ایڈورڈ سعید کی انتقادی فکریات/مترجم؛فرمان اسلم

ایڈورڈ سعید یہ سمجھنے میں ہماری مدد کرتے ہیں کہ ہم کون ہیں؟ اور کسی بھی طرح کے نظام حکومت کا غلام ہونے کی بجائے زندگی اور سماج میں شخصی اقدار کی شکل میں فعال کردار ادا کرنے کے لیے ہمیں کیا کیا کرنا چاہیے ۔“ نوم چومسکی”

ایڈورڈ سعید (۱۹۳۵ء – ۲۰۰۳ء) ہمارے درمیان نہیں رہے۔ لیکن تیسری دنیا کو تیسری نظر دینے میں کارگر ثابت ہونے والے ایڈورڈ سعید کا کارنامہ ہمارے درمیان زندہ رہے گا۔

دور جدید کی ابتداء  سے ہی صارفیت کے عمل کے تحت ، مغرب نے مشرقی ممالک کو استعماری نظریے سے دیکھا۔ جیسے ان علاقوں میں صدیوں پر محیط ترقی یافتہ تہذیبیں اور ثقافتیں انسانی تہذیب کا حصہ نہیں بلکہ کوئی عجوبہ ہوں۔ مٹھی بھر مغربی تہذیب کے پروردہ لوگوں نے انیسویں اور بیسویں صدی میں تقریباً پورے افریقہ، ایشیا اور لاطینی امریکہ کے ممالک پر قبضہ کر لیا تھا۔ بیسویں صدی میں شروع ہونے والی مختلف قومی تحریکوں نے مغربی ممالک کی جانب سے کیے جانے والے معاشی استحصال کی کھل کر مخالفت کی اور نو آبادیات کے پورے عمل کو نا انصافی اور غیر انسانی عمل قرار دیا۔ فرانز فین نے اپنی کتاب ”دی ریچیڈ آف ڈ ارتھ میں فرانس کے ذریعے الجیریا کے لوگوں پر کی  جارہی  معاشی، ثقافتی اور نفسیاتی تکالیف کی زبردست انداز میں عکاسی کی۔

ژاں پال سارتر نے اس کتاب کے دیباچے میں اسے تاریخی اہمیت پر مبنی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ” پہلی جنگِ عظیم میں شامل ممالک ، تیسری دنیا کا استحصال کر کے ترقی یافتہ بنے ہیں۔ جب کہ ہم لگا تار کیے جانے والے سامراجی دعوؤں سے مرعوب ہوچکے ہیں کہ نو آبادیاتی نظام میں ہی نہیں بلکہ مابعد جدید نو آبادیاتی نظام میں بھی تیسری دنیا میں ہوئی ترقی کا سہرا مغربی ممالک کے سر بندھنا چاہئے”-

فرانز فین کے اس نظریے کو ایڈورڈ سعید نے تفصیل سے اپنی کتابوں” اور یئنٹل ازم’ ‘”کلچر اینڈ امپرئیل ازم” اور فلیکشنز آن ایکوائیل ، اپنی سوانح ‘ آؤٹ آف پلیس اور اپنے مضامین لیکچروں کے ذریعہ آگے بڑھایا ہے۔

“ثقافت اور سامراجیت” کی کتاب میں تو انھوں نے فرانز فین کے نظریات کی توسیع کی ہے۔ سعید کا سب سے بڑا کارنامہ ادب اور ثقافت کے ذریعے سیاسی اور سماجی نظام کی ساخت کو عریاں کرنا ہے۔” جو سیف کو نارڈ “کے ناول سے شروع کر کے انھوں نے بے شمار مغربی ناولوں کے کرداروں کا تجزیہ بڑی گہرائی سے کیا ہے۔ انھوں نے یہ ثابت کیا ہے کہ مغربی ادبیوں کی سوچ تیسری دنیا کے لوگوں کے بارے میں” ہم” اور” دیگر” کے بھید بھاؤ سے لبریز ہے۔ مشرق سے نفرت ہی ان کی سوچوں میں پیوست ہے۔ دراصل اس کا دارو مدار مغرب کے علاوہ دنیا کے دیگر ممالک میں رہنے والے لوگوں کی  تہذیب سے بے بہرہ اور جنگلی ثابت کرنے والے یونانی نظریے کی توسیع ہے۔

“ہم “ہم ہیں ۔ “وہ” ، وہ ہیں ۔ وہ کون ہیں  اس کا خلاصہ کر کے ہی انھیں اپنی لا محدودیت یا اپنے اعلیٰ وارفع ہونے کا خیال تقویت پاتا ہے۔ یعنی’ ہم’ گورے ہیں، ‘وہ’ کالے ہیں۔ ہم ترقی یافتہ ہیں اور وہ غیر ترقی یافتہ ۔ ہم مہذب ہیں وہ غیر مہذب ہیں۔ اسی کو سعید نے اوریئنٹل ازم ( مشرق اور مشرقیت) کہا ہے۔
جس کے تحت مغرب نے مشرق کو نہ صرف فوجی بلکہ سیاسی روپ سے بھی بہرہ ور کیا ہے۔ ساتھ ہی جغرافیائی ،سماجی اور ثقافتی روپ سے بھی مشرق کے لوگوں کو محدود کر کے” مشرقیت” کی پہچان دی ہے۔ نو آبادیات کو جائز ٹھہرانے کے لیے مغرب کو اپنے علاوہ” دیگر” کی تعمیر کرنی پڑی۔ یہیں سے مشرق کے لوگوں کے بارے میں “بنیاد پرست” کی اصطلاح اپنائی گئی۔ جو آج گلوبلائزیشن کے دور میں بھی بدستور جاری ہے۔ ایڈورڈ سعید نے جس باریک بینی سے مغرب کے’ مشرقیت’ کے خیال کا جائزہ لیا ہے اس کی مثال نہیں ملتی۔ انھوں نے ۱۹۷۸ء میں اپنی کتاب اوریئنٹل ازم کی اشاعت سے لے کر آج تک مغربی دنیا میں طوفان مچارکھا ہے۔ نتیجتاً مغرب کی کم و بیش ہر یونیورسٹی میں ان کے اس نقطہ نظر سے کہ تیسری دنیا کے لوگ مغرب کو کیسے دیکھتے ہیں، سمجھتے ہیں متاثر ہوکر تحقیق و تدوین کے میدان میں بھی ایک لہر چل پڑی ہے۔ تجزیہ کرنے کے لیے پوری “پوسٹ کالونیل اسٹیڈیز’ کے نام پر ایک نئی شاخ کا اضافہ ہو گیا ہے۔ اس اضافی علوم کے ماتحت کئی کتابیں لکھی جارہی ہیں۔ کو پر اور اسٹالز نے کتاب “ٹینشنز آف امپائر” میں مغرب کی مشرقیت کا اعتراف کرتے ہوئے یہ بھی ظاہر کرنے کی کوشش کی ہے کہ نو آبادیات کے لیے بھی معاشی نظام کو بنائے رکھنا کوئی آسان کام نہیں تھا۔ اس طرح کی تمام کتابوں کے ذریعے ایڈورڈ سعید کی باتوں کو غیر موثر بنانے کی کوشش تیز تر ہو گئی ہے۔

اسرائیل کے ایک ریسرچ اسکالر نے سعید پر تین سال تک تحقیق کے بعد ان کے بچپن وغیرہ کی جد و جہد کو لا یعنی ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔ مخالفین کا یہ رد عمل سعید کے نظریات کو زمیں بوس نہیں کر سکتا۔

ایڈورڈ سعید کی کاٹ دار سوچ کا راز ان کی شخصیت ، ان کی قوت ارادی ، ان کے علم و عمل اور جہدِ  مسلسل میں پوشیدہ ہے۔ سعید پارہ صفت شخصیت کا نام ہے۔ وہ صرف کسی ایک کام میں غرق نہیں ہو جاتے بلکہ ادب، ثقافت، موسیقی ، تنقید، مباحث سیاست و غیرہ ہر میدان میں وہ شدت سے حصّہ لیتے ہیں۔ اپنی بات جوش و خروش سے رکھتے ہیں ، اور پھر آگے بڑھ جاتے ہیں۔ بارہ سال پہلے ‘یو کیمیا ‘جیسی مہلک بیماری میں مبتلا ہونے کے باوجود انھوں نے اپنی علمی تحریکات کو متاثر ہونے نہیں دیا۔ اپنی سوانح میں وہ ایک بے حد اہم بات لکھتے ہیں ( Over all sensations was always beating out of place “سارے دیگر احساسات پر بے گھر ہونے کا احساس ہمیشہ حاوی رہا ہے۔“ یعنی جہاں ہیں، وہاں نہیں ہیں، جہاں نہیں ہیں، وہاں بھی ہیں۔ سعید کی یہ مختلف النوع کیفیت ان کی جڑوں میں پیوست ہے۔

باہر کے لوگ ہمیں کیسے دیکھتے ہیں ، پر کھتے ہیں۔ وہ “بدیسی سوچ” ہے۔ تیسرا نظریہ ہے” مہاجروں اور غیر ملکیوں کا” اسے بھی ایڈورڈ سعید نے عملی جامہ پہنایا۔ جب ہم ہٹ کر دور سے خود کو دیکھتے ہیں تبھی اپنے خیالات میں وسعت پیدا ہوتی ہے۔ مہاتما گاندھی کئی سال تک جنوبی افریقہ میں نہ رہے ہوتے تو بھارت کے لوگوں کے بارے میں ان کی سوچ اور گرفت اس قدر واضح اور مضبوط نہیں ہو پاتی۔ یہی بات ایڈورڈ سعید کے مزاج کا حصّہ بنی۔

ایڈورڈ سعید نے ناولوں کا بطور خاص مطالعہ کیا ہے۔ ان کے مطابق انیسویں صدی میں سامراجیت کی اٹھان کے ساتھ ساتھ ناول کی صنف اپنے عروج  پر پہنچی۔ ناول کہانیوں کے ذریعے مغربی ادیبوں نے نو آبادیات کے لوگوں کے بارے میں “بورژوازی “طریقہ اپنایا۔ جوسیف کو نارڈ ، چارلس ڈیکنسن ‘جین آسٹن، روڈ یارڈ کپلنگ وغیرہ کے ناولوں کے کرداروں کے تجزیے میں انھوں نے ادبی تخلیقات اور سامراجیت کے درمیان سیدھا تعلق پایا۔ وہ ان ادبی تخلیقات کی ادبی قدر و قیمت سے انکار نہیں کرتے۔ لیکن ساتھ ہی یہ بھی دکھاتے ہیں کہ کیسے اپنے تاج ، ثقافت ، ملک، ریاست کی جانکاری بڑے سے بڑے ادیبوں کے مقالات میں بھی جانے انجانے بکھری ہوتی ہے۔ انھوں نے یہ ظاہر کیا ہے کہ سامراجی ملک چاہے فرانس رہا ہو یا انگلینڈ یا اب امریکا ، ان کی بنیادی جڑیں کبھی تبدیل نہ ہوسکیں۔

مغرب کے لوگ مہذب،” ترقی یافتہ” ہیں تو تیسری دنیا کے لوگ’ غیر مہذب”، “غیر ترقی یافتہ” اور پچھڑے ہوئے۔ اس عجیب و غریب مغربی سوچ کو پوری قوت سے آج بھی پھیلایا جارہا ہے۔ کونارڈ کے ناول ‘ہارٹ آف ڈارک نیسں“ کے مطالعے سے انھوں نے یہ واضح کیا ہے کہ کیسے ایشیا ، آسٹریلیا، لاطینی امریکہ کے لوگوں کے لیے مغربی سامراج ضروری ہی نہیں بلکہ نعمت سے کم نہیں تھا۔ اس طرح سعید نے سچ ہی کہا ہے کہ میزان کا روپ کیا ہو؟ یہی ثقافت اور سامراج کے تعلقات کی جڑ ہے۔ انھوں نے ایک مبصر کے تبصرہ کا حوالہ دیا ہے۔ ( نیشنل دیم سیلوس آرمیشن ) دیکھنا یہ ہے کہ اس کے تخلیق کار کا نام کیا ہے؟ سعید کا الزام ہے کہ مغربی ادیب، منضبط سماج میں چل رہے “ردِ عمل” اور آزادی کی تحریکات کا ذکر نہیں کرتے۔ وہ ایسی تصویر پیش کرتے ہیں کہ یہ سب منضبط سماج کے لیے ضروری نہیں ۔ جبکہ سچائی یہ ہے کہ جہاں جہاں سامراجیت پھیلی ہے وہاں وہاں اس کی مخالفت بھی ہوئی ہے۔ فرانز فین ‘سی ایل آر جیمس ، والٹر روڈنی’ کیر ل شوینکا، سلمان رشدی ، گارسیا مارخوز وغیرہ نے اپنی تخلیقات میں نو آبادیات کے تجربات کا دوسرا پہلو بخوبی اجاگر کیا ہے۔

سامراجیت کا ایک نتیجہ یہ رہا کہ مغرب اور مشرق کے ممالک اور ان کی تہذیبوں اور ثقافتوں کے درمیان مکالمہ اور آدان پر دان ہوا۔ آج مغرب کا کوئی ملک ایسا نہیں ہے جہاں تیسری دنیا کے لوگ موجود نہ ہوں۔ اسی وجہ سے کثیر رکنی تہذیب کو بڑھاوا ملا ہے۔ سعید کی اپنی جائے پیدائش کثیر رکنی تہذیب کا نمونہ رہی ہے۔ وہ اپنے آپ کو مہاجر مانتے ہیں لیکن اس کا انھیں کوئی دکھ نہیں ہے۔ انھیں احساس ہے کہ انھوں نے دونوں دنیاؤں کے تجربات حاصل کیے ہیں۔ عرب اور امریکی تجربات۔ ۔اس تجربے نے ان کے نقطہ نظر کو تیسرا نظریہ عطا کیا ہے۔

ملک ، ریاست ، حکومت، بین الاقوامی نظام کو مختلف تجزیات کے ذریعے دیکھنے کا یہ نظریہ ہی سعید کی اہم دین ہے۔ سعید نے اس سے متعلق ‘گرامشی” کے ذریعے سیاسی سماج اور سول سماج کے نظریات کو بنیاد بنایا ہے۔ سول سماج ، بذات خود گروه ، جماعتوں ، اداروں جیسے اسکول، خاندان، میڈیا، تجارت، مزدور یونین وغیرہ سے بنتا ہے۔ جبکہ سیاسی سماج ، ریاستی ادارے جیسے فوج، پولیس’ نوکر شاہی وغیرہ سے بنتا ہے۔ جس کا کام اپنا دبدبہ بنانا ہوتا ہے۔ ثقافت ،سول سماج میں عمل پذیر ایساراہِ  عمل ہے جو دبدبہ پر نہیں بلکہ حمایت کی بنیاد پر جاری رہتا ہے۔ ہر ایک ریاست، منظم سماج پر اپنی حیثیت منوانے کے لیے اس سماج کی ثقافت کو متاثر کرتی ہے۔ جس کے نتیجے میں ثقافتی سوتے اور ادب فنون میں ٹکراؤ کی صورت نمودار ہو جاتی ہے۔

سعید نے ثقافتی تعمیر وتخریب کا تجزیہ کر کے سماج اور حکومت’ منظم سماج اور حاکم کے درمیانی رشتوں کو اجاگر کرنے کا اہم کام کیا۔ جوان کی سبھی تخلیقات میں موجود ہے۔ سعید نے اپنی تخلیقات کے ذریعے نظام حکومت کو نہیں بلکہ انسان کی قوت ارادی، حوصلہ اور مقابلے کی قوت کو اہمیت دی۔ سعید میں بُردباری اور جوش کا بے مثال سنگم تھا۔ اس لیے ان کے مضامین زمین سے جڑے ہوئے ہوتے ہیں ۔ ان میں بین الاقوامی فکروں کے ساتھ ساتھ مقامی احساسات کا عنصر ہوتا ہے۔ ستمبر ۱۹۹۷ء میں نئی دہلی میں راجیو گاندھی فاؤنڈیشن کے ذریعے منعقدہ پروگرام میں” فلسطین اور بھارت” کے عنوان سے ان کے لیکچر میں ان کے افکار کا تنوع اور ان کی باتیں آج تک میرے ذہن میں گونجتی رہتی ہیں۔ ایسا دردمندانہ لہجہ قدرتی طور پر چند ایک اشخاص میں ہی پایا جاتا ہے۔

سامراجیت اور علم کے رشتے کی ثقافتی تنقید کو سمجھنے میں سعید کا بہت بڑا حصہ رہا ہے۔ یہی حصہ ہمیں آج بھی یہ سمجھنے میں مدد کرتا ہے کہ کس طرح 11 ستمبر کے امریکا میں بطور خاص دہشت گردوں کے حملوں کے بعد تیسری دنیا کو لے کر خاص طور پر عرب اور مسلم دنیا کے بارے میں ”بنیاد پرستی“ کا رجحان بڑھ گیا ہے۔ امریکی حکومت کے حمایتی اسکالر جیسے برنارڈ لیوس نے حال ہی میں لکھی گئی کتاب ”وہاٹ وینٹ رانگ “میں وہی مغربی انداز اپنایا ہے کہ عرب اور مسلمانوں میں دہشت گردی کا رجحان زیادہ ہوتا ہے۔ اس طرح کی بے بنیاد باتوں کے سہارے ہی امریکا نے عراق کے خلاف جنگ کو مدلّل انداز میں ثابت کرنے کی ناکام کوشش کی تھی۔ عراقی عوام کو آزادی دینے کے نام پر ان کے اوپر جس طرح سامراجیت کی یلغار اور ظلم جاری ہے، وہ سعید کے مابعد جدید مسائل کی حقیقت کو ثابت کرنے کے لیے کافی ہے۔ سعید نے ثقافتی ، ادبی انتشار کے ذریعے حاصل کردہ حکومتوں کی قلعی کھولی۔ اس طرح سعید نے تنقید کی ثقافت کی توسیع کی’ مسلسل مخالفت کی اور ثقافت کے غلبے کے لیے آواز اٹھاتے رہے۔ ابھی انھیں کے اصولوں کو آگے بڑھاتے ہوئے “ہومی بھابھا” نے امریکا میں حال ہی میں منعقد “ڈاکیومینیا “ادبی و ثقافتی اجلاس میں بڑی اہم بات کہی ہے کہ “جدید دنیا میں جمہوریت کی ترقی و فروغ کے ساتھ ساتھ جمہوریت کی اچھائیوں اور برائیوں کو سمجھنے کے لیے یہ سمجھنا بھی ضروری ہے کہ نو آبادیات یا غلام رہے ممالک کے لوگوں کا جمہوریت ( مساوات اور انصاف) کولے کر اپنا تجربہ کیا ہے۔ صرف مغربی سامراجی ممالک کے تجربات سے کام نہیں چلے گا۔ کیونکہ تیسری دنیا کے لوگوں نے موجودہ جمہوریت کے صرف میٹھے تجربات ہی نہیں ، کڑوے پھل بھی چکھے ہیں۔ “آج ایڈورڈ سعید کا یہی سب سے بڑا حصہ رہا ہے کہ مغربی دنیا کے ذریعے تیسری دنیا کو دیئے گئے جمہوری عمل کے بارے میں بھی ہم انھیں بتا سکتے ہیں کہ جمہوریت دیوی دیوتاؤں کی جانب سے عطا کردہ نظام نہیں بلکہ غلامی کے غلط اثرات نے بھی اسے گدلا کر دیا ہے۔ سعید کی سب سے بڑی حصہ داری تیسری دنیا ہی نہیں، بذات خود مغرب کے سول سماجوں میں بھی ان کے خود کے ملکوں ، اصولوں اور غیر اصولوں کے خلاف محاذ تیار کرنا  ہی ہے۔ ابھی ” کا نکن“ میں ورلڈ ٹریڈ کے جلسے میں کسانوں کو لے کر مغربی سبسڈی (رعایت) کے قوانین کے خلاف تیسری دنیا کے مورچے ، جی ۔۲۱ کی سب سے زیادہ حمایت ، مغربی دنیا کے سول سماج کے غیر سرکاری اداروں اور تحریکوں نے کی۔

Advertisements
julia rana solicitors

اس کے نتیجے میں پہلی بارمغربی دنیا کے ممالک ، دنیا کے معاشی نظام کو ایک طرفہ چلانے کی اپنی مہم میں ناکام ہوئے۔ سعید اور چومسکی جیسے فعال مفکروں نے اس طرح پوری دنیا کے سول سماجوں کو جگانے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ یہاں تک کہ اب کہا جانے لگا ہے کہ دنیا کی سب سے بڑی طاقت امریکا کا مخالف اب کوئی اور ملک نہیں بلکہ پوری دنیا کے ذی ہوش اور باشعور لوگ یعنی سول سماج ہے۔ یعنی بین الاقوامی سول سماج ہی آج دنیا کی دوسری سب سے بڑی طاقت ہے۔ سعید نے گاندھی کے طرز پر فلسطینی عوام پر ہونے والے اسرائیل کے مسلسل حملوں کی زندگی بھر مخالفت کی ہے۔ جس کے اثرات نمایاں ہونے لگے ہیں۔ ابھی سعید کی موت سے کچھ ہی دن پہلے اسرائیلی ہوائی فوج کے ۲۱ پائلٹوں کے ذریعے معصوم فلسطینیوں کے خلاف حملہ نہ کرنے کے فیصلے کو اسی نگاہ سے دیکھا جائے گا۔ آج اسرائیل چاہے جتنا بڑا ظالم . ہوتا چلا جائے لیکن اس کے خلاف جو بین الاقوامی محاذ تیار ہوا ہے، وہ سعید جیسے فعال اور باعمل مفکروں کے رد عمل کا ہی نتیجہ ہے۔ آج بلا جھجھک کہا جا سکتا ہے کہ ایڈورڈ سعید مابعد جدید دنیا کے گاندھی ہیں ۔
( شیو نارائن سنگھانی وید کے مضمون “ایڈورڈ سعید” (2004)کا اردو ترجمہ)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply