رئیل اسٹیٹ کی کہانی/اعظم معراج

یہ مضمون اقتباس ہے”  اعظم معراج کی کتاب پاکستان میں رئیل اسٹیٹ کا کاروبار” ( مجموعہ کتب)میں سے ۔

 

 

 

 

پچھلے دنوں سیاسی گروپ والوں نے اپنا کچھ اشتہاری مواد تمام اسٹیٹ ایجنٹس کو بھیجا۔ اس میں ایک حصہ بڑی اچھی کوٹنگ کی ہوئی عبارت میں تھا جس کا عنوان میں جائداد حقیقی ہوں I Am Real Estate تھا۔ اب میں جب بھی اس تحریر کو پڑھتا ہوں تو مجھے محسوس ہوتا ہے کہ جو نوجوان سوال کرتے ہیں کہ ’’رئیل اسٹیٹ کیا ہے‘‘ شاید یہ اس کا جواب ہو۔ کیوں کہ میں نے تو کبھی رئیل اسٹیٹ کو ’’ایسٹ اوپن ویسٹ اوپن‘‘اور ’’میرے کتنے ہیں؟‘‘ سے زیادہ سمجھا ہی نہیں اور سارا دن یہ ہی کرتا رہتا ہوں۔ اب میں فارغ اوقات میں اکثر اس صفحے کو گھورتا رہتا ہوں اور انگریز کو کوستا رہتا ہوں جو خود تو چلا گیا لیکن ہمارے لیے مصیبت چھوڑ گیا یعنی انگریزی، جی ہاں یہ سارا بڑی ’’خوفناک‘‘ انگریزی میں ہے۔ ہر جاہل کی طرح گھبراتے ہوئے کہ میرا پول نہ کھل جائے کسی کو ترجمہ کے لیے بھی نہیں کہا آخر اپنے پڑھے لکھے دوست امتیاز گل کو (جس کومیں اکثر تنگ کرتا رہتا ہوں) منت کی کہ ترجمہ کر دو اب جیسے جیسے ترجمہ ہوتا گیا احساس ہوتا گیا کہ ہم اتنی خوبیوں والی چیز کے لین دین میں لوگوں کی مدد کرتے ہیں۔ اگر رئیل اسٹیٹ کی یہ کہانی سچی ہے تو ہمیں نہ لفاظی کی ضرورت ہے اور نہ کسی کو گھیرنے کی ضرورت ہے۔ ذیل میں دی ہوئی کہانی کو مہارت سے اپنے کلائنٹ کے سامنے بیان کرنا ہوتا ہے۔ خوش قسمتی سے ہم ایسے پیشے سے متعلق ہیں جہاں ہر چیز قدرتی حقیقتوں پر مبنی ہے۔ اب پڑھئے رئیل اسٹیٹ کی کہانی اس کی اپنی زبانی۔
’’میں رئیل اسٹیٹ ہوں‘‘
میں دولت کی بنیاد اور دانش مندی کی وراثت ہوں۔ نادار کی امید، غریب کا سہارا، دولت مند کا انعام اور سرمائے کے لیے ریڑھ کی ہڈی ہوں۔ ہزار کامیاب لوگوں کی کامرانیوں کے پیچھے میری ہی ذات کارفرما ہوتی ہے۔ میں کسی کی بیوگی کا سہارا تو کسی کے بڑھاپے کا آرام ہوں۔ کسی کو مفلسی کے مقابلے میں تحفظ فراہم کرنا میری ذمے داری ہے۔ تو کوئی اپنے برے دنوں میں میرے سہارے کا محتاج ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میں خاندانوں اور خانوادوں میں نسل در نسل منتقل ہوتی چلی جاتی ہوں۔ میں محنت شاقہ کا مطلوب ترین پھل ہوں۔ میرے ہوتے ہوئے طلبِ قرض بھی باعثِ شرم نہیں رہتا۔ میں اپنے تعارف کے یے ہر ایک کے سامنے موجود ہوں کہ وہ محنت و ہمت کرے اور مجھے حاصل کرلے۔ میری قدر و قیمت میں ہر گزرتے دن کے ساتھ اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ بظاہر خوابیدہ ہونے کے باوجود میری قدر و قیمت ختم ہوتی ہے اور نہ ہی اس میں کسی قسم کی کمی آتی ہے۔ میری مقبولیت ہی میری اساس ہے۔ جو ہر گزرتے لمحے کے ساتھ میری قدر میں اضافہ کرتی ہے۔ آگ جیسا عنصر بھی مجھے ختم نہیں کرسکتا۔ میری قوت میں ہمیشہ اضافہ ہی ہوا ہے۔ گزرتی صدیاں میرے حسن کی دلکشی کو کم نہیں کرسکیں۔ میرے مالکوں کا اعتماد کبھی متزلزل نہیں ہوا۔ یہی بات دوسروں کے لیے ہمیشہ باعث رقابت ہے حتی کہ وقت نے ہر چیز مرجھا دی لیکن میں آج بھی ہمیشہ کی طرح جوان ہوں۔ مجھ پر بھروساکیجئے کیوں کہ میں مضبوط ہوں اور بھروسے کے قابل۔ اناڑی سرمایہ کار میرے مخالف بنتے ہیں کہ میں ہمیشہ سے منجمد ہوں۔ جب کہ مخالفوں کے حصے میں صرف شرمندگی آئی۔
خوراک کی افزائش ہمیشہ سے میری مرہونِ منت رہی ہے۔ کارخانوں اور جہازوں کی روانی میری وجہ سے ہے۔ بینکوں اور تجارتی اداروں کی بنیاد میرے وجود سے ہے۔ معدنیات اور تیل کے خزانے میرے وجود سے پھوٹتے ہیں۔ میں مقبولِ عام ہوں لیکن پھر بھی ہزاروں لوگ میرے سے بے اعتنائی اور بے وفائی سے گزر جاتے ہیں۔
اگر جائداد حقیقی (رئیل اسٹیٹ) اپنے منہ میاں مٹھو نہیں بن رہی تو پھر ہمیں تو صرف اپنی پیشہ ورانہ مہارت کو ہی بڑھانا ہے اور کلائنٹ کو صرف اس کی حقیقت پر مبنی خوبیاں ہی بتانے کی ضرورت ہے نہ کہ جھوٹ اور لفاظی کا سہارا لیا جائے۔ صرف خوبیوں کو پیشہ ورانہ مہارت سے اجاگر کرنے کی ضرورت ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

تعارف:اعظم معراج کا تعلق رئیل اسٹیٹ کے شعبے سے ہے ۔ وہ تحریک شناخت کے بانی اور بیس کتب کے مصنف ہیں ۔ جن میں سے پانچ رئیل اسٹیٹ کے شعبے سے متعلق ہیں ۔جن میں نمایاں” پاکستان میں رئیل اسٹیٹ کا کاروبار (مجعوعہ کتب)ہے ۔دیگر پندرہ اس فکری تحریک کے اغراض و مقاصد کے حصول کے لئے لکھی گئی ہیں ۔ جن میں دھرتی جائے کیوں پرائے، شان سبزو سفید کئی خط اک متن, شناخت نامہ نمایاں ہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply