسلمین پر پابندی لگا کر اسے کالعدم قرار دیدیا اور اس کے سینکڑوں ممبران و قائدین کو پھانسی دیدی۔ تاہم جمال عبدالناصر کی موت کے بعد اخوان المسلمین کی تنظیم مصر سمیت مختلف عرب ممالک میں انتہائی نشیب و فراز کے ساتھ، حتی کہ زیرِ زمین جا کر بھی زندہ رہی۔

کئی سالوں کی سخت جدوجہد اور قربانیوں کے بعد 2012ء میں مصر میں اخوان المسمین کے محمد مُرسی انتخابات جیت کر صدر بننے میں کامیاب ہوگئے۔ مصر میں اخوان المسلمین کی سُنی حکومت، سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں کیلئے ایک بڑا مسئلہ بن گئی۔ اس سے پہلے اہلسنت کی ترجمانی اور سربراہی سعودی عرب کے پاس تھی۔ سعودی عرب کی رائے کو ہی اہل سنت کی رائے سمجھا جاتا تھا، لیکن اب 2011ء میں مصر کو یہ قیادت ملنے والی تھی۔ چنانچہ عرب ریاستوں نے ایک سال کے اندر ہی مُرسی کا تختہ الٹ دیا۔ یہ ہے اخوان المسلمین اور سعودی عرب کے اختلاف کا پسِ منظر ہے۔

اب آئیے حماس کی طرف۔ لفظ حماس “حركة المقاومة الإسلامية” کا مخفف ہے۔ یہ تنظیم فلسطین میں اخوان المسلمین کی ہی ایک شاخ ہے۔ 1987ء میں شیخ احمد یاسین نے غزہ میں اس کی بنیاد رکھی تھی۔ چنانچہ فلسطین کی حماس نامی تنظیم سے سعودی عرب اور دیگر عرب ریاستوں کو وہی خطرہ ہے، جو اُنہیں اخوان المسلمین سے ہے۔ اگلے مرحلے میں ہم ترکی اور حماس کے تعلقات کا جائزہ لیتے ہیں۔ خلافت عثمانیہ کی وجہ سے اہل سنت کی سربراہی کیلئے ترکی کا پلڑا سعودی عرب کی نسبت بھاری ہے۔ دوسری طرف اخوان المسمین کا یہ نظریہ کہ سارے مسلمان ایک قوم ہیں، یہ بھی ترکی کے پلڑے کو بھاری کرتا ہے۔ لہذا ترکی بھی اخوان المسلمین کی ممکنہ حمایت کرتا ہے۔

اب یہاں پر جو لوگ اس حقیقت کو نہیں جانتے، وہ 2023ء میں ترکی کے اندر خلافت عثمانیہ کا اعلان کر دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ 2023ء میں ترکی کا معاہدہ لوازان ختم ہو رہا ہے۔ چنانچہ حالیہ دنوں میں ترکی اگر حماس یا فلسطینی مقاومت کی مدد کرے گا تو خلافت عثمانیہ کا احیاء خطرے میں پڑ جائے گا۔ لہذا ترکی فلسطینیوں کی کوئی بھی عملی مدد نہیں کرسکتا۔ اب ہم یہاں پر یہ عرض کرتے چلیں کہ سوئٹزرلینڈ کے ایک شہر کا نام لوزان ہے۔ اس شہر میں 24 جولائی 1923ء کو سرحدوں کے تعین کیلئے ترکی کا برطانیہ اور اس کے اتحادیوں کے ساتھ ایک معاہدہ ہوا تھا۔ اس کے مطابق ترکی کے ٹکڑے کرکے شام، لبنان، خلیجی ریاستیں، قبرص، اردن اور عراق وغیرہ کو ترکی سے الگ کر دیا گیا تھا۔ جب تک ترکی ہے، تب تک یہ معاہدہ موجود رہے گا۔ اس کی کوئی مدت میعاد نہیں۔ اس کی مدت ختم ہونے کا مطلب یہ ہے کہ الگ ہونے والی ریاستیں اب دوبارہ 2023ء میں ترکی کا حصہ بن جائیں گی۔ ایسا معاہدہ کہیں وجود ہی نہیں رکھتا۔ معاہدہ یہ ہے کہ اس کے بعد فلاں فلاں ریاستیں ترکی سے الگ اپنی مستقل حیثیت رکھتی ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اب اگلی بات یہ ہے کہ خود رجب طیب اردگان کا ویژن بھی دیکھا جائے کہ وہ 2023ء میں کیا کرنا چاہتے ہیں۔ وہ جمہوری اصولوں کے مطابق 2023ء میں دوبارہ صدر منتخب ہو کر ملک کو مزید ماڈرن کرکے یورپی یونین میں شامل ہونا چاہتے ہیں اور اُن کا اہم ترین ہدف ملک کو دنیا کی ٹاپ ٹین یعنی دس بڑی معاشی طاقتوں میں شامل کرنا ہے۔ اگر وہ آج کے اس ماڈرن، سیکولر اور روشن فکر ترکی میں خلافتِ عثمانیہ کے احیاء کی باتیں کریں گے تو اگلے انتخابات میں عوام اُنہیں ووٹ ہی نہیں دیں گے۔ اسی طرح اس جنگ کے دوران کچھ احباب کا موقف پاکستان کے حوالے سے بھی بڑا حیران کن رہا۔ اُن کا کہنا تھا کہ پاکستان فوری طور پر امریکہ و یورپ کے دباو کو مسترد کرے اور اسرائیل پر حملہ کر دے۔ ایسے احباب کی خدمت میں عرض یہ ہے کہ اپنی تمنائیں بھی دیکھیں اور ادائیں بھی۔ امریکہ و یورپ کا دباو مسترد کرنا تو دور کی بات ہے، ہم تو سعودی عرب کا دباو بھی مسترد نہیں کرسکتے۔ اسرائیل پر حملہ تو رہنے دیں، ہم تو ترکی کے ساتھ بھی صرف اتنا ہی چل سکتے ہیں کہ جتنی ڈھیل سعودی عرب دے۔ ہمیں ہماری اوقات یاد دلانے کیلئے کوالالمپور سمٹ ہی کافی ہے، اسے ابھی زیادہ مدت نہیں ہوئی۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply