• صفحہ اول
  • /
  • ادب نامہ
  • /
  • ترکوں کا محبوب و مقبول شاعریونس ایمرے۔۔۔سفر نامہ/سلمیٰ اعوان۔۔۔قسط12

ترکوں کا محبوب و مقبول شاعریونس ایمرے۔۔۔سفر نامہ/سلمیٰ اعوان۔۔۔قسط12

ہم لائبریری میں آگئیں۔یقیناًدل چاہتا تھا تھوڑا سا وقت اور یہاں گزارا جائے۔لائبریری کی انچارج مسز ایمل بہت سلجھی ہوئی خاتون تھیں۔سکارف پہنے ہوئے تھیں۔باتیں ہونے لگیں تو احساس ہوا کہ سوچ اسلامی فکر میں گندھی ہوئی ہے ۔ان کے ہاں یہ تاسف بھرا اظہار تھا کہ ہماری نئی نسلیں اُن عظیم شاعروں ،ادیبوں اور فنکاروں کے بارے نہیں جانتی ہیں جنہیں ہم ترجمہ نہیں کرسکے۔ہمارا شاندار ماضی تو جگہ جگہ بکھرا ہوا ہے۔بازاروں،محلوں عجائب گھروں کو چھوڑئیے ہمارے تو قبرستان بھی ہمارا اثاثہ سنبھالے ہوئے ہیں مگر انہیں پڑھنے والے نہیں۔وہ ہمارے جذبات کو زبان دے رہی تھیں۔میں ناامید نہیں۔ایک دن وہ وقت ضرور آئے گا جب ہمیں اپنی عثمانی ترکی زبان کی عظمت کا احساس ہوگا۔جب یہ ایک مضمون کے طور پر سکولوں،کالجوں اور یونیوسٹیوں میں پڑھائی جائے گی۔ہمارے امام حاطب(مذہبی)سکولوں میں تو یہ نصاب کا ایک حصّہ ہے۔مگر اِسے اسکا جائز حق ملنا چاہیے۔
ہمارے امین کہنے میں ہماری دلی تمنائیں شامل تھیں۔
باتوں کی اس بحث میں اچانک یونس ایمرے Yunus Emre کا ذکر آگیا۔خاتون نے اناطولیہ کے اِس درویش، صوفی اور خداداد صلاحیتوں کے حامل شاعر کا ذکرجس محبت اور شوق سے کیا اُس نے آتش شوق کو گویا بھڑکا سا دیا۔انہوں نے ان کی عوامی اور وحدت میں ڈوبی ہوئی شاعری کے چند ٹکڑے سُنائے اور ایک دلچسپ واقعہ بھی۔زمانہ تو مولانا جلال الدین رومی کا ہی تھا۔کہتے بھی انہیں رومی ثانی ہے مگر دونوں عظیم شاعروں میں فرق ذریعہ اظہار کا تھا۔

Yunus EMre

مولانا رومی کا کلام اُس وقت ترکی کی شہری اشرافیہ کی مروجہ ادبی زبان فارسی میں ہونے کی و جہ سے خاص الخاص تھا جبکہ یونسEmre کے ہاں ذریعہ اظہار اُن کی عام لوگوں کی یعنی دیہی علاقوں میں بولی جانے والی ترکی زبان میں ہی تھا۔زبان سادہ ،مفہوم واضح، تشبہیں استعارے عام فہم اور زبان زد عام ہونے والے کلام میں غنائیت اور نغمگی کا بہاؤ اِس درجہ تھا کہ صوفیاء کی محفلوں میں جب گایا جاتا تھا تو لوگ و جد میں آجاتے تھے۔یونس ایمرے کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ بہت شریں گفتار اور لحن داؤدی کا سا کمال رکھتے تھے۔کبھی اگر دریا کے کنارے قرات سے قرآن پاک پڑھتے تو بہتا پانی رک جاتا تھا۔
بہت دلچسپ ایک واقعہ بھی سُن لیجئے۔ یونس اُمرے کے قونیہ سفر کے دوران کہیں مولانا رومی سے ملاقات ہوئی تو مولانا نے اُن سے اپنی مثنوی کے بارے میں دریافت کیا۔یونس ایمرے نے کہا۔’’بہت خوبصورت ،بہت عظیم ،بہت اعلیٰ شاہکار ۔میں مگر اِسے ذرا مختلف طریقے سے لکھتا ۔‘‘مولانا نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے پوچھا’’بتاؤ ذرا کیسے۔‘‘یونس بولے ۔’’میں آسمان سے زمین پر آیا ۔گوشت پوست کا لباس پہنا اور خود کو  یونس ایمرے کا نام دیا۔‘‘
ترکی کے اس مقبول اور اہم ترین شاعر کا زمانہ لگ بھگ1238 تا 1320 کا ہے۔مقام پیدائش صاری کوئے نامی گاؤں میں ہوئی۔اس زمانے میں قونیہ پرسلجوق ترکوں کی حکومت تھی۔
مولانا رومی شمس تبریز سے متاثر تھے۔ایسے ہی یونس ایمرے نے چالیس سال اپنے استاد شیخ تاپدوک ایمرے Tapduk Emre کے قدموں میں گزار دئیے۔اُن کی زیر نگرانی انہوں نے قرآن و حدیث کے علم میں کمال حاصل کیا۔طریقت کے اسرار و رموز سے شناسا ہوئے۔ اُن کے کلام میں رباعی،گیت،نظمیں ،غزلیں سبھی نظر آتی ہیں۔ذرا دیکھئے کلام کی سادگی اور حُسن۔

Yunus-Emre-Brunnen_Wien
Yunus_Emre_Enstitüsü._Turkish_Cultural_Center.
Yunus Emre statue
Yunus_Emre_Institut_Ulus_Ankara
Yunus Emre tomb
Yunus Emre grave

ایک لفظ ہی چہرے کو روشن بنا سکتا ہے

Advertisements
julia rana solicitors

اُس شخص کیلئے جو لفظوں کی قدرو منزلت جانتا ہے
جان لو کہ لفظ کب بولنا ہے اور کب نہیں
ایک اکیلا لفظ دنیا کی دوزخ کو آٹھ بہشتوں میں بدل سکتا ہے
یونس ایمرے اِس بات پر زور دیتے ہیں کہ انسان کو زندگی محبت و پیار کے اصولوں پر گزارنی چاہیے۔ان کی فلاسفی میں اُونچ نیچ او ر تفریق کہیں نہیں۔یہ صرف انسانوں کے اعمال ہیں جو انہیں اچھا یا بُرا بناتے ہیں۔زندگی عفو ودرگزر ،حلیمی اور رواداری جیسے جذبات کے تابع ہونی چاہیے۔ان کا عقیدہ تھا کہ خدا تک پہنچنے اور بخشش کا راستہ اکابرین دین،مختلف مذہبی اور مسلکی فرقوں کے اماموں کے ذریعے نہیں بلکہ یہ انسان دوستی اور احترام انسانیت کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ہر مذہب اور ہر مذہبی فرقے کا دوسرے کو جہنمی کہنا اور سمجھنا بہت غلط ہے۔دنیا کا ہر مذہب انسانیت کی بھلائی کا درس دیتا ہے۔ان مذاہب اور انسانوں کے احترام سے خدا سے سچا عشق پیدا ہوتا ہے۔ان کا یہ کہنا کتنا خوبصورت ہے۔دین حق سر میں ہے سر پر رکھی جانے والی پگڑیوں اور دستاروں میں نہیں۔ذرا دیکھئے وہ کیسے کہتے ہیں۔
تم اگر دوسروں کو نفرت سے دیکھوگے بلندی سے نیچے گرجاؤ گے
وہ کہ جس کی لمبی سفید داڑھی ہے اور جو خاصا معقول نظرآتا ہے
اگر اُسنے کِسی ایک کی بھی دل شکنی کی تو بلا سے وہ مکّہ جائے کچھ فائدہ نہیں
ایک اور جگہ کہتے ہیں
اگر سب مذاہب مل کر ایک اکائی کا روپ دھارلیں
تو اِس امتزاج سے عشق حقیقی پیدا ہوگا
ذرا اس شعر کو دیکھئیے۔
خواہ کعبہ ہو،مسجد ہو یا کوئی اور عبادت گاہ
ہر ایک اپنی اپنی بیماریاں اٹھائے ہوئے ہے
زندگی کے کڑے حقائق ،روایتی اور کھوکھلی مذہب پرستی اور اُس کی آڑ میں انسانوں کا استحصال ۔یونس نے اپنی ذات کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا۔خود اپنے آپ کو رگیدا۔اپنے آپ پر ملامتوں کے کوڑے برسائے۔
یونس ایمرے عشق حقیقی کے پرستار اور اسیر تھے۔شاعری میں صوفیانہ علم، عجزو انکسار اور انسانیت کا بے پناہ جذبہ نظرآتا ہے۔
میں یہاں رہنے کیلئے نہیں آیا میں تو رُخصت ہونے کیلئے آیا ہوں
میں مسائل پیدا کرنے کیلئے نہیں میں صرف محبت کیلئے آیا ہوں
ان کی شاعری میں جابجا وحدت الوجود کا اظہار ملتا ہے۔
یہ خاک کا پیکر نہیں تھا
میرا نام تو یونس بھی نہیں تھا
میں وہ تھا اور وہ میں تھا
متاع عشق جب اُس نے عطا کی
تو اس لمہے میں اس کے پاس ہی تھا
یونس ایمرے ترکوں میں بہت ہر دل عزیز ہیں۔دراصل اُن کی شاعری ترکوں کے قومی مزاج کی خوبصورت عکاس ہے۔ترک قوم کی دلیری اور خودداری کا اظہار ہے۔یہی و جہ ہے کہ ان کے اشعار خاص و عام کی زبانوں پر ہیں۔بیرونی دنیا میں اب ان پہچان ہورہی ہے۔ اس کی و جہ دراصل اُن کا کلام اپنی مادری ترکی زبان میں ہے۔ان کے ہم عصر مولانا رومی کا کلام فارسی میں ہونے کی و جہ سے وہ برصغیر اور وسط ایشیا کی ریاستوں میں بہت زیادہ ہر دل عزیز ہیں۔تاہم اب انگریزی ترجمے کی و جہ سے یونس ایمرے کے قارئین ان کی خداداد صلاحیتوں سے آگاہ ہورہے ہیں۔اُن کے فن اور کلام کی سادگی،برجستگی اور فلسفے سے واقف ہو رہے ہیں۔
ہم بھی شکر گزار ہوئے کہ انہوں نے ہمیں وقت دیا اور ہمیں ایک عظیم ہستی سے ملوایا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply