ہم نے سورج نکلتے نہیں دیکھا۔۔شاہد ملک

قصہ تو بہت سادہ سا ہے، لیکن اسے پڑھ کر انسان کی ہنسی بھی چھوٹ سکتی ہے اور مارے غم کے آنکھوں میں آنسو بھی آ سکتے ہیں۔ ابتدائی کہانی انگلش لٹریچر میں ایم فل کی ڈگری اور سات سالہ تدریسی تجربہ رکھنے والے ایک استاد کے گرد گھومتی ہے جو لیکچرر سے اسسٹنٹ پروفیسر کے عہدہ پر براہ راست تقرر ی کے امیدوار تھے۔ اتفاق سے پبلک سروس کمیشن کے انٹرویو میں، جہاں وہ شرعی وضع قطع میں پیش ہوئے، اُن کا کوئی بھی جواب درست نہ نکلا۔ اِس پہ سبجیکٹ اسپیشلسٹ نے حوصلہ بڑھانے کے انداز میں پوچھا کہ بیٹا، آپ نماز تو پڑھتے ہوں گے۔ ”جی ہاں‘‘ امیدوار نے کہا۔ ”اچھا تو یہ بتائیے کہ سعودی عرب کس طرف واقع ہے؟ مراد ہے پاکستان کے لحاظ سے مشرق، مغرب، شمال یا جنوب ، کونسی سمت میں؟“ ”جی، پتا نہیں“۔ امیدوار نے قطعی لہجہ میں کہا۔

سبجیکٹ اسپیشلسٹ، جنہوں نے یہ داستان کورونا پھوٹ پڑنے سے پہلے سنائی، انگریزی ادب کے استاد اور لاہور میں ایک بڑے کالج کے ریٹائرڈ پرنسپل کے طور پر منفرد انتظامی او ر انسانی اوصاف کے آدمی خیال کیے جاتے ہیں۔ چنانچہ امیدوار سے دوبارہ دھیمے انداز میں پوچھنے لگے: ”نماز ادا کرتے ہوئے ہمارا رخ کس جانب ہوتا ہے؟“ ”کعبہ کی طرف‘‘۔ پوچھا کہ کعبہ کیا ہمارے مغرب میں نہیں۔ اب کے جواب تھا: ”آپ کہہ رہے ہیں تو خیال آیا ہے کہ مغرب ہی میں ہے‘‘۔ ”بالکل ٹھیک۔۔۔ تو اب یہ بتائیے کہ سعودی عرب کس سمت میں ہوا؟“ ”سر، یہ پتا نہیں‘‘۔ یہاں خبر ختم ہو جاتی ہے اور ایک نیا سوال نامہ شروع ہوتا ہے۔ وہ اس لیے کہ میرے بچپن میں اہلِ پنجاب سورج کے نکلنے اور ڈوبنے کی بنیاد پہ اِن اطراف کو ’چڑھدا‘ اور ’لہندا‘ کہا کرتے تھے۔ مغرب کا ہم معنی یہ دوسرا لفظ قبلہ رو ہونے کا متبادل بھی تھا۔ تو کیا خانہ کعبہ موجودہ سعودی عرب میں نہیں۔ یوں مھسوس ہوا کہ یا تو اب ہم اپنے گردو پیش سے لاتعلق ہو گئے ہیں یا ہم نے معلوم حقائق سے نتائج اخذ کرنا چھوڑ دیا ہے۔

ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ پبلک سروس کمیشن والا واقعہ سن کر مَیں کسی نفسیات داں سے رجوع کرتا اور پوچھتا کہ اٹھارہ سال کی باقاعدہ تعلیم ہمیں روزمرہ کی ایک معمولی سی بات کا جواب دینے کے قابل کیوں نہیں بنا سکی۔ میری ناسمجھی کہ نفسیاتی مشورے سے پہلے ہی یہ مسئلہ ایک ایسی گھریلو محفل میں چھیڑ دیا جس میں چند ولایت پاس بچے اور بچیاں بیٹھی ہوئی تھیں۔ میری بات سن کر ایک شور سا مچ گیا۔ ”یہ کیا سوال ہوا؟“ ”انگلش لٹریچر سے اِس کا کیا تعلق؟“ ”یہ مشرق اور مغرب کیا ہوتا ہے؟“ مجھے یہ کہنے کی جرات تو نہ ہوئی کہ سمتوں کی نشاندہی کے لیے ذرا امریکہ کی ایسٹ اور ویسٹ کوسٹ کو ذہن میں لائیے جہاں کئی ریاستوں کے نام آپ کو زبانی یاد ہوں گے‘‘۔ صرف اتنا کہہ سکا کہ جس طرف سے سورج نکلتا ہے، ہمارے لحاظ سے سعودی عرب اُس کے الٹ سمت میں ہے۔ ”انکل، ہم نے کبھی سورج نکلنے پہ غور ہی نہیں کیا“۔ ”کرنا چاہیے بھی نہیں۔ خوامخواہ نئے مسائل پیدا ہوں گے“۔ مجھے کوئی اَور جواب نہیں سوجھا تھا۔

صوفیائے کرام روایتی طور پر لمحہء موجود کو گرفت میں لینے کی افادیت بیان کیا کرتے ہیں، لیکن کمزور آدمی حالات پر اپنی گرفت ڈھیلی پڑتی دیکھ کر ماضی میں پناہ ڈھونڈنے لگتا ہے۔ مجھے بھی اپنے کنٹونمنٹ بورڈ والے اسکول کے ہیڈ ماسٹر صاحب یاد آئے جنہوں نے ایک بار اسکول، کالج اور یونیورسٹی تعلیم کے اہداف ملی جلی اردو انگریزی میں سمجھائے تھے۔ ”ہم میٹرک کو کہتے تھے انٹرنس، یعنی آپ علم کی حدود میں داخل ہو رہے ہیں۔ ایف اے میں دیکھتے تھے انڈر اسٹینڈ کرتا ہے یا نہیں، بی اے میں دیکھتے تھے ایکس پلین کرپاتا ہے یا نہیں اور ایم اے میں دیکھتے تھے کریٹی سائز کر سکتا ہے یا نہیں‘‘۔ مَیں نے پوچھا ”اِس سے آگے؟“ کہنے لگے ”اِاس سے آگے ریسرچ‘‘۔ پر، ہیڈ ماسٹر صاحب، آج میں اُن فائنل ائیر اسٹوڈنٹس کو کہاں لے جاؤں جو سمجھتے ہیں کہ ”بحرِ ہند پاکستان کے شمال میں ہے“ اور جواب میں مزید کچھ کہہ دوں تو ارشاد ہوتا ہے ”سر، آپ نے ریڈیو جرنلزم کی کلاس میں جغرافیہ کا سوال ہی کیوں اٹھایا؟“

ترقی پذیر معاشروں میں حصولِ تعلیم کی افادیت کئی پہلووں سے بیان کی جاتی ہے۔ شرحِ خواندگی میں اضافہ، گردو پیش سے واقفیت، زندگی گزارنے کے لیے منطقی ترتیب سے سوچنے کی عادت۔ ایک پہلو عمودی حرکت پذیری کا بھی ہے۔ نو آبادیاتی طاقتیں اپنے مقاصد ساتھ لے کر آتی ہیں۔ عمودی حرکت پذیری کی پالیسی کے پیچھے،ہر نوآبادیاتی طاقت کی طرح انگریزی آقاؤں کی اپنی حکمتِ عملی کو بھی دخل تھا، لیکن اس کا واضح فائدہ اس مسلمان آبادی کو بھی پہنچا جو بر صغیر میں موجودہ پاکستان پر مشتمل علاقوں میں علیحدہ وطن کے قیام کے ساتھ ایک نوزائیدہ شہری طبقہ میں ڈھل گئی۔ عجیب بات ہے کہ تعلیم کی حرکت و برکت کا یہ عمل پاکستان بننے کے بعد سست روی کا شکار ہوا اور 1970ء کی دہائی ختم ہوتے ہی سرکاری اسکولوں کے مقابلہ میں ’او‘ اور ’اے‘ لیول والے سکول وبائی امراض کی طرح پھیلنے لگے۔ یوں ایک نئی طبقہ بندی کو ہوا ملی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ابھی تک میرا شمار ان بڈھے بابوں میں نہیں ہوتا، جنہیں نئے زمانے کی ہر بات بری لگتی ہے۔ چنانچہ ہمارے روایتی تعلیمی نظام اور کیمبرج سسٹم دونوں کے حق میں جو دلائل دیے جا سکتے ہیں، مَیں اُن سے واقف ہوں اور اِس حقیقت سے بھی آگاہ کہ آج کل سرکاری سرپرستی میں یکساں نظامِ تعلیم کا جدید ترین نعرہ مقبول ہوتا جا رہا ہے۔ میری سادگی کہ سعودی عرب والے سوال کا ذکر ایک درد مند دل رکھنے والے پبلک سروس کمیشن کے سابق رکن سے کر دیا۔ کہنے لگے کی ہسٹری کے مضمون میں اسسٹنٹ پروفیسری کے ایک گولڈ میڈلسٹ امیدوار سے ابتدائی اسلامی تاریخ کے تین غزوات کے نام پوچھے تھے۔ جواب ملا ”غزوہئ بدر، غزوہئ احد اور جنگِ سومنات“۔ تب سے مَیں اِس سوچ میں ہوں کہ کیمبرج سسٹم سیکنڈری ایجوکیشن بورڈ والے نظام میں ضم ہو یا نہ ہو، مگر کیا اگلے سال ’یونیفائیڈ کرکلم‘ یا یکساں نصاب رائج ہو جانے پہ کیا میرے طالب علم بتا سکیں گے کہ تیسرا غزوہ کونسا تھا اور بحرِ ہند کیا درحقیقت پاکستان کے شمال ہی میں واقع ہے۔

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply