عید الاضحیٰ کا تربیتی پہلو/سراجی تھلوی

پوری دنیا میں عید الاضحیٰ کی مناسبت سے مسلمانان ِ عالم نے  مختلف جانوروں کی قربانی پیش کیں  ۔ کاش اہلِ  اسلام اس سنت ِابراہیمی کے فلسفے کو بھی سمجھ کر اپنے اندر موجود حیوانیت”نفس امارہ” کو بھی ذبح کر دیتے تو کیا ہی اچھا ہوتا۔

انسان دو خصلتوں کا مظہر ہے یعنی دو قوتوں کا مرکب ہے۔ مولانا رومی نے “مثنوی معنوی”میں من انسانی ،اور منِ حیوانی سے تعبیر کی ہے ۔اور شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے “ملکیت” اور “بہیمیت” سے تعبیر کی ہے۔اس عظیم دن کے موقع پر حسبِ استطاعت مختلف جانوروں کی قربانی کے ساتھ اس روح و جسم سے مرکب وجودِ انسانی میں موجود بہیمیت،حیوانیت،انانیت،غرور ،اقربا پروریت ،جنونیت سمیت تمام صفاتِ رذائل کو بھی قربان کر دینے کا عہد کرے تو اس ذبح عظیم کا مقصد حاصل ہو جائے۔ ورنہ اللہ تعالی خود ہی قرآن مجید سورہ حج آیت نمبر 37میں ارشاد فرماتا ہے “اللہ کے ہاں ہرگز نہ ان کے گوشت پہنچتے ہیں اور نہ ان کے خون،ہاں البتہ تمہاری طرف سے پرہیزگاری اس کی بارگاہ تک پہنچتی ہے”(ترجمہ کنز العرفان)

Advertisements
julia rana solicitors london

لہذا مقصد قربانی اللہ کی رضا و قربت حاصل کرنا ہے۔اور قبولیت قربانی اچھی و نیک نیت پر موقوف ہے ۔حضرت خلیل و ذبیح علیھما السلام کے درمیان جو مکالمے ہوے ہیں وہ سراپا عشق اور حُکم خداوندی کے سامنے سر تسلیم خم ہونے، اپنی جان سے عزیز بیٹے کو بھی خدا کی رضا کے لیے وار دینے ،اور بیٹے کا خدا اور والد کے حکم پر سر تسلیم خم ہونے، سراپا مطیع ہونے کا درس ملتا ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply