انڈونیشیا (4) ۔ بابائے قوم/وہاراامباکر

جب انڈونیشیا آزاد ہوا تو اس کے پاس کوئی جمہوری روایات نہیں تھیں۔ جمہوریت کے لئے بنیادی عوامل میں عام تعلیم کی ضرورت ہے۔ اختلافِ رائے کے حق کی ضرورت ہے۔ مختلف نقطہ نظر کو برداشت کئے جانے کی ضرورت ہے۔ انتخاب میں شکست تسلیم کر لینے کی روایت انتہائی اہم ہے۔ انڈونیشیا ان سب روایات میں کمزور تھا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ورزائے اعظم اور کابینہ آتی رہیں اور جاتی رہیں۔ ستمبر 1955 کے انتخابات میں ووٹ دینے والوں کی شرح حیران کن طور پر 92 فیصد تھی۔ لیکن ان کا نتیجہ کچھ نہیں نکلا۔ چار بڑی جماعتوں کو پندرہ سے بائیس فیصد کے درمیان ووٹ ملے۔ یہ آپس میں مفاہمت کرنے میں ناکام رہیں۔ نتیجہ سیاسی عدم استحکام میں نکلا۔
مفاہمت میں ناکامی جمہوریت کی ناکامی ہوتی ہے۔ اور صدر سوئیکارنو نے 1957 میں مارشل لاء لگا دیا۔ جمہوریت کی بساط لپیٹ دی گئی۔ سوئیکارنو اس کی جگہ پر جو نظام لائے، اس کا نام انہوں نے guided democracy رکھا۔ پارلیمان میں نصف سے زائد ممبران کو سوئیکارنو نے خود نامزد کیا۔ فوج کو سیاسی پارٹی کے طور پر پارلیمان میں سیٹیں دی گئیں۔
سوئیکارنو اس بات کی قائل ہو گئے کہ وہ انڈونیشیا کے لئے لازم ہیں۔ اور 1963 میں انہوں نے تاحیات صدر رہنے کا اعلان کر دیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوئیکارنو نے دو مہمات شروع کیں۔ یہ عسکری قوت کی بنیاد پر علاقوں پر قبضے کیلئے تھیں۔ پہلی ڈچ نیو گنی پر قبضے کیلئے تھی۔ یہ وہ حصہ تھا جہاں پر ڈچ قبضہ برقرار رہا تھا۔ یہاں کے رہنے والوں نے اپنا قومی پرچم اور ترانہ بنا لیا تھا اور اپنی آزادی کی تیاری میں تھے۔ لیکن سوئیکارنو نے فیصلہ کیا کہ یہ انڈونیشیا کا حصہ ہے۔ پہلے نیدرلینڈ پر سفارتی دباؤ ڈالا گیا کہ اسے انڈونیشیا کے حوالے کر دیا جائے اور پھر 1961 میں بری، بحری اور فضائی افواج کو حکم دے دیا کہ اس پر قبضہ کر لیا جائے۔
اس کا نتیجہ سوئیکارنو کیلئے سیاسی کامیابی تھا لیکن انڈونیشیا کی افواج میں سے بہت سوں کیلئے اور ڈچ نیوگنی میں رہنے والوں کیلئے یہ ٹریجڈی تھی۔
ڈچ بحریہ طاقتور تھی اور اس نے انڈونیشیا کی بحریہ کو نقصان پہنچایا۔ پیراشوٹ سے افواج اتاری گئیں جو کہ دشوار کام تھا۔ نیوگنی کی مشکل زمین پر رات کے اندھیرے میں اترنے والے فوجیوں کو گھنے جنگل اور مچھروں والی دلدلی زمین پر اتارنا ظالمانہ فعل تھا۔ بہت سے ساگو کے درختوں سے ٹکرا کر یا دلدلوں میں مارے گئے۔
دنیا میں کالونیل قوتوں کے لئے ہمدردی نہیں رہی تھی۔ نیدرلینڈز کو جنگ بند کرنی پڑی۔ اس نے یہ علاقہ اقوامِ متحدہ کے حوالے کر دیا۔ اقوامِ متحدہ نے اس کا انتظام انڈونیشیا کو دے دیا۔ یہاں استصوابِ رائے کروایا جانا تھا۔ یہ کبھی منعقد نہیں ہوا۔ سات سال بعد اسمبلی کے ذریعے ووٹ کروا کر اس کو باقاعدہ طور پر انڈونیشیا میں شامل کر لیا گیا۔ آزادی پسندوں نے انڈونیشیا سے گوریلا جنگ شروع کر دی جو نصف صدی گزر جانے کے بعد بھی جاری ہے۔
سوئیکارنو کی دوسری مہم ملیشیا کے حصے پر تھی۔ بورنیو کا جزیرہ ملیشیا اور انڈونیشیا کے پاس ہے۔ ساراواک اور صباح نے 1963 میں ملیشیا سے الحاق کیا تھا۔ ان پر ساتھ ملانے کیلئے ملیشیا کے بورنیو والے حصے پر فوج کشی کی گئی لیکن بورنیو سے انہیں کوئی مقامی مدد نہیں ملی۔ آخر میں، انڈونیشیا کو یہ مہم ترک کرنا پڑی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انڈونیشیا میں ایک پیچیدہ اور کنفیوز کرنے والا سہہ فریقی طاقت کا مقابلہ 1960 کی دہائی میں جاری تھا۔ ایک طرف کرشماتی لیڈر اور ماہر سیاستدان سوئیکارنو تھے۔ انہیں بابائے قوم کی حیثیت سے عوامی حمایت حاصل تھی۔ دوسری طرف افواجِ انڈونیشیا تھیں۔ تیسری طرف انڈونیشیا کمیونسٹ پارٹی تھی۔ یہ مضبوط اور منظم سیاسی جماعت تھی۔
سوئیکارنو نے گائیڈڈ ڈیموکریسی کیلئے فوج سے اتحاد برقرار رکھا تھا۔ اور ساتھ ہی ساتھ کمیونسٹ پارٹی سے بھی۔ خاص طور پر چین سے دوستی تھی اور اعلان کیا تھا کہ انڈونیشیا نیوکلئیر طاقت بنے گا۔ فوج کے اندر کمیونسٹ اور کمیونزم مخالف گروہ بن چکے تھے۔ اسی طرح سوئیکارنو کے حامی اور سوئیکارنو کے مخالف بھی۔ سوئیکارنو اور کمیونسٹ پارٹی نے تجویز دی کہ کسانوں اور مزدوروں کو مسلح کیا جائے تا کہ وہ ملک کے دفاع کا حصہ بن سکیں۔ اس کے خلاف آنے والا ردِعمل شدید تھا کیونکہ اسے کمیونزم کی طرف قدم سمجھا گیا۔ اسے روکنے کے لئے فوجی قیادت نے کونسل آف جنرلز قائم کر دی۔
(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply