باؤجی بڑے ڈھیر دن ہوئے بات نہیں ہو سکی سوچا خط لکھ لوں
چھوٹا ویر بھی بات کرنا چاہتا تھا میں نے کہا آپ کو خط لکھتے ہیں تو کہنے لگا
اللہ میاں کے پاس تو خط جاتے نہیں اور باؤجی اب پڑھ نہیں سکتے
مگر میں پھر سے لکھ رہی ہوں ،آپ پڑھ لینا باؤجی بس کسی کو مت بتانا
اچھا ایک منٹ رکیں باؤجی میں پہلے منہ دھو آتی ہوں !!
باؤجی السلام عليكم
باؤجی میں آپ کی کَوکَو
چک 32 جھنگ گجرات سے
وہی باؤجی جو موری والے پُل سے آگے سیدھے ہاتھ کی کچی سڑک پر آتا ہے
میں ٹھیک ہوں باؤجی
چھ ماہ ہونے والے ہیں پیٹ سا نکل گیا ہے
دائی شَگّو شیدے کی ماں کہہ رہی تھی لڑکا ہوگا
صغیر نے نئی چُنّی لے کر دی ہے وہ پہن کر باہر نکلتی ہوں
پیٹ ڈھکا ڈھکا رہتا ہے۔
باؤجی چھوٹا اب ساتویں جماعت میں ہے
گنّے کے کھیت میں آپ کی منجی پر شام شام جاکر بیٹھ جاتا ہے
باؤجی آپ کا حقہ ماں جی کے بعد ماموں بشیر نے لے لیا تھا
اور باؤجی صغیر کی بجلی والے آفس میں نوکری لگ گئی ہے
انہوں نے اپنی سائیکل بیچ کر سکوٹر لیا ہے
بتّی جیسے رنگ کا پیلا پیلا ہے
باؤجی سون پادھو کا موسم ہے رات کو آواز دور تک جاتی ہے تو ٹوبے والی بسوں کا شور تڑکے تڑکے سنائی دیتا ہے
آپ یاد آتے ہیں باؤجی
بہت یاد آتی ہے باؤجی
میں بھی نا جانے کیا باتیں لیکر بیٹھ گئی ہوں نا
باؤجی
خط لکھنا بڑا ہی اوکھا ہے
میں جب چھوٹی تھی نا تب ہی آپ کو لکھتے دیکھا تھا
آپ کھاتہ لکھتے تھے
باؤجی خط بھی کھاتہ لکھنے جیسا ہوتا ہے
کچھ بھی ادھورا رہ گیا تو گڑبڑی ہوجاتی ہے
پر باؤجی ۔۔۔۔۔
باؤجی
باؤجی میں صغیر سے پوچھ رہی تھی کہ لڑکیوں کا تو چڑیا داں چنبہ گھر ہوتا ہے
بابا میں بھی ایک روز بابُل کے گھر سے اڑ گئی تھی
میں سوچ رہی تھی مردوں کا چڑیاں دا چنبہ کیا ہوتا ہے
صغیر نے بتایا کہ جس دن مرد کمانے جاتا ہے وہ چنبے سے اڑ جاتا ہے
پر باؤجی مرد تو شام گئے لوٹ آتے ہیں
واپس نہیں آتے تو بس آپ نہیں آتے
بس آپ کی یاد آتی ہے
باؤجی اب کی بار میں اڑی تو آپ کے پاس آؤ ں گی
آپ مجھے کاندھے پر اٹھا لینا میں تھوڑی بھاری ہوگئی ہوں اب گود میں نہیں آ سکتی نا
باؤجی آنسو نہیں رکتے
خط کی لکھائی بھی دھندلی دھندلی دکھ رہی ہے
میں نے پتہ نہیں کیا کیا لکھنا تھا مگر لگتا ہے باؤجی وہ کھاتے اور خط والی بات خراب ہوگئی ہے
باؤجی میرا خط خراب ہوگیا ہے جیسے آپ کا کھاتہ ایک روز خراب ہوگیا تھا تو آپ چلے گئے تھے
بس باؤجی کسی طرح آپ کو یہ خراب سا خط مل جائے
باؤجی میں آپ کو آپ کے جانے کے بعد کا احوال سنانا چاہتی تھی مگر باؤجی خط لکھتے ہوئے بار بار منہ دھونے نہیں جانا ہوتا
بس باؤجی آپ کے بعد
دنیا بڑے مہنگے بھاؤ بکی
جیسے پھالیہ والی بوّا کے گھر کی چھت میں سوراخ ہوگئے تھے
باؤجی اسی طرح آپ کے بعد
ہر کنکر پتھر سر پر آ لگتا ہے
باتیں اندر کھب جاتی ہیں
رشتے داروں کے طعنے چبھتے رہتے ہیں
نیند بھی کچی ہوگئی ہے
اتنی کچی کہ جب مٹھو رات میں اپنی گردن داہنے پروں سے نکال کر باہنے پروں میں چھپاتا ہے تو شور سے آنکھ کھل جاتی ہے
شادی کے بعد میں مٹھو کو اپنے ساتھ لے آئی تھی
پہلے پہل صغیر اس کے پر کاٹ دیا کرتا تھا
اب بس اتنی ہی تبدیلی آئی ہے کہ میں اس کے پر نہیں کاٹنے دیتی
باؤجی میری باتوں سے لگتا ہے نا کہ میں بڑی ہوگئی ہوں
باؤجی آپ کے بعد تو یہ ہونا تھا نا
باؤجی ۔۔۔۔ میں صغیر کے ساتھ آپ سے ملنے آئی تھی پر باؤجی اب آپ بات نہیں کرتے
من بڑا بھرا بھرا ہوجاتا ہے
پیر وزنی ہوجاتے ہیں
واپس نہیں پلٹا جاتا
میں صغیر سے کہوں گی کہ یہ خط آپ کے سرہانے رکھ آئے
اچھا باؤجی اب میں منہ دھونے جارہی ہوں
والسلام باؤجی
کومل اور آپ کی کَوکَو
چک 32 جھنگ گجرات
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں