پگڈنڈی کا وہ کنارہ۔۔اشفاق احمد

گاؤں میں ہمارے تقریبا ًسبھی گھر پہاڑوں میں ہیں۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ بچپن میں جب ہماری چھٹیاں ختم ہو جاتیں تو نَم آنکھوں کے ساتھ رخصتی کا وہ منظر عجیب کیفیت لیے ہوتا۔
پہاڑوں کی خاص طرز کی پگڈنڈیوں پر دھیرے دھیرے نیچے اُترتے تو میں قطار میں سب سے آخر میں ہوتا۔ بَل کھاتی پگڈنڈی کے ہر اگلے موڑ پر بار بار پیچھے دیکھتا جہاں ماموں کے گھر کی دہلیز پر سبھی مرد، خواتین اور بچے کھڑے تب تک ہمیں دیکھتے رہتے جب تک آخری موڑ پر ہم نظر سے غائب نہ ہو جاتے۔

آخری موڑ پر میں کچھ زیادہ دیر تک رک جاتا اور وہ پورا منظر آنکھوں میں اُتار دیتا۔ اپنے رشتہ دار دوستوں کے ساتھ چشموں کے کنارے کھیلتے اور پہاڑی ندیوں میں نہانے کا سارا منظر یاد کرتا۔
میرا وہاں سے اُٹھنے کو من نہ کرتا۔ آگے بڑھتے خاندان کے دیگر افراد مجھے بار بار آوازیں دیتے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ تب بس ایک ڈھارس مجھے وہاں سے اُٹھاتی کہ اگلے سال پھر آؤں گا۔ میں اٹھ کر اپنے دونوں ہاتھ آخری بار ہلا دیتا۔ جواب میں وہ سبھی اپنے ہاتھ اٹھادیتے اور میں پہاڑی پگڈنڈی کے اُس آخری سرے کے اُس پار جا اُترتا۔

اگلے سال جب ہماری آمد ہوتی تو گاؤں پہلے سے خبر ہوئی  ہوتی۔ تب نیچے سے اوپر چڑھتے سب سے آگے میں ہوتا اور ٹھیک اُسی جگہ جہاں آخری بار الوادع کہا تھا، پہنچتا تو عین وہی منظر سامنے ہوتا۔

میں اپنی اُس سرشار کیفیت کا احساس اب بھی یاد رکھتا ہوں۔ میرے سبھی اپنے دہلیز پر کھڑے ہمارے منتظر ہوتے اور کہانی ٹھیک وہیں سے شروع ہو جاتی جہاں رُک گئی  تھی۔

یہ لمحے ایسے ہی ہوتے ہیں جب ہم اِن کے درمیان ہوتے ہیں تب شاید یہ اتنے بھلے محسوس نہ ہوں لیکن جب یہ کسی یاد کی صورت زمانوں میں ڈھل جاتے ہیں تو ایک من موہنی سی نغمگی اِن سے مل کر انہیں اَمر کر دیتی ہے۔

آج بھی ایسا ہے دوران سفر لمحوں میں ہم کسی کہانی کا حصہ بن جاتے ہیں۔ سبھی یاد نہیں رہتیں مگر جو یاد رہتی ہیں وہ بے سبب یاد نہیں رہتیں۔ وہ کسی من موہنی سی نغمگی کے سَنگ زمانوں میں ڈھل جاتی ہیں۔

زمانے لوٹ آنے اور نئے رنگوں کے کمال کے ساتھ ٹھیک وہیں سے شروع ہونے کا جو خیال پہاڑی پگڈنڈی کے اُس آخری سِرے پر سفر کا حصہ بنا وہ آج تک قائم ہے۔ بس ہوتا یوں ہے کہ ہم اپنےکچھ زمانوں کو اِسی دنیا میں گردش کرانے کی تگ و دو کرتے ہیں اور کچھ ایسے لازوال اور اَمر رہ جانے والے زمانے اور کردار ہوتے ہیں کہ جن کے لیے اگلے جہانوں کی ضرورت پڑ ہی جاتی ہے۔
غمِ دوراں میں بقا کی اِس جنگ میں ہم خود سے، اپنوں سے کھو بھی جاتے ہیں لیکن رحمان کے آگے سر جھکا رہے تو پگڈنڈی کا وہ کنارہ کچھ دور نہیں جس کے اُس پار ہم سب ایکدوسرے کے اِسی طرح منتظر رہیں گے۔

Advertisements
julia rana solicitors

بھلے رستے میں بارہا آنکھیں نَم ہوں بس آس نہ ٹوٹے اور رحمان کے رستے پر نظر جمی رہے۔
آس وہ خزانہ ہے جو خدا کے سوا کسی اور دَر پر ملنا ممکن نہیں۔
خدا ہماری راہیں آسان فرما دے آمین۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply