اپسرا/نور بدر

ہیلو! فون اٹھاتے ہی اس نے خوشگوار لہجے میں کہا۔

ہیلو! دوسری جانب سے آواز آئی۔ ”کہو لڑکی کیا حال ہے؟“
”اجی آپ کا ہی خیال ہے۔“ آج خوش دلی عروج پر تھی
”زہے نصیب، زہے نصیب جو قسمت کی دیوی آج مجھ غریب پہ مہربان ہوئی۔“
”اوہو، آپ غریب کہاں سے ہوگئے۔ محبت کرنے والا دل ہے آپ کے پاس تو سمجھیں سارے جہان کی دولت سمیٹ لی آپ نے۔“ ندرت مسکرائی۔
”لیکن میرا دل اب میرے پاس ہے ہی کہاں۔ اسے تو کوئی حور پری اڑا لے گئی۔“ شرارتی انداز میں کہا گیا تو ایک لمحے کو ندرت کے گال سرخ ہوئے مگر پھر اس نے گلا کھنکارتے ہوئے جیسے خود کو سنبھالا۔ ”آج چاند دیکھا؟“
”چاند دیکھنے کے لیے ہی تو فون کیا ہے۔“
”حیدر۔۔۔“
”تو کیا تم چاند جیسی نہیں ہو؟ اچھا تو پھر چاند کی دیوی ہوگی۔“ حیدر بھی آج موڈ میں لگ رہا تھا۔
”حیدر شرارت نہیں پلیز، چاند کو دیکھو نا آج کس قدر حسین لگ رہا ہے۔ اس کی دودھیا روشنی۔۔۔یوں لگتا ہے بہت سی پریوں نے اسے اپنا مسکن بنا رکھا ہو۔ سچ آج یہ بے حد حسین ہے۔“ وہ جذب سے کہے گئی۔
”ہمم۔۔۔اور مجھے لگتا ہے تم بھی چاند سے ہی زمین پر آ ٹھہری ہو۔ چاند پہ رہنے والی پری ہو کوئی۔“
ایک لمحے میں کئی ستارے ندرت کی آنکھوں میں جھلملائے۔
”لیکن محترمہ رات کے اس پہر چھت پہ کیا کر رہی ہو؟ جانتی نہیں خوبصورت لڑکیوں کو مغرب کے بعد چھت پر نہیں جانا چاہیے۔“ حیدر نے مزید کہا۔
”کیا مطلب نہیں جانا چاہیے۔ اس وقت چھت پر آنے سے کیا ہوتا ہے؟“
”بھوت پریت آجاتے ہیں میڈم۔“ حیدر نے ذرا سنجیدگی سے کہا تو ندرت کھلکھلا کر ہنس دی۔
”توبہ ہے حیدر کیسے دقیانوسی خیالات ہیں آپ کے۔ آج کے دور میں بھوت پریت کہاں ہوتے ہیں بھلا۔ یہ سب باتیں بنی ہوئی ہیں۔“
”باتیں نہیں ہیں بڑے بزرگ یہی بتاتے ہیں۔ ایسا نہ ہو تم چاند دیکھتی رہ جاؤ اور کوئی جن تمہیں دیکھ کر تم پر عاشق ہو جائے۔“
ندرت نے ایک بھرپور قہقہہ لگایا۔ ”اچھا واقعی؟ چلو دیکھتے ہیں پھر آج کہ جن کیسے عاشق ہوتے ہیں۔“
”یعنی تم جنات کو چیلنج کر رہی ہو؟“ حیدر نے کہا۔
”نہیں چیلنج تو نہیں کر رہی لیکن یہ خیال میرے لیے مضحکہ خیز ہے۔ بچپن کی کہانیوں میں کہیں پڑھا تھا پریوں اور جنّات کے متعلق، لیکن مجھے لگتا ہے یہ صرف کہانیاں ہیں۔ کم از کم میں نے تو اپنی زندگی میں کبھی کوئی جن نہیں دیکھا۔“
”نادان لڑکی بار بار جنات کا ذکر مت کرو مجھے ڈر ہے کوئی بھوت پریت حاضر ہی نہ ہو جائے۔“
”کچھ نہیں ہوتا ڈرپوک آدمی میں بس تھوڑی دیر اور یہاں رکوں گی پھر اپنے کمرے میں چلی جاؤں گی۔“ اس نے ذرا سا مسکرا کر کہا مگر حیدر کی جانب سے کوئی جواب نہ آیا۔
”ہیلو! ہیلو! حیدر۔۔۔بات تو کرو۔۔۔“ اس نے موبائل کان سے ہٹا کر دیکھا تو کال منقطع ہوچکی تھی۔
”افوہ شاید سگنل کا مسئلہ ہوگیا۔“ خود کلامی کرتے ہوئے اس نے چاند کو دیکھا ایسے میں ایک تیز ہوا کا جھونکا اسے اپنے عقب سے چھو کر گزرتا محسوس ہوا۔ ایک لمحے کو اس نے پلٹ کر دیکھا۔ بظاہر ہوا ساکن تھی مگر اسے اپنے بال، ہوا کے زور سے ہلتے محسوس ہوئے تھے۔ اس نے اپنی انگلیوں سے بال سنوارتے ہوئے کندھے اچکائے۔ تب ہی فون کی رنگ ٹون بج اٹھی اور وہ نمبر دیکھ کر مسکرا دی۔ سکرین پر حیدر کا نمبر جگمگا رہا تھا۔
”جی جناب! آپ تو رفوچکر ہی ہوگئے۔“ وہ پھر سے مسکرا رہی تھی۔
”ہماری کیا مجال حسینہ کہ آپ کو چھوڑ کر چلے جائیں۔“ حیدر کی آواز کہیں دور سے آتی محسوس ہوئی۔
”مجھے لگتا ہے سگنل کا مسئلہ ہے آواز بہت ہلکی ہے ذرا اونچا بولو۔“
”ہاں تو میں کہہ رہا تھا۔۔۔“ اب کے حیدر کی آواز واضح تھی۔
ندرت کو لگا کسی نے اس کا دوپٹہ ہولے سے کھینچا ہے۔ اس نے سرعت سے رخ موڑا تو دیکھا کہ دوپٹہ کرسی کے ایک کونے میں اٹکا ہوا تھا۔ اس نے سر جھٹک کر دوپٹہ نکالا اور ذرا سا ہونٹوں کو سکیڑا۔
”کیا کہہ رہے تھے؟“
”میں کہہ رہا تھا۔۔۔“
ندرت نے اپنے اردگرد ایک نظر ڈالی جیسے کسی کی موجودگی کا احساس ہوا ہو۔
”پہلے کیمرہ تو آن کرو نا، تم اپنا چاند دیکھو میں اپنا چاند دیکھتا ہوں۔“ حیدر کی زندگی سے بھرپور آواز سنائی دی۔
”لیجیے کیمرہ آن ہوگیا اب کہیےکیا کہہ رہے تھے آپ۔“ ندرت نے مسکراہٹ دباتے ہوئے کہا
”تو۔۔۔میں کہہ رہا تھا۔۔۔“ حیدر نے گہری نظر سے ندرت کو دیکھا پھر بولا:
”یا تو کسی کو جرأت دیدار ہی نہ ہو
یا پھر مری نگاہ سے دیکھا کرے کوئی“

اس کے یک ٹک دیکھنے سے ندرت جھینپ سی گئی پھر گلال ہوتے رخساروں کے ساتھ اپنی مسکراہٹ دباتے ہوئے بولی:

Advertisements
julia rana solicitors

”نہیں بے حجاب وہ چاند سا کہ نظر کا کوئی اثر نہ ہو
اسے اتنی گرمئ شوق سے، بڑی دیر تک نہ تکا کرو“
”واہ واہ آپ تو کمال کر گئیں۔ محبوب اگر حسین ہونے کے ساتھ ساتھ ذہین بھی ہو تو اسے محبوب نہیں قیامت کہتے ہیں۔“ اب کے حیدر نے سرگوشی کی تو ندرت کھلکھلا اٹھی اور اس کی ہنسی کی کھنک، جلترنگ بکھیرتی ہوئی چار سو پھیل گئی۔
”ہے سچ بتاؤ نا کون ہو تم، کہاں سے آئی ہو؟ کوئی اپسرا ہو یا چاند کی دیوی؟“ حیدر کی مخمور آواز گونجی لیکن ندرت ابرو اٹھائے جیسے کسی غیر مرئی نقطے کو دیکھتے ہوئے مسکرا رہی تھی۔ کافی دیر بات کرتے رہنے کے بعد حیدر بولا:
”کچھ کہو نا۔ تمہاری خاموشی سے مجھے تو ڈر لگ رہا ہے۔ عجیب عجیب خیالات آ رہے ہیں ذہن میں۔ کہیں تم بھی کوئی۔۔۔ نہیں تمہارے لیے چڑیل کہنا تو مناسب نہ ہوگا، کہیں تم کوئی مادہ جن تو نہیں؟“ اس نے جھرجھری لی، ”میرے تو رونگٹے کھڑے ہو رہے ہیں۔“
ندرت کی مسکراہٹ گہری ہوتی گئی بلآخر اس کا قہقہہ گونجا۔ ”ارے آپ تو ابھی سے ڈر گئے، ابھی تو چاند کے پار لے کر جانا ہے آپ کو۔“ اس کے لہجے میں معنی خیزی تھی اور انداز پراسرار تھا۔ قریب ہی کہیں عشاء کی اذان کا آغاز ہو چکا تھا۔ حیدر کے تاثرات سے یوں لگ رہا تھا کہ ندرت کے پراسرار لہجے نے حیدر کے جیسے اوسان خطا کر دیے تھے گویا کوئی جن ندرت پر حاوی ہوگیا ہو اور اس کے روپ میں حیدر سے بات کر رہا ہو۔ حیدر کی مسکراہٹ اچانک غائب ہوگئی اور ایک خوف اس کی آنکھوں سے چھلکنے لگا۔
”لگتا ہے اذان ہو رہی ہے میں بند کرتا ہوں۔ بعد میں بات کرتے ہیں۔“ اس نے افراتفری میں کال منقطع کر دی اور ندرت اسے پکارتی ہی رہ گئی۔
اذان ختم ہونے پر کچھ دیر کھلی فضا میں بیٹھے رہنے کے بعد وہ اٹھی اور کچھ گنگناتے ہوئے زینے کی طرف بڑھی۔ فضا میں قدرے خاموشی چھا چکی تھی تب ایک مرتبہ پھر اس کا فون بجنے لگا۔
’حیدر۔۔۔‘ اس نے زیرِ لب کہہ کر فون اٹھایا۔
”ہاں جی کیا ہو رہا ہے؟ یہاں سگنل کا کوئی مسئلہ ہوگیا تھا۔ میں نے دوبارہ کوشش کی مگر تمہارا نمبر مصروف تھا کسی اور کی کال تھی کیا؟“ حیدر نے نارمل انداز میں بات کی۔
”کیا مطلب؟ ابھی تو بات ہوئی ہماری۔“ ندرت کو حیرت ہوئی۔
”اسے تم ابھی کہتی ہو؟ پچھلے آدھے گھنٹے سے میں کوشش کر رہا ہوں تمہارا نمبر دوسری کال پر مصروف تھا۔“
اس کے لہجے میں پہلے جیسی وارفتگی نہیں تھی۔ ندرت کو ایک انجانے سے خوف نے آ گھیرا اور اس نے ایک جھٹکے سے موبائل کان سے پرے ہٹایا۔ ”ندرت، ندرت۔۔۔“ حیدر کی مدہم آواز اس کے کانوں سے ٹکرائی۔
بمشکل سانس کھینچتے ہوئے ندرت نے پیچھے مڑ کر چھت پہ نگاہ دوڑائی۔ ہوا مکمل طور پر ساکن تھی۔ ایک جھٹکے سے اس کے بال اڑے جیسے تیز ہوا چھو گئی ہو۔ اس نے اپنا وجود منجمند ہوتے محسوس کیا۔ موبائل اس کے ہاتھ سے چھوٹ کر گر چکا تھا اور حیدر کی مدھم ہوتی آواز دم توڑ چکی تھی۔ اسے اپنی دائیں طرف ایک آہٹ سنائی دی پھر ایک سرگوشی ابھری:
”چلو دلدار چلو، چاند کے پار چلو، ہم ہیں تیار چلو…“ اور اسے لگا اس کی سانس بھی رک چکی ہے۔ ہوا اب بھی ساکن تھی مگر اس کے بال مسلسل اڑ رہے تھے.۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply