ڈاکٹر امتیاز احمد عباسی اک جہد مسلسل۔۔حسان عالمگیر عباسی

قرآن کا حکم ہے کہ ‘وجاھدوا فی اللہ حق جہادہ’ یعنی خدا تعالیٰ کی راہ میں جدوجہد کرو جتنا جدوجہد کرنے کا حق ہے۔ کسی بھی طرح کی کوشش جس کا مقصد رضائے الٰہی کا حصول اور عوامی فلاح و بہبود ہو جہاد کہلاتا ہے۔ میرے والد صاحب کے انتہائی قریبی دوست جناب ڈاکٹر امتیاز احمد عباسی کی توانا آواز ہمیشہ کے لیے خاموش ہو گئی ہے۔ یہ وہ مجاہد ہیں جنھوں نے عوامی فلاحی امور میں اپنا تن من دھن سب قربان اور خدا کے کہے کے عین مطابق جہاد کا صحیح معنوں میں حق ادا کیا ہے۔ بلا مبالغہ اس شخصیت نے جو خلا پیدا کیا ہے اس کا پُر ہونا لمبے عرصے تک نظر نہیں آ رہا۔ ڈاکٹر امتیاز احمد عباسی صاحب پی ٹی یو پنجاب کی صدارت سنبھالے رہے اور نوکری سے فراغت تک یہ فریضہ انجام دیتے رہے۔ ریٹائرمنٹ کے فوراً بعد گیگا جو سرکاری ملازمین کے حقوق کی جنگ لڑنے والی تنظیم ہے کے صدر بنا دیے گئے۔ آپ نے زندگی کو دوسروں کے لیے وقف کیے رکھا اور آخری سانس تک اسی مشن کو لے کے استقامت دیکھاتے رہے۔

یہ وہ شخصیت تھے جب عزم کر لیں تو خدا کے توکل کے سہارے کر گزرتے تھے کیونکہ قرآن کریم آپ سے گفتگو کے دوران بتلا گیا تھا کہ ‘فاذا عزمت فتوکل علی اللہ’ کیا معنی سموئے ہوئے ہے۔ آپ نے بالخصوص سرکاری سکولوں کے ٹیچرز اور ملازمین اور بالعموم معاشرے کے ہر اس شخص کے کام کو اپنا کام سمجھا جس نے آپ کو خدمت کا فریضہ سونپا۔ آپ بلا تفریق خدمت خلق پہ یقین رکھتے تھے۔ دوسروں سے اصولوں پہ اختلاف اپنی جگہ رہا لیکن خدمت کا موقع جب جب ہاتھ آیا ایسے کیا جیسے دوسرے ہاتھ تک کو خبر نہ ہو پائے۔ نیکی کرکے دریا میں پھینکنا ہمیشہ آپ کی سنت رہی۔ آپ کا مشن عوام الناس کی بلا تفریق خدمت اور مقصد خدا تعالیٰ کی رضامندی تھا۔

آپ نے جس ادارے کو دن، رات، ماہ، سال، صبح و شام دیا اس سے عشق کا اندازہ یہاں سے لگائیے کہ جب روح پرواز کرنے لگی تو جس شخص نے یہ منظر دیکھا وہ آپ کا خونی رشتہ نہیں تھا بلکہ معاشرے کے پسے ہوئے طبقے سے تعلق رکھنے والا سمیع اللہ تھا جسے آپ کی کوششوں سے ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ میں رزق کی کنجی ہاتھ آئی تھی۔ آپ عاشق تھے جبکہ ‘سکول’ آپ کی محبوبہ تھی یعنی سرکاری سکولز اور اس سے جڑے ہر سلسلے سے متعلق کام آپ کا ذاتی کام ہوا کرتا تھا۔ بحیثیت ذمہ دار جب فرشتہ روح قبض کرنے آیا تو آپ اپنے گھر پہ آرام دہ بستر پہ سکون و چین نہیں فرما رہے تھے بلکہ سکول کی در و دیوار میں مقید تھے کیونکہ یہ وہ جگہ تھی جہاں ہر ایک کی رسائی ممکن تھی تاکہ ان امور کو پہلی فرصت میں حل کیا جا سکے جو سکولز سے متعلق تھے۔ سکون و چین سے آپ جسمانی اطمینان شاید ضرورت کی حد تک پا لیتے لیکن ایسے آپ دل کا اطمینان، سکون اور سرور نہیں پا سکتے تھے۔ آپ کا لاہور، سیالکوٹ، سرگودھا، اور دیگر بڑے شہروں میں آنا جانا ایسا تھا جیسے عام آدمی کا گھر سے بازار اور بازار سے گھر جانا ہوتا ہے۔

آپ نے ساری زندگی عوام، اساتذہ، ملازمین اور مظلوموں کے خاطر سفر میں گزار دی۔ آپ ان تھک محنتوں کے باوجود اپنے مشن سے جڑے رہے اور اختتام بھی ایسا ہوا کہ خدا نے بستر سے لگنے سے پہلے ہی اپنی طرف بلا لیا اور ایسے ان کا مشن کامیاب رہا کہ وہ آخری سانس کی بحالی تک بے حال نہیں ہوئے۔ اس شخصیت نے غرباء، مساکین، اور مجبوروں کے سر پہ ہاتھ رکھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ‘انصر اخاک ظالما او مظلوما’ یعنی اپنے بھائی کی چاہے ظالم ہو یا مظلوم مدد کرو۔ آپ نے ہمیشہ مظلوموں کو اندھیروں سے نکالنے کی سعی و جدوجہد کی اور آج وہ سب بے یار و مددگار لوگ جن میں خواتین کی ایک بھاری تعداد بھی دیکھنے میں آئی جنھیں آپ نے زندگیاں لوٹائیں اور جینے کی وجہ بنے آپ کی جدائی برداشت نہ کر سکے اور روتے دھوتے دکھائی دیے گویا ان کے سر سے ایک انتہائی مشفق اور ملنسار شخص کا ہاتھ اٹھ گیا ہو۔ عموماً جنازے اٹھا کرتے ہیں لیکن یہ محض جنازہ ہی نہیں اٹھا تھا بلکہ کئی مظلوموں کے سروں سے ہاتھ اٹھ گئے تھے۔

ڈاکٹر امتیاز احمد عباسی صاحب تاریخ کے طالب علم تھے۔ ایک لیڈر تھے اور اس کی وجہ یہی تھے کہ آپ ایک ریڈر تھے۔ آپ کتابوں کے صفحات کی خوشبو سے محظوظ ہوا کرتے تھے۔ آپ ایک چست لیڈر تھے اور آپ نے عوامی امور کے حل کی تلاش کے ساتھ ساتھ کتابوں اور لائبریری سے ہمیشہ مضبوط، جاندار اور شاندار تعلق قائم کیے رکھا۔ گہرائی میں جاکر مطالعہ فرماتے اور کچھ ڈھونڈ نکالتے۔ جو روشنی کتابوں سے پاتے معاشرے میں بکھیر دیتے۔ پوری پوری رات مطالعہ کرتے۔ کتاب کے ساتھ ساتھ سگار اور چائے آپ کے قریبی دوستوں میں سے تھے۔ نوعیت کے لحاظ سے آپ کا لائف اسٹائل بالکل ہی مختلف تھا۔ بیک وقت بڑے پیمانے یعنی ملکی و صوبائی سطح پہ خدمات دینے والا ایکیڈیمیا (Academia) میں بھی لوہے منوائے اور پی ایچ ڈی تک پہنچے ملکی تاریخ میں کم ہی ایسا دیکھنے میں آیا ہے۔ آپ نے بحیثیت سکالر بند کمرے میں ہی زندگی نہیں گزار دی یا اپنا سرکل محدود نہیں رکھا بلکہ ملکی سطح پہ عوامی خدمات دے کر ثابت کیا کہ آپ ایک لیڈر بھی ہیں گویا:

جھپٹنا، پلٹنا، پلٹ کر جھپٹنا
لہُو گرم رکھنے کا ہے اک بہانہ

چند دن قبل ریاست کے ظلم کے سامنے اگر کوئی کھڑا تھا تو یہی وہ لیڈر تھے جن کی قیادت میں ایک بڑے جم غفیر نے ریاستی جبر کا سامنا کیا۔ شیلنگ کے باوجود اگر جم غفیر ڈٹا رہا تو اس کے پیچھے وہ قیادت تھی جس نے عوام الناس کو ریاستی جبر کے حوالے کر کے راہ فرار لینے سے اجتناب کیا۔ آپ نے ایک حقیقی لیڈر کی حیثیت سے جبر کا آگے بڑھ کر سامنا کیا۔ جب وزیر داخلہ نے کہا کہ ریاست کے پاس بڑا عرصہ ہوا ٹئیر گیس موجود تھی لہذا آزمانے یا ٹیسٹ کرنے کے لیے ایسا اقدام کیا گیا تو جو جواب اس مرد مجاہد نے دیا سوشل اور الیکٹرانک میڈیا پہ گردش کرتی خبروں کی زینت بن گیا۔ آپ نے شدت سے شیخ رشید کو للکارا اور قانونی چارہ جوئی کی مظلوموں کو یقین دہانی کروائی۔ کون جانتا تھا کہ یہ آواز ہمیشہ کے لیے ہی دب جائے گی۔ آپ نے حدیث شریف کے مطابق جابر سلطان کے سامنے حق بات پہنچا کر سب سے افضل جہاد کیا۔

خدا کے فیصلوں میں کیا حکمت ہے وہی ذات جانتی ہے۔ آج راولپنڈی میں ایک بڑا جنازہ اور بھوربن آبائی گاؤں میں دوسرا بڑا جنازہ ہوا جن میں اساتذہ، ملازمین، طلباء، سیاستدان، صحافی، علماء، مزدور، تاجر برادری، اور لواحقین کی کثیر تعداد دیکھنے میں آئی اور ہر طبقے کی نمائندگی موجود تھی۔ یہ دراصل وہ حضرات تھے جو آپ کی دیانت و امانت کی گواہیاں دے رہے تھے۔ میرے والد صاحب اور آپ کے جگری یار کے مطابق آپ کے ہاتھ کرپشن کے بڑے بڑے مواقع آئے لیکن حرام اور حلال کی تمیز جانتے ہوئے آپ نے دیانت اور امانت کا دامن ہاتھ سے کبھی نہیں چھوڑا۔

آپ ایک مسلسل تحریک کا نام تھے۔ آپ جمہوریت کے علم بردار تھے۔ پی پی سے آپ کا تعلق اسی توسط سے رہا تھا۔ آپ واقعتاً و حقیقتاً ایک نظریاتی آدمی تھے۔ آپ کی پی ایچ ڈی کا موضوع بھی پاکستانی تاریخ میں ہوئی دختر مشرق بے نظیر بھٹو کی شکل میں جمہوری کوششوں اور سلسلوں کی کڑی سے جڑا ہے۔ آپ کا نظریہ اس حد تک پختہ تھا کہ جس شے کو نظریاتی آنکھ سے پرکھنے کا کام ہو لے تو اپنانے میں دیر نہیں لگاتے تھے۔ آپ جماعت اسلامی کی دعوت سے بھی بخوبی واقف تھے اور آپ نے ہمیشہ جماعت کو خوش آمدید کہا۔ آپ کی نظریے سے لگن اور نت نئے کی جستجو کا عالم یہ رہا کہ آپ اس کے حصول کے لیے مساجد و مراکز سے جڑ گئے۔ بانسرہ گلی مری دختران اسلام اکیڈمی میں اعتکاف، منصورہ میں اعتکاف جہاں قاضی صاحب سے ملاقات، اور طاہر القادری صاحب کے مرکز میں اعتکاف اسی لگن اور جستجو کا پیش خیمہ ہے۔ آپ منور حسن صاحب کے مداحوں میں اپنا شمار رکھتے ہیں۔ جماعت اسلامی کی الیکشنز مہم میں بھڑ چڑھ کر حصہ لیتے رہے۔ آپ نے جماعت کے نصب العین کو اس لیے جلدی ہضم کر لیا کیونکہ وہ تمام امور جو آپ پہلے ہی سر انجام دے رہے تھے, جماعت ان کی طرف پکار رہی تھی۔ آپ نے جہاد کا حق ادا کیا اور جہاد کا مقصد صرف خدا کی رضا تھا۔

آپ سے والد صاحب کا تعلق اتنا مضبوط تھا کہ ذاتی نوعیت کے مسائل گھر کی بیٹھک سے آگے گھر کے اندرون تک جانا اور ڈسکس کرنا معمول کا حصہ تھا۔ آپ جب بھی اوسیاہ تشریف لاتے تو گاؤں کی حدود میں داخلے سے پہلے پہلا فون والد کی جیب میں بجتا اور پوچھا جاتا کہ آپ کہاں ہیں تاکہ فلاحی، اخروی، انتظامی اور دیگر امور پہ بات چیت ہو سکے اور ان گھروں اور افراد تک جایا جائے جہاں دکھ یا سکھ کی گھڑی ہو۔ آپ تعزیت، عیادت اور داد رسی کے لیے دور دور تک جا پہنچتے اور اکثر والد صاحب آپ کے ساتھ ہوا کرتے۔ آپ ریاستی جبر کو چیلنج کرنے والے اور جابر سلطان کے سامنے کلمہ حق کہنے والے پی ٹی یو کی صدارت سنبھالے ہوئے تھے لیکن گاؤں میں مجھ بندہ ناچیز کی بیماری کا علم ہوتے ہی گھر تک عیادت کے لیے پہنچنا میرے اوپر قرض تھا جو تحریر کی صورت میں اتارنے کی ناکام کوشش کر رہا ہوں۔ آپ سے ملاقات طے تھی۔ آپ سے بہت کچھ سیکھنا تھا۔ آپ کے حوالے سے بہت کچھ جاننے کے لیے آپ سے وقت لے لیا تھا تاکہ تحریر کا حصہ بنا پاؤں لیکن اللہ کے فیصلوں کے آگے بندوں کے فیصلوں کی کوئی اوقات نہیں ہوا کرتی۔

والد صاحب سے گزشتہ ایام میں سرفراز انکل کے گھر ایک ملاقات تھی۔ والد صاحب سے کہنے لگے کہ جمال اگر جانا چاہتا ہے تو جائے لیکن وہ یعنی والد صاحب ابھی کچھ دیر رکیں۔ والد صاحب یہ بتاتے ہوئے دکھ کی گھڑی میں تھے اور آنسو  ٹپکنے کے آثار نمایاں تھے۔ آپ گھر تک بعد میں چھوڑنے آئے جو یاروں کی آخری ملاقات تھی۔ چند دن پہلے اوسیاہ پہنچتے ہی فون ملایا تاکہ پوچھیں کہ آپ کہاں ہیں۔ والد صاحب کے پنڈی ہونے کی وجہ سے یہ طے پایا کہ چند دنوں میں ملاقات رکھی جائے لیکن خدا نے ان کی ملاقات اپنی ہستی عزوجل سے مقدر فرما لی تھی (انا للہ وانا الیہ راجعون)۔ والد صاحب آپ کے تھیسز ڈیفنس میں بھی کئی شہروں میلوں دور جا کے شریک ہوئے تھے۔ آپ نے کے پی کے کا لمبا سفر بھی اکٹھے طے کیا اور کئی دن ساتھ رہے۔ جنوبی پنجاب بھی اکٹھے گئے تھے۔ سندھ میں تین دن اور راتیں تایا ابو (عاصم اقبال عباسی) کے ہاں گزاریں۔ وہاں سکولز کی جانب سے فقید المثال استقبال کیا گیا اور اجرک ٹوپیاں پہنائی گئیں۔

آپ کی ریٹائرمنٹ کے موقع پہ کئی سکولز نے ان کے اعزاز میں پروگرامات رکھے۔ آپ کو ہار پہنائے گئے۔ آج جنازے پہ بڑی تعداد کے سامنے ایم پی اے لطاسب ستی صاحب نے گواہی دی کہ گزشتہ رات آپ سے ان کی دو تین گھنٹے ملاقات تھی لیکن اس طویل ملاقات میں امتیاز صاحب مرحوم نے ایک دفعہ بھی ذاتی فائدے سمیٹنے کی بات نہیں کی۔ انھوں نے صرف عوامی مسائل کے حل کو ہر صورت ممکن بنانے پہ زور دیا۔ آپ کی جدائی پہ ہر طبقے کا ہر فرد اشکبار ہے۔

والد صاحب کے مطابق وہ ہر وقت پریشان رہتے تھے کہ ہم کب تک باغیانہ روش اختیار کیے رہیں گے۔ آپ کے مطابق آپ ہمیشہ توبہ کرتے رہتے تھے۔ انسان غلطیوں کا پتلا ہے لیکن عاجزی وہ شے ہے جو خدا کی پسندیدہ چیز ہے۔ آپ انتہائی عاجزانہ طبیعت کے مالک تھے۔ میں جب بھی ملا ملتے رہنے کا جی چاہا۔ یہ تاثرات ہر ایک فرد کے ہیں اور ان تمام افراد کی نمائندگی تحریری صورت میں کرنے کی کوشش کی ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ کو کروٹ کروٹ جنت الفردوس نصیب فرمائے آمین۔ آپ نے کبھی اندھیروں، آندھیوں، طوفانوں، مشکلات، اور پریشانیوں کا شکوہ نہیں کیا۔ آپ نے ہمیشہ اپنے حصے کی شمع روشن کی ہے کیونکہ آپ شاعر کے اس سبق سے واقف تھے کہ:

Advertisements
julia rana solicitors london

شکوہِ ظلمتِ شب سے تو کہیں بہتر تھا​
اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے​

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply