پڑیے گر بیمار تو(6)۔۔فاخرہ نورین

میں مہروں کے درد میں مبتلا تھی اور تکلیف بڑھ جانے کے باعث اب باقاعدہ بستر نشین ہو چکی تھی ۔چنانچہ باقاعدہ لگ کر علاج کے سوا کوئی حل نہیں تھا ۔ ایکسرے رپورٹ میں تین مہروں کے روبہ زوال ہونے کا پڑھ کر میں نے تو اپنے چہلم کے شامیانے اور دیگیں بھی دیکھ لیں ۔ تین دن سے زبیر کا کچھ اتا پتا نہیں تھا ۔وہ میرے میسج دیکھتا اور سنتا تھا لیکن جواب نہیں دیتا تھا ۔ پندرہ دنوں تک واپس آنے کے وعدے پر اسے اٹلی جانے کی اجازت دے تو دی تھی لیکن اب اس کے تیور کچھ اور تھے۔

مجھے غصہ اور دکھ دونوں ساتھ ساتھ تھے لیکن ہمارے حالات کی ضرورت تھی کہ اس عالم میں اسے اٹلی جانے دیا ۔بار بار ایس او پیز پر عمل درآمد کی ہدایات دیتی میں اس کی صحت کے متعلق فکر مند تھی لیکن اس کو بے فکری تھی کیونکہ وہ اپنے تئیں کرونا گزار چکا تھا ۔ سفر سے پہلے کرونا ٹیسٹ کی منفی رپورٹ وہ مجھے بھیج چکا تھا اور اچانک فلائٹس کے شیڈول کے متعلق مشکوک خبریں شییر کرنے لگ گیا ۔

مجھے غصہ آ گیا ۔ کرونا ٹیسٹ کے بعد کیا نئے قوانین آ گئے تھے، یہ کون سی مصروفیات آن پڑی تھیں کہ وہ ٹال مٹول کر رہا تھا ۔ رپورٹ نیگیٹو تھی تو پھر وہ عین واپسی کے وقت ڈرامے اور بہانے کیوں کر رہا تھا ۔

کچھ گڑبڑ تھی لیکن کیا؟ یہ مجھے سمجھ نہیں آ رہی تھی ۔ ہمارے درمیان ایک سرحدی جھڑپ ہوئی تو تھی لیکن یہ تو معمول کی بات تھی اس کا جواز لے کر سیٹ لیٹ کرنا اور قیام طویل کرنا تو باقاعدہ اعلان جنگ تھا جو وہ کبھی نہ کرتا ۔

میرے ابو کی برسی قریب تھی اور میں پاگل پن کی حد تک تکلیف میں تھی ایسے میں کیا اس نے پھر مجھے اکیلا چھوڑ دیا؟ وہ یہ کیسے کر سکتا ہے ۔
چل بیبا جے تو ونڈ لیندا
دکھ کیہڑا مک جانڑا سی
ویلا لنگھن والی شے سی
ویلے کد رک جانڑا سی

جسمانی اور ذہنی تکلیف ایسی تھی کہ میرے تیسرے عشق یعنی بھتیجی عارفین کی سالگرہ گزر گئی اور مجھے اسے وش کرنا تک یاد نہیں تھا ۔ بس ایک تسلسل سے میں نے یک طرفہ ووف ووف کا تحریری اور صوتی سلسلہ جاری رکھا۔

ہر بار تم مجھے تکلیف میں اکیلا چھوڑ دیتے ہو لیکن اب معافی نہیں ۔تم اس کو بھگتو گے اب میں سزا دوں گی بدلہ لوں گی اور نہ جانے کیا کیا ۔
تین دن تک اس نے مجھے کوئی سوال جواب نہ کیا ۔ مجھے علاج کے لئے پیسے جمع کروانے کی ضرورت تھی سو اسے لکھا
مالی معاملات طے کرنے ہیں، مجھے کال کرو، مر تو میں ویسے جاؤں گی بہت جلد ۔تمہاری زحمت ختم ہو جائے گی ۔

فورا ً کال آئی اور میں نے نان سٹاپ اخراجات کی تفصیل اور اپنے پاس موجود پیسوں کی رقم بتا کر اس کا پروگرام پوچھا ۔
جیسے کہو ۔ یہ اس کا جواب تھا اور میں ایک بار پھر ہسپتال میں کھڑی کھڑی عف عفانے لگی۔

بس اے ٹی ایم ہو تم ۔ پیسے بھیج کر بہت فخر محسوس کرتے ہو، یہ نہیں سمجھتے کسی کتے کو تمہاری پرسش احوال کی ضرورت ہے، تکلیف تمہاری آواز سے بھی کم ہو سکتی ہے ۔لیکن تم بے حس ہو، صرف محبت کا دعویٰ کرتے ہو، کچھ خیال نہیں کہ بیوی بیمار ہے ۔تم گندے آدمی ہو ۔نفرت کرتی ہوں میں ایسے آدمیوں سے ۔

فون بند ہو گیا اور میں حیران پریشان اس کی کمینگی اور بے حسی پر اسے کوستی ادائیگی کرنے کاؤنٹر پر چلی گئی ۔

واپسی کے راستے میں اور پھر اگلے کتنے دنوں تک میں تھی، میری تکلیف، اس کی بے حسی اور اس کا یہ رویہ کہ وہ میری تکلیف میں ساتھ نہیں تھا ۔میں نے ہر دستیاب لمحے میں اسے کوسنے اور برا بھلا کہنے کا سلسلہ جاری رکھا۔

مگر وہ بس دیکھتا اور خاموش رہتا۔میں اس کی تصویر کو دیکھتے ہوئے اسے گالیاں دیتی اور کبھی معاف نہ کرنے کا عہد کرتے ہوئے اس کی سزا کے طریقوں پر غور کرتی۔
علاج بہت تکلیف دہ تھا اور اس تکلیف میں اس کا رویہ میرے لئے ایک ناسور بن گیا ۔
اس کے پاس کوئی اور عورت ہے، ورنہ یہ اتنے دنوں تک مجھے اگنور نہیں کر سکتا تھا ۔
میں اب اس کی زندگی کی واحد عورت نہیں رہی۔
میرے ذہن میں اس کے رویے کی صرف ایک ہی وجہ آ سکی۔ کیوں کہ اتنی بے گانگی صرف ایک ہی جواز کی بنیاد پر ممکن تھی ۔
اب محبت کے جھوٹے دعوؤں اور مضبوط کردار کے بودے نکلنے پر لعن طعن کا سلسلہ جاری ہو گیا ۔
میں نے تمہیں کیا سمجھ لیا تھا ۔تم اتنی جلدی کسی اور کی طرف بڑھ گئے زبیر۔

تم مجھے صاف صاف بتاو، میں مائنڈ نہیں کرتی ۔لیکن مجھے دھوکہ نہ دو۔ میں جانتی ہوں تم شرمندہ ہو گے، کوئی بات نہیں ۔ہو جاتا ہے ۔لوگ اچھے لگ جاتے ہیں ۔میں سمجھ سکتی ہوں ۔لیکن یہ ممکن نہیں ہے کہ میں کسی اور کے ساتھ شراکت قبول کروں ۔تم مجھے اچھے دوست کی طرح بتا سکتے ہو۔ ہم اس رشتے کو اچھے طریقے سے ختم کر سکتے ہیں ۔

میں نے ایک کے بعد دوسرا میسج بھیجنے کا سلسلہ جاری رکھا لیکن وہی ڈھاک کے تین پات۔وہ میسج دیکھتا، سنتا لیکن جواب دیتا نہ کال اٹھاتا ۔

میں نے اپنی امی اور بہن کو بتانے کا فیصلہ کر لیا ۔اس نے اب تک پیسے بھی نہیں بھیجے تھے اور یہ پہلی بار ہوا تھا ۔امی نے کہا ۔
ہماری کال بھی نہیں اٹھا رہا کہیں ایسا تو نہیں کہ بیمار ہو اور ہسپتال والے اٹھا لے گئے ہوں اور فون پاس نہ ہو ۔زبیر میری کال تو لازمی اٹھاتا ہے ۔کچھ مسئلہ ہے ،زبیر ٹھیک نہیں ہے ۔
بہن نے کہا بھائی نے میسج کیا ہے
کہ کال نہیں ہو سکتی میسج کریں ۔میں پھر عف عف کرنے لگی

مجھے تو میسج بھی نہیں کر رہا ذلیل کر کے رکھ دیا ہے ۔ پہلے تکلیف کم ہے کیا جو یہ آدمی ذہنی اذیت بھی دے رہا ہے ۔

امی کو بہر حال یقین ہو گیا تھا کہ زبیر کی صحت ٹھیک نہیں انھوں نے گھر میں خود اور چھوٹی بہنوں سے بھی سورہ یس اور سورہ رحمٰن پڑھوا کر اس کی صحت یابی مانگنی شروع کر دی ۔
میں نے بھی اس پہلو پر غور کرنا شروع کر دیا ۔

زبیر اگر بیمار ہے تو مجھے بتا کیوں نہیں رہا ۔ کرونا رپورٹ تو میں خود دیکھ چکی ہوں پھر اس کے علاوہ کیا ہو سکتا ہے ۔کچھ سمجھ نہیں آتی تھی سو مکسڈ احساسات کے ساتھ اسے سوچنے اور کوسنے کے ساتھ کریدنے کا سلسلہ بھی شروع کر دیا لیکن جواب ندارد۔

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply