عزت کی قیمت صرف ایک ٹرین کی ٹکٹ۔۔۔ڈاکٹر شاکرہ نندنی

یہ ایک سچی کہانی ہے جو میری انڈین دوست گیتیکا نے گزشتہ اتوار کو میرے ساتھ سویڈن ٹور پر جاتے ہوئے سنائی تھی، عام طورایسی کہانیاں لوگ کسی سے بھی شئیر نہیں کرتے لیکن میں اُس ہی کی اجازت سے آپ لوگوں سے شئیر کررہی ہوں۔

میں اس سے فیس بک پر ملی تھی اس وقت میری عمر 19 جبکہ اس کی عمر 34 سال تھی اُس کا نام درپن تھا اس نے مجھے بتایا کہ وہ طلاق یافتہ ہے اور اس کی پہلی بیوی سے بچے ہیں اس کی پرسنالٹی ، گھر بار اور گاڑی نے مجھے بہت متاثر کیا۔

کسی بھی نئے بندہ پر اعتبار بہت مشکل ہوتا ہے، مگر شروع میں اس سے دوستی سے زیادہ کچھ نہیں چاہتی تھی کیونکہ میں بہت اکیلی تھی، میرے والدین ایک ایکسیڈنٹ میں فوت ہو گئے تھے اور مجھے میرے دادا دادی نے پالا تھا، میری سہلییاں بھی زیادہ نہِیں تھیں۔
ہم روزانہ  کالز اورڈھیر سارے  میسجز کرتے تھے ، میں نے اپنے دادا دادی سے اس کا تعارف بھی کروا دیا تھا اور وہ کبھی کبھار مجھے ملنے بھی آ جاتا تھا، وہ بہت باتونی تھا اور میرے دادا دادی اس کی باتوں سے بہت محظوظ ہوتے تھے۔

کچھ وقت گزرنے کے بعد محسوس ہوا کہ  یہ ہی وہ بندہ ہے جس کے ساتھ میں پوری لائف گزار سکتی ہوں ۔ میرے بہت زیادہ روکنے کے باوجود وہ مجھ سے جسمانی تعلق قائم کرچکا تھااور مجھے اس پر بہت زیادہ افسوس ہے۔

کچھ عرصہ کے بعد وہ اچانک غائب ہو گیا، اور میں ذہنی طور بہت اپ سیٹ ہوگئی میری ایک سہیلی نے مشورہ دیا کہ اس کی پہلی بیوی کی پروفائل سرچ کرو کیونکہ وہ اپنی پہلی بیوی کے بارے بہت زیادہ بات کرتا تھا، جب میں نے اس کی بیوی کی فیسبک پر پروفائی تلاش  کی تو اس پر ابھی تک شادی شدہ کا سٹیٹس لکھا تھا۔

میں نے غور کیا وہ ہمیشہ مجھے اس وقت کال کرتا تھا جب اس کا بچہ گھر پر نہیں ہوتا تھا یا وہ خود گھر سے باہر ہوتا تھا، مجھے اپنے آپ سے بہت گھن آنے لگی تھی کہ میں ایک ایسے شخص کے ساتھ سوئی جو شادی شدہ تھا اور اس کے بچے تھے ۔

ایک دن اچانک وہ واپس آگیا اور کہنے لگا، کہ اس کو اپنی پہلی بیوی سے کوئِی  پیار نہیں تھا جس کی وجہ سے اس نے اس کو طلاق دیدی ، مجھے یہ جان کر بہت حیرانی ہوئی تھی کہ جس بندے نے 17 سال کسی عورت کے ساتھ گزارے اور وہ بھی بغیر محبت کے،

میرے پاس اس کی وضا حت قبو ل کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہِیں تھا مگر میں نے کبھی اس کے جھوٹ کو معاف نہیں کیا جو اس نے میرا جسم حاصل کرنے کےلئے مجھ سے طلاق یافتہ ہونے کا جھوٹ بولا، مجھے یہ سوچ کراپنے وجو د سے نفرت ہونے لگی کہ میں ایک ایسے مرد کے ساتھ سوتی رہی جو کسی اور عورت کا خاوند ہے ، مجھے اس بات کی ذرا بھی پرواہ نہیں تھی کہ وہ کہتا تھا کہ میری شادی ختم ہوچکی ہے۔

ہاں ۔۔۔ مگر مجھے اس بات کی پرواہ تھی کہ اس سے ملتے ملتے میں لڑکی سے عورت بن گئی اور یہی سچ ہے۔

جب وہ اپنی سالگرہ پر میرے گھر آیا تو میں نے اپنے ہاتھو ں سے اس کے لئے کیک بنایا ، وہ میری ساری فیملی سے ملا اور ان میں گھل مل گیا ،میں نے اس کو اچھی طرح باور کروا دیا تھا کہ اگر وہ مجھ سے شادی کرنا چاہتا ہے اس کو اپنی بیوی کو طلاق دینا ہوگی اور اپنی فیملی سے مجھے ملوانا ہوگا ۔اس نے مجھ سے ایک مہینہ مانگا کہ اس ایک مہینے میں وہ طلاق کے کاغذ اپنی بیوں کو بھیج دے گا، اور اس کی اس بات سے مجھے لگتا تھا کہ وہ مجھ سے بہت مخلص ہے اور میرے ساتھ اپنی نئی زندگی شروع کرنے میں بہت پُرجوش ہے۔

ایک مہینے بعد اس کا فون آیا کہ وبہت نفسیاتی الجھن کا شکار ہے اور اپنا علاج کروا رہا ہےاور مجھ سے ریکوئسٹ کی کہ ہم کسی تفریحی مقام پر جاتے ہیں فریش ہونے کےلئے، میرے لیے یہ بہت مشکل کام تھا لیکن میں نے اپنے دادا دادی کو منا لیا کہ ہم سہیلیوں کا ٹرپ جا رہا ہے اور مجھے جانے کی اجازت دیں ،اس بڑی مشکل کو حل کرنے کےلئے میری ایک دوست نے میرا ساتھ دیا اور دادا دادی مان گئے۔

میں اور وہ شملہ چلے گئے لیکن ایک رات گزرنے کے بعد اس کا رویہ کچھ مختلف لگا، اس نے کہا کہ اس کو کچھ نفسیاتی پرابلم ہے اور علاج کروارہا ہے، مجھے محسوس ہوا کہ وہ مجھ میں دلچسپی  نہِیں لے رہا اور ہمارا تعلق شاید ختم ہو جائے، میں نے اس کی خوشی حاصل کرنے کے لئے ہر ممکن کوشش کی ، ایک دن وہ کہنے لگا وہ اپنے بچے اور بیوی سے بہت پیار کرتا ہے اور اس کی بیوی کو اپنے بچے کے لئے دوسری ماں پسند نہیں۔

مجھے سب کچھ بکھرتا ہوا محسوس ہوا، ہم اکھٹے بیٹھے اور اپنے تعلق کے بارے بات کی، اس نے کہا وہ مزید مجھ سے محبت نہیں کرسکتا اور اپنے ساتھ رکھ نہیں سکتا، کیونکہ اس کو اپنی شادی نبھانا ہے اسکی وجہ اس کی بیوی نہیں تھی ،وہ خود تھا۔۔

Advertisements
julia rana solicitors

اپنے گھر سے ہزار میل دور اس کو اپنے سے دور جاتا ہوا دیکھ کر میں بہت روئی کیونکہ وہ واحد وہ  شخص تھا جس سے مجھے پیار تھا اور اسی نے میری پیٹھ میں چھرا گھونپا اور اپنے آپ سے نفرت ہونے لگی کہ یہ ہی وہ شخص تھا جس کے ساتھ میں نے زندگی گزارنے کا پلان کیا تھا۔اس نے مجھے کہا کہ میں گھر واپس چلی جاؤں اور اس کےلئے وہ مجھے ٹرین کا ٹکٹ لے کر دے سکتا ہے، مجھے لگا میری محبت اور میری عزت کی قیمت صرف ایک ٹرین کی ٹکٹ لگائی گئی ہے۔

Facebook Comments

ڈاکٹر شاکرہ نندنی
ڈاکٹر شاکرہ نندنی لاہور میں پیدا ہوئی تھیں اِن کے والد کا تعلق جیسور بنگلہ دیش (سابق مشرقی پاکستان) سے تھا اور والدہ بنگلور انڈیا سے ہجرت کرکے پاکستان آئیں تھیں اور پیشے سے نرس تھیں شوہر کے انتقال کے بعد وہ شاکرہ کو ساتھ لے کر وہ روس چلی گئیں تھیں۔شاکرہ نے تعلیم روس اور فلپائین میں حاصل کی۔ سنہ 2007 میں پرتگال سے اپنے کیرئیر کا آغاز بطور استاد کیا، اس کے بعد چیک ری پبلک میں ماڈلنگ کے ایک ادارے سے بطور انسٹرکٹر وابستہ رہیں۔ حال ہی میں انہوں نے سویڈن سے ڈانس اور موسیقی میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی ہے۔ اور اب ایک ماڈل ایجنسی، پُرتگال میں ڈپٹی ڈائیریکٹر کے عہدے پر فائز ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”عزت کی قیمت صرف ایک ٹرین کی ٹکٹ۔۔۔ڈاکٹر شاکرہ نندنی

Leave a Reply