• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • شہنشاہِ چین کی محبتِ رسولﷺ سے سرشار سو لفظوں کی نعت(پہلا حصّہ )۔۔انیس رئیس

شہنشاہِ چین کی محبتِ رسولﷺ سے سرشار سو لفظوں کی نعت(پہلا حصّہ )۔۔انیس رئیس

تیرھویں صدی عیسوی میں منگول سلطنت اپنے بامِ عروج پر تھی۔ چنگیز خان کے پوتے مونگے خان،برکے خان، ہلاکو خان اور قبلائی خان مشرقی یورپ ، وسط ایشیا، روس ،چین اور مشرقِ وسطی کو زیر کرتے ہوئے تاریخ کی وسیع ترین سلطنت کے حکمران بن چکے تھے۔روسی  چینی، کورین ، عرب ،ترک اور فارسی اقوام ایک ہی ریاست یعنی  منگول سلطنت کے باسی تھے ۔چنگیز خان کا ایک پوتا قبلائی خان چین میں حکمران تھا تو دوسرا  ہلاکو خان کی صورت میں سقوطِ بغداد کے بعدمسلمانانِ عرب و عجم کا والی تھا۔  چین میں قبلائی خان سے شروع ہونے والا منگول عہدِ حکمرانی1368ء میں Mingخاندان کے ہاتھوں اختتام کو پہنچا۔مِنگ عہد کے بانی عزت مآب Hongwuاس دور کے پہلے شہنشاہ تھے  ۔

چین میں مِنگ خاندان کا دورِ اقتدار وہ عرصہ ہے جب یورپی طاقتیں نو آبادیاتی نظام کے تانے بانے بُن رہی تھیں ۔ یورپ کےاستعماری حربوں کا مقابلہ کرنے اور چین کو بیرونی اثرات سے محفوظ رکھنے کے لئے  مِنگ حکمرانوں نے چین کو بیرونی مداخلت سے محفوظ رکھنے کے لئے بین الاقوامی تعلقات کو محدود کرنے کی پالیسی اپنا لی۔اس نئی صورتحال کے فوری اثرات یہ ظاہر ہوئے  کہ  چین کی مشہور بندر گاہوں اور ساحلی علاقوں میں بسنے والے مسلمان نقل مکانی کرکے ملک کےطول وعرض میں پھیلنے لگے ۔اسی طرح منگول تسلط ختم ہوا تو چین میں غیر ملکی عناصرکو شک کی نظر سے دیکھا جانے لگا ۔ان دو وجوہات کے باعث یہ دور چین میں مسلمانوں کے حوالہ سے غیر معمولی تغیرات کا دور تھا۔مؤرخین لکھتے ہیں کہ :۔’’ اب تک مسلمان چین میں ایک غیر ملکی گروہ کے طور پر بودوباش رکھتے تھے ،لیکن منگول عہد کے خاتمہ کے بعد دیگر علاقوں میں آباد اپنی ہم مذہب اقوام سے چینی مسلمانوں کے روابط منقطع ہوگئے ۔نیز حکومتِ وقت کا اعتماد حاصل کرنے کے لئے چین کے مسلمانوں نے مقامی رسم ورواج اور تہذیب وثقافت کو اپنانا شروع کردیا ۔حتی کہ اپنے مذہبی طور اطوار میں بھی جس حد تک ممکن تھا چینی روایات سے ہم آہنگی اختیار کر لی گئی۔(1)

قبلائی خان کے دورِ حکومت میں چین میں مسلمانوں کی تعداد میں غیر معمولی اضافہ ہوا ،لیکن منگولوں کے ہاتھوں سقوطِ بغداد اور مسلمان سلطنتوں کے پے درپے انہدام کے نتیجہ میں چینی باشندوں اور مسلمانوں کے مابین قربتیں بڑھنے لگیں۔

مِنگ عہد کے بانی عزت مآب شہنشاء کا اخلاق وکردار

مِنگ خاندان کے بانی عزت مآب Hongwuکا نام Zhu Yuanzhangتھا ۔ آپ ایک غریب کسان گھرانے کے چشم وچراغ تھے ۔جب آپ کی عمر سولہ برس ہوئی توچین کو ایک شدید قحط نے آلیا۔ جس میں آپ کے  ایک بھائی اور آپ کے علاوہ  تمام افرادِ خاندان  ہلاک ہوگئے ۔ چین میں پڑھنے لکھنے کا رواج  عام تھا لیکن آپ بوجہ غربت کے رسمی تعلیم سے  بھی محروم رہے ۔ایک یورپی مصنف Simon Leysآپ کے اوصاف کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:۔

’’ آپ ایک ذخیرہ کرنے والے کسان گھرانہ سے تعلق رکھتے تھے ۔نہایت کم تعلیم یافتہ لیکن عمل کے پیکر ,   جراءت مند ، سخت دل کے مالک،بلا کے ذہین اور مدبر تھے  ۔’‘ (2)

منگولوں  کی چین سے آزادی  آپ کی قیادت و صلاحیت کا منہ بولتا ثبوت ہے،لیکن بنیادی طور پرآپ جارحانہ جنگوں،ہمسایہ ممالک پر قبضہ اور قتل و غارت کے خلاف تھے ۔آپ نے اپنے بعد آنے والے شاہانِ چین کو نصیحت کی تھی کہ :۔

’’بیرونی حملہ آوروں اور جنگی جنون میں مبتلاء لوگوں کے خلاف صرف دفاعی جنگ کی جائے ۔محض فوجی گھمنڈدکھانے اور عظمت کی دھاک بٹھانے کی خاطر جنگوں سے اجتناب کیا جائے ‘‘      (3)

مِنگ عہد حکومت کی خصوصیات

مِنگ حکمرانوں کا دور چین میں اصلاحات کا دور کہلاتا ہے ۔منگولوں کے قبضہ سے ہونے والی شکست وریخت اور نظامِ حکومت کو چند سالوں میں دوبارہ اپنے قدموں پر کھڑا کردینا اور چین میں ایک مستحکم سلطنت کا قیام شاہانِ مِنگ کا کارنامہ ہے۔اسی دور میں دیوارِ چین کی تعمیر نو ہوئی ۔شاہانِ مِنگ کے مسلمان ایڈمرل Zheng Heنے واسکو ڈے گاما سے بھی پچاس برس قبل نہایت عظیم الشان بحری بیڑے تعمیر کروائے اور ان کے ذریعہ دنیا کے طول وعرض کا سفر کیا ۔چین کی ہان نسل میں سے مِنگ خاندان چین کے آخری حکمران تھے۔

مسلمانوں کے لئے مذہبی آزادیوں کا دور

مِنگ عہد میں مسلمانوں کو بیجنگ او ر چین کے طول عرض میں مذہبی آزادیاں نصیب تھیں، اپنی عبادات اور مذہبی رسوم ورواج پر عمل کرنے میں کوئی پابندی نہ تھی۔ مؤرخین کے مطابق تبت کے بدھ مت اورکیتھولک مسیحیوں کی نسبت مسلمانوں کی مذہبی زندگی زیادہ آزاد اور خودمختار تھی۔ (4)

شاہانِ چین کی اسلامی خدمات

مِنگ عہد کے بانی عزت مآب Hongwuنے جنوبی چین میں متعدد مسجدیں تعمیر کروائیں۔چین کے بڑے شہروں Nanjing,Yunnan,Guangdongاور Fujianکی مساجد آپ کے عہد کی یاد ہیں۔آپ کی سپاہ میں دس مشہور جرنیل مسلمان تھے ۔

مِنگ عہد کا دارلحکومت Nanjing دیکھتے ہی دیکھتے اسلامی علوم وفنون کا مرکز بن گیا۔ چینی مسلمان علامہ Hu Dengzhou نے نانجِنگ میں اسلامی مدرسہ قائم کرکے قرآن و حدیث کی ترویج شروع کی۔اس ادارہ میں عربی اور فارسی زبان میں تعلیم دی جاتی اور مختلف مضامین اور علوم کے ماہرین اور  متحضصین  پیدا ہونے لگے ۔ اسلامی کتب کے چینی زبان میں تراجم ہونے لگے ۔ہوئی نسل کے مسلمانوں نے چین کے اصلی باشندوں یعنی  ہان نسل کے چینیوں میں اسلام کی ترویج  واشاعت کے لئے چینی زبان کے اسلامی لٹریچر میں خوب اضافہ کیا اور چینی باشندوں کو یہ باور کروانے کی کوششیں کہ اسلامی تعلیم کنفیوشس کے تصورات سے زیادہ بُعد نہیں رکھتی۔یہ وہ تبلیغی حکمت عملی تھی جس نے یہودیت اور مسیحیت کی نسبت چین میں اسلام کی جڑیں مضبوط اور پیوست کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔

مِنگ عہد کے مسلمان ایڈمرل ،مبلغ اور سفیر

مِنگ عہد  میں شاہانِ چین کے دربار میں سب سے بارسوخ اور معتبر شخصیتZheng Heسمجھے جاتے، جن کا اسلامی نام Ma Heتھا۔چینی تلفظ کے فرق کی وجہ سے بعض تاریخی کتب میں آپ کا نام Cheng Ho بھی مشہور ہے۔ آپ نے  مِنگ حکمرانوں کے سفیر اور چینی بحریہ کے سربراہ کی حیثت سے چین کی سمندری طاقت کو نئی جہات عطا کیں۔آپ نے اس عہد کے سب سے بڑے بحری بیڑے تیار کروائے اور برصغیر سے لے کر مشرق وسطی ، یورپ اور افریقی ممالک تک متعدد سفر کئے ۔گوکہ چودھویں صدی سے پیشتر  ہی انڈونیشیا، ملائیشیااور برونئی  وغیرہ کے جزائر میں اسلام متعارف ہوچکا تھا لیکن ساحلی علاقوں میں آپ کی آمد ورفت اورنہایت ارفع کردار کی بدولت اسلام کا پیغام نہایت سرعت اور تیزی سے پھیلنا شروع ہوا اوردیکھتے ہی دیکھتے مِنگ عہد کے دوران ہی ان جزائر میں آباد لوگوں کی اکثریت حلقہ بگوشِ اسلام ہوگئی۔محققین کے مطابق:۔

’’ آپ کے سمندری سفروں کے ذریعہ مشرق ومغرب میں روابط استوار ہوئے اور جنوب مشرقی ایشیاء اور اسلامی دنیا میں تعلقات قائم ہوئےاور اسلام کے پھیلاؤ میں غیر معمولی تیزی آگئی۔مِنگ شہنشاؤں کے باعتماد وزیر اور سفیر کی حیثیت سے Zheng He نےسلطنت ملاکہ کی آزادی کی حمایت  کی اور یوں اس علاقہ میں پہلی اسلامی سلطنت کے قیام سے اشاعتِ اسلام کو ایک مہمیز نصیب ہوئی۔’‘  (5)

انڈونیشیا کے دوسرے بڑے شہر Surabayaمیں The Cheng Hoo Mosqueچین کے Quanzhou Maritime Museum میں آپ کے کارہائے نمایاں پر مشتمل نمائش اور ملائیشیا کے Stadthuys Museum Malaccaمیں آپ کا قد آدم مجسمہ چینیوں کے نزدیک آپ کے مقام و مرتبہ اور انڈونیشی جزائر میں آپ کے عزو وقار کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

مِنگ عہد میں مسلمانوں کا چینی تہذیب وثقافت میں انضمام

جیسا کہ عرض کیا جاچکا ہےچین پر منگولوں کا اقتدار مِنگ خاندان کے ہاتھوں اختتام کو پہنچا۔ غیر ملکی تسلط ختم ہونے کے بعد چین میں بسنے والے مسلمانوں نے اپنا اسلامی تشخص برقرار رکھتے ہوئے چینی تہذیب وثقافت اور اسلام کے امتزاج کاایک نیا چہرہ متعارف کروایا۔ چین میں بیرونی خطوں سے ہجرت کرکےآباد ہونے والے مسلمانوں نے مقامی نام اختیار کرنے شروع کئے اورسعید کے لئے Sa ،حسن کی جگہHa،حُسین کی بجائے Huاور محمد نام رکھنے والوں نے Maیا Moکے اسماء اختیار کر لئے ۔اسی طرح لباس اور کھانے پینے کے لحاظ سے بھی اسلامی تعلیم اور چینی آداب کا امتزاج سامنے آیا۔

چینی زبان چونکہ تصویری زبان تھی لہذا،خوش نویسی اور خطاطی چین کی تہذیب وثقافت کا اہم حصہ بن گئی۔مِنگ عہد میں عربی زبان میں آیات قرآنی اور احادیث کی خوش نویسی او ر خطاطی کے ذریعہ چین میں اسلامی تعلیم وتہذیب کا نیارنگ جلوہ گر ہوا۔

اسی طرح مساجد کی تعمیرمیں فارسی، عربی اور ترک فنِ تعمیر کی جگہ چینی فنِ تعمیرجھلکنے لگا۔ مناروں ، گنبدوں اور چھتوں کے ڈیزائن بھی روایتی مساجد کی بجائے چینی معابد کی طرز اختیار کرنے لگے۔ (6)

چینی تہذیب وثقافت اور مسلمانوں کے طرز زندگی کے امتزاج کے نتیجہ میں چین میں اسلام کے ایک نئے دور کا آغاز ہوا۔ چین میں بسنے والے یہودیوں اور مسیحیوں کے مقابلہ میں مسلمانوں کا طرز زندگی ایک ایسا پرکشش رنگ اختیار کر گیا کہ ایک طرف تو چینی عوام میں اس کی مقبولیت میں اضافہ ہوا تو دوسری جانب چین میں بسنے والے  یہودی ومسیحی باشندے اسلام کی طرف متوجہ ہونا شروع ہوگئے ۔ تاریخی حقائق کے مطابق:۔

مِنگ عہد  میں سترھویں صدی عیسوی کے قریب  چین میں آباد یہودیوں کی اکثریت  حلقہ بگوش اسلام ہوگئی ۔(7)

مِنگ حکمرانوں کی اسلام سے غیر معمولی عقیدت اور چین میں بسنے والے مسلمانوں کی چینی تہذیب وثقافت میں انضمام کی کامیاب کاوشوں کی بدولت ’’ چین میں اسلام ‘‘یا ’’ چین میں مسلمانوں‘‘ کی بجائے چینی مسلمان کی اصطلاح عام ہونے لگی اور چینی مسلمان چین کی تہذیب و ثقافت کا اٹوٹ انگ حصہ بن گئے ۔

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply