عذرِ حیا۔۔۔۔ سلیم مرزا

خواتین کے عالمی دن کے موقع پہ میں ان تمام عورتوں کا مشکور ھوں جن کا میری زندگی میں کسی نہ کسی حوالے سے کردار رھا،
میری ماں ۔۔۔
جس نے پلاسٹک کی چپلوں سے مجھے ٹھوک بجا کر “گنئے “میں کرنے کی کوشش کی ۔جیسے آج کل کی خواتین بچے کا سر گول کرنے کیلئے اس کے سر کے نیچے چاول بھرے سرھانے رکھتی ہیں
ہمارے بچپن میں اتنی سردردی نہیں لیا  جاتا  تھا ۔
ٹھوک پیٹ کر ہی ٹنڈ شیپ میں ہوجاتی تھی ۔
آپ ملاحظہ کر سکتے ہیں ۔
میری بہنیں ۔
میں ان کا بھی مشکور ہوں میری کردار سازی مہم میں ان کا کردار ھمیشہ ہیر کے چاچے جیسا رہا ۔ایک کے علاوہ مجھے کسی بہن نے نہیں مارا ۔باقی صرف کان کھینچتی تھیں ۔عموماً  مجھے گھر میں عید کے اس چھترے کی طرح لایا جاتا ۔جس کے گلے کی”سنگلی “ابھی خریدنی ہو۔
لہذا میرے بڑے بڑے کان انہی کی کھنچا تانیوں کی دین ہیں ۔
میری بیگم
سب سے زیادہ فخر مجھے اسی پہ ہے ۔
رخصتی کے وقت وہ بالکل بھی نہیں روئی ۔
مجھے دیکھتے ہی اسے سکتہ ہو گیا تھا ۔
مگرچھوڑیں، آج خواتین کا عالمی دن ہے ۔۔۔
میں اس دن کو اپنے لیے ہمیشہ یادگار سمجھتا ہوں، اگر میں نہ سمجھوں تو مجھے سمجھا بھی دیا جاتا ہے ۔
ایک دوبار بھولا ہوں ۔اس کا اتنا تلخ نتیجہ نکلا جیسے میرے میٹرک کے رزلٹ کا نکلا تھا
نہ میں نے دوبارہ میٹرک کیا اور نہ یہ  دن ہی دن بھول سکا،
آج میری بیوی کی سالگرہ ہے ۔
وہ میری پیدائش سے سولہ سال بعد وہ پیدا ہوئیں ۔
اس دوران میں پانچ، سات سال پیدا ہونے والیوں سے کافی خجل خوار ہو چکا تھا ۔
اس میں سارا قصور ان کی اپنی تاخیر کا تھا ۔
میں بیگم پہ مزاح نہیں لکھتا ۔ کیونکہ اس نے ایف اے سائنس میں کیا ہے ،میں ٹھہرا آرٹس میں میٹرک فیل ،
لہذا اسٹیبلشمنٹ سے پنگا لینے کا فائدہ؟
جو میں آپ کو فزیکلی عجیب سا لگ رہا ہوں ،یہ کوئی انہی کی کیمسٹری کے فارمولے کا اتار چڑھاؤ ہے ۔
میں ان چند خوش نصیبوں میں جن کی گھر میں سنی جاتی ہے ۔عموماً اس موقعے پہ تو میری بات پہ پانچ منٹ کے اندر عمل ھوتا ھے جب میں بند ٹوائلٹ سے آواز لگا ؤں ۔
“موٹر چلا دئیو”
چھوٹی عمر میں لڑکیوں کے ساتھ کھیلتے تو بڑے سمجھاتے تھے کہ ان کے ساتھ نہیں کھیلتے، کان پک جاتے ھیں ۔
بیگم کے آنے کے بعد پتہ چلا، کھیلو نہ کھیلو ۔
کان پک ھی جاتے ھیں ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply