فلسطین (12) ۔ النکبہ/وہاراامباکر

یہ کسی سلو موشن میں ہونے والے ٹرین کے حادثے کی طرح تھا۔ تیس نومبر 1947 سے لے کر برطانوی فوج کے آخری انخلا اور پندرہ مئی 1948 تک اسرائیل کے قیام تک صیہونی پیراملٹری گروپ ہاگنا اور انتہاپسند گروپ ارگن اور لیہے ملیشیا نے عرب رضاکاروں کی غیرمنظم تنظیموں کو پے در پے شکستوں سے دوچار کیا۔ اپریل 1948 تک فلسطینی دیہاتوں پر قبضہ کر کے یہاں سے آبادی کو بے دخل کیا گیا۔ مئی کے پہلے نصف تک دو بڑے شہروں یافا اور حیفہ پر کے علاوہ مغربی یروشلم پر۔ طبریا پر 18 اپریل، حیفہ پر 23 اپریل، صفد پر 10 مئی اور بیسان پر 15 مئی کو قبضہ ہو چکا تھا۔
یافا سے ساٹھ ہزار فلسطینی بے دخل ہوئے۔ (اقوامِ متحدہ کی قرارداد میں یہ اسرائیل کا حصہ نہیں تھا)۔ تیس ہزار مغربی یروشلم سے، بارہ ہزار صفد سے، چھ ہزار بیسان سے جبکہ ساڑھے پانچ ہزار طبریا سے۔ یہ فلسطینی مہاجر بن گئے۔
پندرہ مئی تک تین لاکھ فلسطینی نکالے جا چکے تھے اور اب اگلا مرحلہ شروع ہوا۔
پندرہ مئی کو مصر کے حملہ آور ہوتے ساتھ یہ جنگ عرب اسرائیل جنگ میں تبدیل ہو گئی۔ عرب ممالک نے نئی آزادی حاصل کی تھی۔ ان کے اندرونی مسائل بہت تھے۔ آزادی کے ساتھ ہی جنگ میں کود پڑنا آسان فیصلہ نہیں تھا۔ اردن کے شاہ دو بار فلسطینیوں کی طرف سے کی گئی باقاعدہ درخواست مسترد کر چکے تھے۔ لیکن اب عرب عوام کی طرف سے دباوٗ بڑھ رہا تھا۔ مہاجرین کے قافلوں پر قافلے ان کے شہروں کی طرف آ رہے تھے۔
اسرائیلی آرمی نے عرب افواج کو شکست دی۔ اس شکست کے بعد بے دخل ہونے والے فلسطینیوں کی تعداد مزید بڑھ گئی۔ کل چار لاکھ مزید ایسے تھے جو یا تو بے دخل کئے گئے یا جان کے خوف سے خود چھوڑ گئے۔ اردن، شام، لبنان، مغربی کنارہ اور غزہ کی طرف رخ کیا۔ مغربی کنارہ اور غزہ وہ 22 فیصد حصہ تھا جس کو اسرائیل نے فتح نہیں کیا۔ کسی کو واپس آنے کی اجازت نہیں ملی۔ چھوڑنے والوں کے زیادہ تر گھر اور دیہات مسمار کر دئے گئے۔ جب تک 1949 میں جنگ بندی ہوئی، علاقے کا نقشہ تبدیل ہو چکا تھا۔
فلسطین سے نکلنے والے لوگوں نے پڑوسی ممالک ۔۔ جو پہلے ہی غریب اور کمزور تھے ۔۔۔۔ کو غیرمستحکم کر دیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عرب ریاستوں کو اپنے پہلے بڑے بین الاقوامی امتحان میں بڑی ناکامی ہوئی تھی۔ فیصلہ کن شکستوں کا یہ سلسلہ اگلے برسوں میں 1982 کی لبنان جنگ تک چلتا رہا۔ انہیں اندرونی مسائل کے ساتھ ایک طاقتور اور جارحانہ ہمسایہ اسرائیل کی صورت میں ملا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہاں پر ایک سوال یہ کہ آخر ایسی کیا وجہ رہی کہ 1948 کی جنگ میں اسرائیل نے کامیابی حاصل کی؟ اسرائیلی نیشلسٹ تاریخ دانوں نے اس فتح کے گرد شجاعت کی mythology تخلیق کی ہے۔ لیکن فتح کی عملی وجوہات تھیں۔ اس کی چار وجوہات سمجھی جاتی ہیں۔
عرب افواج متحد اور ایک کمان کے تحت نہیں تھیں۔ مصر کی واحد دلچسپی نقب کے علاقے میں تھی۔ سیریا کی الجلیل میں جبکہ اردن کی مغربی کنارے میں۔اس کے برخلاف اپنے تمام تر اختلافات کو ایک طرف رکھ کر اسرائیلی جنگی مقصد میں متحد تھے۔ ایک مشترک ایجنڈا تھا جو اسرائیل کا دفاع تھا۔ بن گوریان کے ریاست کی تشکیل کے اعلان کے ساتھ ہی کئے جانے والے پہلے اقدامات میں سے چار ملیشیا کو ضم کر کے اسرائیلی ڈیفنس فورس کا قیام تھا۔ اگرچہ ان چاروں ملیشیا (ہاگنا، ارگن، لیہے اور پالماک میں نظریاتی اختلافات تھے تھے۔
دوسرا یہ کہ فلسطینی عرب کمیونیٹی میں کوئی تنظیم نہیں تھی۔ برٹش کے خلاف جاری رہنے والی 1936 سے 1939 کی بغاوت کے دوران فلسطینی عرب قیادت ختم ہو چکی تھی یا علاقہ چھوڑ چکی تھی۔ قیادت کا خلا تھا۔
تیسرا اہم معاملہ ہتھیاروں کا تھا۔ تمام فریقین پر ہتھیاروں پر پابندی تھی۔ اس کا نتیجہ یہ تھا کہ بندوق دوبارہ لوڈ نہیں کی جا سکتی تھی۔ رائفل مرمت نہیں ہو سکتی تھی۔ ٹینک کو دوبارہ کام میں نہیں لایا جا سکتا تھا۔ لیکن ہاگنا کے ایجنٹ یورپی ہتھیار بنانے والوں سے نجی تعلقات رکھتے تھے۔ نوٹوں کے بریف کیس لے جا کر ہتھیار خریدنے کی اصل کہانیاں ہیں جس سے اسرائیل کے پاس ہتھیاروں کی سپلائی میں برتری تھی۔ اسلحے کی روزمرہ دیکھ بھال کی صلاحیت میں بھی برتری رہی تھی۔
چوتھا مسئلہ زراعت اور خوراک کا تھا۔ اور یہ بہت ہی اہم تھا۔ ایک تو یہ کہ فلسطینی زراعت کو بغاوت کے دور میں خاصا نقصان پہنچا تھا۔ لیکن اس کے علاوہ بھی یہودیوں نے اس کو آرگنائز کرنے پر بہت توجہ دی تھی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا تھا کہ اسرائیل کو اپنی آبادی کو کھلانے کا مسئلہ نہیں ہوا تھا جبکہ دوسری طرف فلسطینی عرب بمشکل اپنی ضروریات پوری کرنے کے قابل تھے، نہ کہ یہ کہ عرب افواج کو کھلایا جا سکتا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسرائیل کے قیام کا ایک پرجوش حامی سوویت یونین رہا تھا۔ سوویت قیادت کا خیال تھا کہ یہ ریاست سوشلسٹ چیلہ بن جائے گی۔ اور ماسکو کی نظر میں مصر، اردن، عراق کی عرب بادشاہتیں برطانیہ کے مہرے تھے (جس نے انہیں آزادی حاصل کرنے میں مدد کی تھی) اور اسرائیل ان کے مخالف سوویت کے ہاتھ میں ہو گا۔ لیکن کورین جنگ میں سوویت کا ساتھ نہ دینے کے فیصلے کے بعد یہ تعلقات سردمہری کا شکار ہو گئے۔ 1955 تک سوویت یونین کئی عرب ریاستوں سے اچھے تعلقات بنا چکا تھا، خاص طور پر مصر اس کا اتحادی بن چکا تھا۔ اسرائیل کے ساتھ ہنی مون مختصر رہا۔
امریکہ کے ساتھ تعلقات الگ راستے پر گئے۔ روس اور یورپ سے نکالے گئے یہودیوں میں سے کئی نے امریکہ کا رخ کیا تھا۔ چالیس لاکھ یہودی امریکہ جا چکے تھے۔ جب نازی عروج آیا اور یورپ میں نسلی طہارت کے نام پر قتلِ عام شروع ہوا تو اس نے امریکہ میں رائے عامہ پر بہت اثر ڈالا۔ نازیوں کے کئے گئے قتلِ عام اور نتیجے میں بے گھر یہودیوں کے بکھرے ہوئے کیمپ امریکہ کی ابتدائی پالیسی کی وجہ رہے۔
شروع کی دہائیوں میں اسرائیل کو امریکی ملٹری اور اکنامک سپورٹ حاصل نہیں تھی۔ 1970 کی دہائی سے پہلے امریکہ اسرائیل کی حمایت کرتا تو رہا تھا لیکن اقوامِ متحدہ میں کئی بار اسرائیل کی مذمت کی تھی۔ اسرائیل کی غیرمشروط حمایت امریکہ پالیسی نہیں تھی۔ سرد جنگ کے ڈائنامکس نے اس کو تبدیل کر دیا۔ اس وقت عالمی سیاست میں ہر چیز کو اسی عینک سے دیکھا جاتا تھا۔ اسرائیل کی زبردست ملٹری فتوحات سے اسرائیل اس اہم علاقے کا اہم کھلاڑی بن گیا۔
(جاری ہے)

Advertisements
julia rana solicitors london

ساتھ لگی تصویر اکتوبر 1948 میں فلسطینی مہاجرین کی ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply