میرا شہر۔۔۔۔ طاہر حسین

میرا شہر کونسا ہے۔۔ چکوال؟ جہاں میری نال گڑی۔ جس کی مٹی میں میری قیمتی امنانتیں دفن ہیں۔ مگر یہ شہر میرا کیسے ہوا۔۔ یہاں تو بس زندگی کے ابتدائی چند سال گزرے۔ ہاں یہ خواہش میرے دل میں ضرور ہے کہ ایک دن جب زندگی کی ڈور ٹوٹ جائے تو مجھے پیر شاہ ولائت کے اسی قبرستان کی مٹی میں ملا دیا جائے جہاں میں نے اپنے پیاروں کو چھوڑ ہے۔ تو کیا میرا شہر شیخوپورہ ہے؟ جہاں پرانے قلعے کے ویران برجوں پر رہنے والی خیالی چڑیل کا خوف اب بھی میرے لاشعور کے کسی گوشے پر قابض ہے۔ اکبر بازار، ہمایوں بازار، دسہرہ گراؤنڈ میں آوارہ گردی، پیر بہار شاہ کے میلے پر سرکس کا تماشا اور زندگی سے بھرپور دوستوں کا ساتھ۔ مگر شیخوپورہ میرا شہر نہیں تھا۔۔ وہاں مجھے مستقل تو نہیں رہنا تھا۔
لاہور۔۔ سینڑل ماڈل سکول۔ میں نے اپنی زندگی میں ایسی پرشکوہ عمارت نہیں دیکھی تھی اور میں اس کے رعب سے ایسا مرعوب ہوا کہ بے اختیار رونے لگا۔ لیکن یہ فیز جلد گزر گیا۔ سکول سے آتے جاتے کرشن نگر بازار سے گزر مجھے اچھا لگنے لگا۔ مال روڈ پر ٹاؤن ہال کے سامنے ایستادہ جہاز اور بھنگیوں والی توپ دیکھنے کے لئے میں روزانہ اپنا سکول سے واپسی کا راستہ طویل کر دیا کرتا تھا۔۔ جمعرات کے دن منٹو پارک میں کرکٹ، جمعے کے دن لارنس باغ اور فورٹریس سٹیڈیم کا لازمی چکر۔ لاہور میں ایک اپنائیت تھی، گورنمنٹ کالج کا مینار اور اونچی چھتوں والے کلاس رومز۔ حلقہ ارباب زوق اور پاک ٹی ہاؤس۔ کبھی کبھی پلازہ سینما میں فلم اور لمبی آوارہ گردیاں۔ شیرانوالہ گیٹ جاتے ہوئے دانستہ فورٹ روڈ کا راستہ اختیار کرنا کہ شائد کسی غیرت ناہید کی دیپک تانیں بند دریچوں سے چھلکتی سنائی دیں جائیں۔ لاہور سے یاری زیادہ نہ چلی اور ٹھکانہ بدل گیا۔
ایبٹ آباد۔۔ یہ شہر تو میرے لئے خوابوں کے جزیرے کی مانند تھا۔ خوبصورت صبحیں اور پرسکون شامیں۔ ویک اینڈ پر وڈ لاک اور مونا لیزا میں کافی پینا، حویلیاں سے براستہ دھمتوڑ پیدل سفر، مانسہرہ اور قلندر آباد کے پہاڑوں پر پھیلی چیڑ کے درختوں کی خوشبو، اشوکا سٹون جس کے بزدیک شدید پیاس کے عالم میں ایک ملنگ نما شخص ٹھنڈے پانی کی بھری بالٹی لئے کہیں سے نمودار ہوا اور پیالے بھر بھر کے پیش کرتا رہا۔۔ ہندکو بولتے پیارے پیارے بچے جو دور تک ساتھ بھاگھتے ہوئے “لالا پنسل چا دے اور لالا ٹافی چا دے” بولتے رہتے۔ مگر ایبٹ آباد بھی ایک روز چھوڑنا پڑا۔

Advertisements
julia rana solicitors


حیدراباد، بدین، عمر کوٹ اور میرپور خاص۔ میرے لئے جہان حیرت۔ ٹھنڈی سڑک پر جمخانہ کلب میں گزری حسین شامیں۔ کوٹری بیراج پر المنظر کے لان میں ڈوبتے سورج کا نظارہ، سائیں جی ہوٹل کے ساتھ بیٹھا بزرگ پنواڑی جو پان اپنے ہاتھ سے گاہک کے کلے میں ڈالتے ہوئے کتھے سے لتھڑی ہوئی انگلی شرارت سے گال پر لگا کر مسکرا دیتا۔ بدین کے گوٹھ چنیسر دستی میں وہ معذور لڑکی کی آنکھوں کی چمک اور اس کے معصوم سوال، ادھیڑ عمر ہندو عورت کا مامتا بھرا اصرار کہ اس کے مندر سے پرشاد ضرور لی جائے۔ رن کے علاقے میں حد نگاہ تک پھیلا سفید میدان، کھوکھرا پار کی دکھی ایکسپریس جس کے کنڈکٹر گارڈ نے ایک چائے خانے کے پاس ٹرین رکوا کر ہاف سیٹ دودھ پتی کا آرڈر دے دیا۔ عمر کوٹ میں کرشن سوئٹ شاپ میں بچھی رلیوں کے شوخ رنگ۔ جوگی بیڑا، بھاگل اور خنسر تک کیکڑو کی سواری۔
کوئٹہ۔ پہلی نظر میں بہت ہی خشک اور بے رنگ سا شہر لگتا ہے مگر یہ اپنا حسن اچانک سے آشکارہ نہیں کرتا۔ کوئٹہ پہلے پہل تو بہت روکھا اور برونق دکھائی دیا۔ لیکن آہستہ آہستہ اس شہر نے جیسے اپنی آغوش میں سمو لیا ہو۔ ریلوے اسٹیشن پر اترتے ہی پلیٹ فارم پر چست پتلون پہنے ایک بوڑھا پان فروش دکھائی دیا۔ میٹھا پان کچھ اسطرح بنا کہ چونا کتھا لگے ایک پتے پر تھوڑی سی چھالیا ڈال کر چینی کی دو چٹکیاں رکھیں اور لپیٹ کر حوالے کر دیا اور مجھے اس کی معصومیت پر ہنسی آگئی۔ جناح روڈ پر ایک روز اداکار حسام قاضی مرحوم چلتے دکھائی دئیے اور میرا تجسس مجھے کھینچ کر ان تک لے گیا۔ جتنے وہ وجیہ اور خوش شکل تھے اتنے ہی خوش اخلاق۔ پرنس روڈ پر وہ موسیقی کے ریکارڈ بیچنے والی دکان کا وضح دار مالک۔ جو کلیکشن اس کے پاس دیکھا وہ کراچی اور لاہور کی دکانوں پر بھی ندارد تھا۔ ہر ویک اینڈ پر چمن کا پھیرا اور شیلا باغ کی سرنگ کا حیرت انگیز نظارہ۔ کولپور میں بلوچوں کی مہمان نوازی اور بقول کرنل محمد خان صرف ایک دنبہ اور کھانے پر اصرار۔ ہڈیوں کو جما دینے والی سردی کے موسم میں علمدار روڈ پر ہزارہ ہوٹل میں آش نامی پکوان کھانے بعد جب مالک نے بل وصول کرنے سے انکار کر دیا۔ کوئٹہ سرینا ہوٹل کی انتہائی شوخ میک اپ والی مغنیہ جو فرمائشی گیت سنا رہی تھی۔ شو کے اختتام پر ہال سے لابی کی طرف گزرتے دیکھا کہ وہی خاتون اپنے ننھے سے بچے کو بڑے ہی چاؤ کے ساتھ ہوٹل سے ملا ہوا کھانا کھلا رہی ہے اور بچہ جو نہ جانے کب سے ماں کے انتظار میں تھا صرف اپنی ماں سے لپٹنا چاہتا تھا۔۔ میرا کوئٹہ ایسے ہی مہربان لوگوں کا شہر ہے۔ کوئٹہ کے بعد اگلی منزل شمالی علاقوں میں۔ راولپنڈی سے روانگی ہوئی تو ہم سفر ایک غیر ملکی سیاحوں کی ٹیم تھی جو شائد گاشا بروم کو سر کرنے جا رہے تھے۔ کانوائے سیڈل سے شکمہ کی وادی دکھائی دی جہاں چند برس پہلے ایک جگری یار نے اپنی جان مادر وطن پر نچھاور کی تھی۔ لیکن میری منزل ابھی دور تھی۔ بادلوں سے بھی اوپر جہاں سفید چوٹیوں والا عظیم ہمالیہ میرے سامنے سربلند کھڑا تھا۔ اسقدر سردی میں بچوں کو منجمد جھیل کی سطح پر کھیلتے دیکھ کر میرے دانت بجنے لگے۔ شمالی علاقوں میں قدرت کے نے اپنا حسن اس فیاضی سے بکھیرا ہے کہ اسکی کوئی مثال نہیں۔
جنوبی پنجاب۔ سخت سرد پہاڑوں سے نکلتے ہی سرسبز میدان۔ ملتان سے بہاولپور، رحیم یار خان تک اور لیہ سے راجن پور تک۔۔ زندگی سے بھرپور شہروں سے تعارف ہوا۔ ملتان کی قدیم تہذیب اور بہاولپور کا شاہی طمطراق، لیہ کے زرخیز میدان اور ڈیرہ غازی خان کی دھیمی رفتار جیسے دل کو چھو لے۔ میرے ان شہروں میں ایک خاص کشش ہے جو غیر محسوس طریقے سے اپنی طرف کھینچتی ہے۔
خیبر پختونخواہ اور فاٹا میرے کیوں نہ ہوں کہ یہاں میری زندگی کا 10 سال سے زائد عرصہ گزرا۔ جتنے برس مجھے اسکے قصبوں، شہروں اور دیہاتوں نے اپنی مہربان آغوش میں رکھا اتنا تو میں اپنی جنم بھومی پر بھی نہیں رہا۔ نوشہرہ میں کابل دریا کا کنارہ جہاں میرے جگر کا ٹکڑا دفن ہے، مردان کی گلیاں، دیر کا بسیار گو شیر باچا جو ہر وقت ہنستا رہتا۔ لطیفہ سنانے سے پہلے اسقدر ہنستا کہ اسکی آنکھوں سے آنسو بہنے لگتے اور پھر ایک قصے کی طرح لطیفہ سنا کر سنجیدہ سی شکل بنا کر پوچھتا کہ “مڑا تمکو یہ بات اچھا نہیں لگا”۔ باجوڑ میں سیدا خان، غلانئی میں شیر غنی، پاڑہ چنار کا سید آغا اور میران شاہ کا ظاہر گل کیا شاندار لوگ تھے کہ جن کی رفاقت میں گزرے دن یاد کرتے ہی ہونٹوں پر مسکراہٹ پھیل جاتی ہے۔ کوہاٹ، پشاور، کرک اور بنوں سے مجھے انس ہے۔ ان شہروں کی فضا نے کبھی اجنبیت محسوس نہیں ہونے دی۔
گوجرانوالہ اور سیالکوٹ۔ ہنستے مسکراتے اور باذوق لوگوں کے مسکن۔ وہ لوگ جن کی نصف تعداد ہمہ وقت کھانے میں اور بقیہ نصف کچھ نہ کچھ پکانے میں مصروف رہتی ہے۔ اعظم بٹ جسکے ایک عزیز کے جنازے کے ساتھ چلے جا رہے تھے کہ وہ اچانک کہیں غائب ہو گیا۔ کچھ دیر بعد سنجیدہ شکل بنا ہاتھ میں ایک شاپر پکڑے آتا دکھائی دیا۔ استفسار پر بولا کہ ایک دکان پر بڑے شاندار پائے دیکھ کر خیال آیا کہ یہ سودا پتہ نہیں پھر ملے نہ ملے۔ لہذا ابھی خرید لینا مناسب سمجھا۔ سیالکوٹ کے قلعے میں جشن آزادی کی تقریب جب گلوکار نے “اے نگار وطن تو سلامت رہے” گانا شروع کیا اور “جب تجھے روشنی کی ضرورت پڑی، اپنی محفل کے شمس وقمر دے گے ہم” پر پہنچا تو کوئی آنکھ ایسی نہ تھی جو اشکبار نہ ہو۔ ان شہروں کی گلیوں میں ایک مخصوص سی اپنائیت ہے کہ جسکو صرف محسوس کیا جاتا ہے مگر بیان نہیں ہوسکتی۔
اس موضوع پر لکھنے سے پہلے میں نے چکوال کے متعلق اپنی معلومات کو کھنگالنا شروع کیا تو احساس ہوا کہ چکوال تو بس جائے پیدائش تو کیا باقی سب شہر جہاں میں رہا وہ میرے نہیں؟؟ میرے پاکستان کے سبھی شہر میرے ہیں۔ یہ تمام لوگ جو میرے ارد گرد میرے حال کے ساتھی ہیں اور جن کا ماضی میرے ساتھ سانجھا رہا یہ سب میرے گرائیں ہیں۔ مجھے ان سے محبت ہے۔ مجھے اپنے پاکستان سے محبت ہے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”میرا شہر۔۔۔۔ طاہر حسین

  1. خوبصورت انداز تحریر اور دلچسپ تبصرہ..
    یوں کہ جوں جوں پڑھتے جائیں آنکھ کا پردہ منطر بنتا جائے.
    جن شہروں کو دیکھ چکے انکو پھر سے دیکھنے کی امنگ جاگ اٹھے اور اب تک ان دیکھوں کی دید کی چاہ..

Leave a Reply