بلوچ کا پُرسہ قبول کیجیے/ذوالفقار زلفی

مذاق برطرف ـ یہ کہنا کہ مظاہرین چوں کہ پنجابی تھے اس لئے فوج نے ہاتھ ہلکا رکھا ہے فوجی وکٹ پر کھیلنا ہے ـ اسی طرح دونوں متحارب دھڑوں کی طبقاتی پوزیشن کے تناظر میں پیٹی بورژوازی کی نچلی پرتوں اور محنت کشوں کے قتال کو یہ کہہ کر نظر انداز کیا جائے کہ یہ حکمران طبقے کی آپسی لڑائی ہے اس لئے “سانوں کی” ہرگز درست رویہ نہ ہوگا ـ۔

درست ہے یہ لڑائی پاکستان کے حکمران طبقات اور بالخصوص پنجابی نوآبادکار کی آپسی لڑائی ہے ـ کوئی بھی فریق غالب آئے یا دونوں کسی تصفیے پر پہنچیں عام محنت کش کو نیولبرل معاشی نظام کی چکی میں پسنا ہی ہے ـ پاکستانی بالخصوص پنجابی لیفٹ کو مگر یہ حقیقت نظر انداز نہیں کرنی چاہیے کہ اس وقت پاکستان میں نیو لبرل معاشی نظام بدترین بحران کا شکار ہے ـ عدم مساوات کی شدت میں کئی گنا اضافہ ہوچکا ہے ـ پیٹی بورژوازی کی نچلی پرت اور محنت کش طبقہ شدید دباؤ کا شکار ہے ـ معاشی دباؤ کی وجہ سے وہ حکمران طبقات خاص طور پر عسکری اسٹبلشمنٹ کے خلاف سخت غصے میں ہے، اس کے اس غصے اور محرومی کو پی ٹی آئی بڑی بے رحمی سے اپنے مفادات کے تحفظ کے لئے استعمال کر رہی ہے ـ۔

پنجابی ہیں اس لئے فوج نے ہاتھ ہولا رکھا ہے، سفید جھوٹ ہے ـ دو درجن سے زائد ہلاکتیں تو میڈیا میں رپورٹ ہوچکی ہیں ـ میرا محتاط اندازہ ہے ہلاکتوں کی تعداد اس سے بھی زیادہ ہے ـ ہلاکتوں کی سب سے بڑی تعداد پاکستان کے دوسرے جنگ زدہ خطے پشتون وطن سے رپورٹ ہوئی ہیں ـ اس کے بعد نام نہاد “ہتھ ہولا رکھا” خطے میں ہوئی ہیں ـ لاہور، گوجرانوالہ، سوات، پشاور، شانگلہ اور کوئٹہ سے ہلاکتوں کی آدھی ادھوری معلومات دستیاب ہیں ـ۔

مرنے والوں کا تعلق حکمران طبقے سے ہرگز ہرگز نہیں ہے ـ یہ وہ عام لوگ تھے جن کی محرومی، غصے اور مایوسی کا استحصال کرکے انہیں خون آشام ریاستی طاقت کے سامنے پھینکا گیا ـ یوتھیا، زومبی، جاہل، برگر، فین کلب وغیرہ جیسے تضحیک آمیز القابات دے کر ان حرماں نصیب سیاسی کارکنوں کی بےتوقیری ظلمِ عظیم کے سوا کچھ نہیں ہے ـ یہ نچلے طبقے سے تعلق رکھنے والے سیاسی کارکن تھے ـ اپنے عسرت زدہ گھروں کے چشم و چراغ تھے ـ۔

ہم ایک ایسے دور میں رہ رہے ہیں جہاں انسان کی جگہ اعداد اہمیت رکھتے ہیں ـ دس مرگئے، پندرہ جان سے گئے ـ سچ یہ ہے کہ ایک انسان جب غیر طبعی موت مرتا ہے تو اس کے ساتھ چشم زدن میں ایک پوری تاریخ بھی مرجاتی ہے ـ اس کے رشتے، محبتیں، دوستیاں، دشمنیاں، یادیں اور خواب سب مٹی میں مل جاتے ہیں ـ وہ اپنے جیسے دیگر انسانوں سے منسلک ہوتا ہے اور انسانوں کا وہ گروہ مدت تک اس اچانک جسمانی جدائی کی تکلیف کی آگ میں جلتا رہتا ہے ـ سرمایہ دارانہ نظام مگر ان سب کو محض ایک نمبر کی شکل دے کر اس کی شدت کم کردیتا ہے ـ۔

افسوس پاکستان میں ایک بھی ایسی جماعت نہیں ہے جو محنت کشوں کی رہنمائی کرسکے ـ نواز شریف کی محبت میں گرفتار پنجابی لبرل طبقہ عمران خان سے نفرت میں اس قدر اندھا ہوچکا ہے کہ وہ موت کی سزا پانے والے سیاسی کارکنوں کی تضحیک سے بھی باز نہیں آتا ـ دو دنوں کے اندر اتنی بڑی تعداد میں سیاسی کارکنوں کا قتل کسی بھی لحاظ سے نظر انداز کرنے کے قابل نہیں ہے ـ۔

میں ایک بلوچ ہوں ـ یہ میری لڑائی نہیں ہے ـ مجھے پاکستان کی لولی لنگڑی جمہوریتوں اور آمریتوں میں کوئی دلچسپی نہیں ہے ـ ہماری لڑائی ہی الگ ہے ـ اس جنگ میں ہم تنہا ہیں اور آخری بلوچ تک لڑیں گے ـ مگر میں اپنے ہم طبقہ پنجابیوں اور پشتونوں کی موت پر افسردہ ہوں ـ پنجابی لبرلوں کی فضول یاوہ گوئی کہ جی فوج مقدس ہے، جی ریاست بچانی چاہیے، جی یادگار جلانا غلط ہے وغیرہ وغیرہ کی شدید مذمت کرتا ہوں ـ میں اپنے ہم طبقہ افراد سے اظہارِ یکجہتی کرتا ہوں ـ ریاست کے ٹارچر سیلوں میں تشدد برداشت کرنے والے اپنے ہم طبقہ افراد سے محبت و ہمدردی کا اظہار کرتا ہوں ـ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

تمام شہدائے نو و دس مئی کو سرخ سلام

Facebook Comments

ذوالفقارزلفی
ذوالفقار علی زلفی کل وقتی سیاسی و صحافتی کارکن ہیں۔ تحریر ان کا پیشہ نہیں، شوق ہے۔ فلم نگاری اور بالخصوص ہندی فلم نگاری ان کی دلچسپی کا خاص موضوع ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply