• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • بجٹ/ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ اور دینی خدمات انجام دینے والے/سیّد طفیل ہاشمی

بجٹ/ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ اور دینی خدمات انجام دینے والے/سیّد طفیل ہاشمی

بجٹ میں ملازمین کی تنخواہوں میں اضافے کے اعلان کے ساتھ ہی سوشل میڈیا پر ائمہ، موذنین، دینی مدارس کے اساتذہ کی تنخواہوں کے تذکرے اور ان کی کسمپرسی کا واویلا ہے کہ کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی.

اگر ان طبقات کو جن کے رزق میں تنگی ہے کبھی فرصت میسر ہو تو اپنے ساتھ بیٹھ کر اس مسئلے کے اسباب اور اس کے حل پر غور کریں، مجھے یقین ہے کہ وہ تھوڑی سی کوشش سے اس مخمصے سے نکل آئیں گے.

غور کرنے کے لیے چند بنیادی نکات پیش خدمت ہیں :
1_کسی گھر میں چار مہمان آنے ہوں تو خاتون خانہ لازماً پانچ چھ لوگوں کا کھانا تیار کرتی ہے تاکہ عین وقت پر کوئی شے کم نہ ہو جائے. کیا اللہ تعالیٰ دھڑادھڑ انسانوں کو دنیا میں بھیج رہا ہے اور اتنا بھی اہتمام نہیں کرتا جتنا ایک خاتون خانہ کرتی ہے.؟سائنسی تحقیقات سے یہ بات ثابت ہے کہ اگر دنیا کی آبادی موجود آبادی سے کئی گنا بڑھ بھی جائے تو بھی وسائلِ رزق ناکافی نہیں ہوں گے۔

2_اس دنیا کا نظام اسباب و مسببات cause & effect پر چلتا ہے۔جو نتائج آپ چاہتے ہیں اس کے مطابق اسباب اختیار کرنا پڑتے ہیں۔ شادی کئے بغیر ساری زندگی کے وظائف و دعائیں اولاد نہیں دے سکتیں۔اگر آپ کو زیادہ رزق چاہیے تو اس کے لیے ایسے وسائل اختیار کرنا ہوں گے جن کے ذریعے زیادہ رزق حاصل ہو سکے۔

3_مدارس میں جس توکل کی تلقین کی جاتی ہے وہ کتاب و سنت کی غلط تعبیر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خود ارباب مدارس اس طرح کا توکل اختیار نہیں کرتے بلکہ اپنے ذاتی اور ادارہ جاتی آمدنی کو بڑھانے کے لئے ہمہ وقتی مصروف رہتے ہیں۔

4_فقر اور غربت کوئی ایسی شے نہیں جس کی خواہش کی جائے۔ ارشاد نبوی ہے :کاد الفقر ان یکون کفرا، فقر انسان کو کفر کے قریب پہنچا دیتا ہے. یاد رہے کہ رسول اللہ کا فقر اختیاری تھا جیسے کوئی شخص سب کچھ ہونے کے باوجود سادہ زندگی گزارنے کو ترجیح دے۔اس ضمن میں سب سے نقصان دہ یہ رویہ ہے کہ کچھ لوگوں کی غربت اور تنگدستی کو گلوریفائی کر کے پیش کیا جائے کہ ان کا کچا مکان ہے اور جب کہ کرائے کا مکان یا کچا مکان کسی عظمت کی علامت نہیں ہے، ہوسکتا ہے کہ کسل مندی یا بے محنتی کی سزا ہو۔

5_وسائل رزق میں چار چیزیں شامل ہیں :
صنعت
زراعت
تجارت
مزدوری
ان میں سے سب سے کم تر درجہ اجرت یا مزدوری کا ہے جو ایک نوع کی غلامی ہوتی ہے اور ائمہ، موذنین، دینی مدارس کے اساتذہ کو اسی درجے میں رکھا جاتا ہے اور انہیں اتنی اجرت دی جاتی ہے جس سے وہ بمشکل زندہ رہ سکیں۔ اس میں بھی اگر ایسا کام ہو جس میں مزدور اپنی اجرت خود مقرر کر سکتا ہو تو حالات نسبتاً بہتر ہوتے ہیں جیسے مستری، درزی اور بڑھئی وغیرہ۔

6_اجرت کے بارے میں اصول یہ ہے کہ یہ طلب و رسد کی بنیاد پر مقرر کی جاتی ہے جب ہر سال لاکھوں کی تعداد میں دینی مدارس کے فضلاء سماج میں آئیں گے تو اس قدر جابز تو نہیں پیدا ہوتیں جیسے فاضل تعداد میں انجینئر اور آئی ٹی گریجویٹس یا ایم بی اے پیدا کرنے کے یہی نتائج سامنے آئے۔

7_مدارس جو خوش پوش، خوش خوراک اور کسل مند طبقہ پیدا کرتا ہے، اسے اپنے حالات بہتر کرنے کے لیے اپنے آپ کو اس ذہنی کیفیت سے باہر لانا چاہئے کہ ہاتھ سے کام کرنا ہماری توہین ہے۔ صحابہ کرام کی زندگیوں کا مطالعہ کریں کہ وہ ہر طرح کی محنت مزدوری کرتے تھے اور کتنے باعزت تھے. زراعت، صنعت، تجارت اور مزدوری جو بھی مناسب حال ہو شروع کر کے غریب الدیار اور بے وسیلہ ہونے سے آغاز کر کے ایک ایک بندہ کروڑوں اور اربوں کا مالک ہو گیا تھا۔

Advertisements
julia rana solicitors

آپ خود سوچیے، جو اسلام بھوکوں مارتا ہو اس کی طرف کتنے لوگوں کو رغبت ہو گی، اسی لئے رسول اللہ اپنی دعوت میں یہ بات بتاتے تھے کہ
“عرب پر تمہاری حکومت ہو گی اور عجم تمہارے زیر نگیں ہو گا”
اٹھیے، کام شروع کیجئے اور خوش حال ہو جائیں، گاڑیاں اور بنگلے آپ کے انتظار میں ہیں۔

Facebook Comments

ڈاکٹر طفیل ہاشمی
استاد، ماہر علوم اسلامی، محبتوںکا امین

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply