بادشاہ سلامت ضد کیسی ہے؟۔۔عدیل رضا عابدی

افریقہ میں جنگلات پہ مشتمل ملک کھاجانا میں مقیم مختلف قبائل ایک بادشاہ کے زیر نگیں تھے۔ وہ بادشاہ صرف بادشاہ ہی نہ تھا بلکہ ان کا سپہ سالار، امیر ساماں، طبیب الغرض کے سفیر بھی خود ہی تھا بس وقت کی مناسبت سے خود کو کردار میں ڈھال لینے کا فن جانتا تھا، ایسا ہرگز نہ تھا کہ بادشاہ کی کابینہ میں قابل لوگ نہ تھے جو ان عہدوں کو سنبھال سکتے بلکہ ایسے افراد کی موجودگی کے باوجود بادشاہ کو پسند تھا کہ وہ سارے کام خود کرے۔ اکثر تو ایسا ہوتا کہ بادشاہ ڈھول گلے میں ڈال کر نکل جاتا اور منادی کا کردار ادا کرکے خود ہی کئی سرکاری اعلانات سنا دیتا۔

قبائلی بادشاہ کی حرکتوں سے بہت نالاں تھے۔اکثر احتجاج کرتے۔ کبھی ظاہر ہوکر کھلم کھلا تو کبھی دبے انداز میں۔ بادشاہ جو خود کو بہت قابل اور عقل مند سمجھتا تھا دراصل قبائلیوں کے نزدیک وہ نرا بے وقوف تھا جبکہ نوجوان نسل تو اس کا صرف مذاق ہی اڑاتی تھی۔ بادشاہ کے خاص مصاحبین نے جب اسے قبائلی افراد کے رویے کے بارے میں اطلاع دی تو وہ سیخ پا ہوگیا اور اس نے اپنے ان خاص مصاحبین کو حکم دیا کہ وہ گلے میں ڈھول ڈال کر یہ اعلان کریں کہ بادشاہ سلامت قبائلیوں اور بالخصوص نوجوان نسل جو ان کا تمسخر اڑاتی ہے ان سے سخت ناراض ہیں۔ فی الحال کے لئے معافی ہے لیکن اب اگر کسی نے ان کا مذاق اڑایا تو اسے دور دراز ملک فارس کے صوبے خراسان کے مشرقی ملک میں واقع چھانگا مانگا نامی جنگلات میں پھینک دیا جائے گا جہاں وہ ساری زندگی بھٹکتے گا۔

بادشاہ کا اعلان سن کر نوجوانوں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی۔ ایک نوجوان نے بادشاہ کے فیصلے کے خلاف احتجاج کرنے کی ٹھانی۔ اس نے سوچا کہ کیوں نہ بادشاہ کو براہ راست احتجاجی خط لکھ دیا جائے۔
نوجوان نے اپنی ترکیب پہ عمل کرتے ہوئے بادشاہ کو خط لکھا کہ
” روحی و جسمی لک الفداء سلطان معظم!
جان کی امان پاتے ہوئے عرض کرنے کی جسارت کررہا ہوں کہ آپ کا اعلان سن کر سخت مایوسی ہوئی۔ آپ جانتے ہیں کہ آپ کا تمسخر کیوں کر اڑایا جاتا ہے۔ ہم وعدہ کرتے ہیں کہ آپ کے افعال و کردار پہ کبھی بات نہ کریں گے اور نہ ہی آپ کا کبھی تمسخر اڑائیں گے لیکن اس کی کچھ شرائط ہیں اور وہ یہ کہ
آپ قبائلیوں کے ایوان بالا جہاں مختلف عمائدین مل کر ہمارے مسائل پہ بات چیت کرتے ہیں، انہیں حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں، بس انہیں اپنا کام کرنے دیں۔ اگر وہ کسی قسم کا قانون جو کہ ہمارے لئے موزوں ہے تو اسے بننے دیں جبکہ عدل و انصاف کے معاملے میں بھی مداخلت بند کریں اور قاضی کو آزادانہ فیصلے کرنے دیں۔

بادشاہ سلامت ہم نے کبھی آپ کے محل سرا جس پہ کئی بار غیر علاقے کے قبائلی حملہ آور بھی ہوتے رہے اس میں داخل ہونے کی کوشش تو دور اس بارے میں سوچا بھی نہیں تو کیوں آپ اس بات پہ بضد ہیں کہ ہمارا ایوان بالا جو کہ ہمارے لئے ملک ہندوستان کی لوک سبھا کا سا مقام رکھتا ہے اس پہ تالے ڈال دیئے جائیں اور ہمارے چنیدہ عمائدین کی جگہ آپ کے ” چنتخب ” افراد زمام سنبھال لیں۔

بادشاہ سلامت! ضد کیسی ہے؟
ہم قبائلی کبھی آپ کے خلاف جمع نہیں ہوتے لیکن آپ منتخب عمائدین کو ہٹانے کے لئے غیرمقامی و غیر متعلقہ افراد سے چڑھائی کروا کر انہیں نااہل و ناکارہ ثابت کرتے ہیں۔
بادشاہ سلامت! کیا ہم قبائلیوں نے کبھی آپ کے کسی بھی خااص الخاص کو زد و کوب بھی کیا ؟ آپ تو ناپسندیدہ عمائدین گزشتہ 65 برسوں سے قتل کرواتے ہوئے آرہے ہیں۔
بادشاہ سلامت! حوادث زمانہ نے ہماری رنگت سیاہی مائل کردی ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ بطور انسان ہم کسی بھی گورے سے کم ہیں۔ آخر کیوں آپ نے اپنے لوگ گوروں کی جنگی مہمات میں بارود کے ڈھیر پہ بٹھا چھوڑے؟

ہماری غلطی تھی ہم ہمیشہ خاموش رہے اور آپ ہماری خاموشی کا فائدہ اٹھا کر ہمارے ہی درمیان فتنہ پھیلاتے رہے ہیں۔ کون کس دیوتا کا پجاری ہے۔ کون کسے بھینٹ چڑھاتا ہے یہ ہر قبیلے اور اس کے ہر فرد کا خاص ذاتی معاملہ ہے۔آپ اپنی بادشاہت قائم رکھنے کے لئے ہمیں آپس میں لڑوا رہے ہیں۔ اگر کسی کا دیوتا بزرگ تر ہو بھی گیا تو آپ کیوں ان کے مخالفین کو حسد میں مبتلا کرکے ماحول خراب کرتے ہوئے انارکی پھیلانے کی کوشش کررہے ہیں؟

بادشاہ سلامت !
یہ ہم ہی ہیں جو آپ کو ہر دور میں سہارا دیتے آئے ہیں۔ آپ کے زیرسایہ چلنے والے تمام افراد آج جو کچھ ہیں وہ ہمارے ہی دم سے ہیں۔ یہ ہم ہیں جنہوں نے برے وقتوں میں آپ کا ساتھ دیا تو آج اس قابل ہوئے کہ ہم پہ اپنے فیصلے مسلط کرسکیں۔ کیا آپ وہ وقت بھول گئے جب بیرونی قبائل نے حملہ کیا تو آپ کے سپاہیوں کو ہم نے اسلحہ فراہم کیا۔ آپ کیا سمجھتے ہیں کہ یہ اسلحہ جو آج آپ کے سپاہی ہمارے سامنے لہراتے ہیں کیا یہ ہمارے گھروں میں موجود تھا؟

عالیجاہ! ہماری اکثریت غریب!
ہماری اتنی اوقات کہاں تھی کہ آپ کو اسلحہ فراہم کرتے۔ ہم نے تو اپنی جمع پونجی یہاں تک کہ دوا دارو کے لئے بچائی جانے والی رقم سے آپ کے لئے اسلحے کا بندوبست کیا تھا۔ ویسے سنا ہے کہ اسی دنیا میں کہیں دور دراز ایک شہر ِ ناپرساں نامی علاقہ ہے جہاں زمین کی کھدائی کرو تو اسلحہ نکل آتا ہے مگر ہمارے ایسے نصیب کہاں!

جہاں پناہ!
ایک وقت تھا کہ ہم آپ سے محبت کرتے تھے، آپ کے سپاہیوں کو ہم نے دن رات محنت کرکے اونچی مچانوں پہ چوکیاں اور زمین کی گہرائی میں مورچے بنا کر دیئے جنہیں چھوڑ کر یہ آج ہمارے گھروں میں گھس بیٹھے ہیں، جنہیں ہمارے جان و مال کی حفاظت کرنا تھی آج انہی سے خطرہ ہے۔ ہم بے بس ہیں کچھ نہیں کرسکتے اسی لئے آپ کا تمسخر اڑاتے ہیں۔ دراصل ہم آپ کا نہیں اپنی قسمت کا تمسخر اڑاتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

امید ہے کہ آپ میرے خط پہ توجہ کریں گے اور تمام قبائلیوں کے تحفظات دور کرکے انہیں ایسے ہی زندگی گزارنے دیں گے جس کا خواب انہوں نے 70سال قبل اس جنگل میں آباد ہونے سے قبل دیکھا تھا۔
والسلام از طرف
آپ کی رعیت میں سے ایک خوفزدہ شخص!
۔۔۔۔۔۔
بادشاہ نے خط کا جواب کچھ یوں دیا۔۔۔!
بر خوردارم!
تمہارا خط ملا۔ پڑھ کر احساس ہوا کہ تم ایک جذباتی اور حساس شخص ہو۔ تمہارے جذبات کی قدر کرتا ہوں مگر یاد رکھو کہ تم سے ہماری شان گستاخی سرزد ہوہی گئی ہے۔ خط لکھ کر اس طرح سے احتجاج کرنا اور ہمیں باور کروانا کہ ہم غلط ہیں ہماری توہین کا موجب بنا۔ چونکہ تم دل کے صاف اور باہمت جوان ہو اس لئے تمہاری سزا میں تخفیف کررہے ہیں۔تمہاری سزا یہ ہے کہ شاہی خزانے میں پانچ لاکھ مالیت سکہ رائج الوقت بطور جرمانہ جمع کروا کر خود کو عرصہ دو سال کے لئے لاپتہ قرار دو!
از طرف
عالیجاہ بادشاہ ِ وقت
مملکت کھاجانا!
نوٹ: خط لکھنے والا نوجوان چوں کہ بادشاہ کا جواب ملتے ہی خود کو لاپتہ قرار دے چکا ہے لہذا وہ کون تھا اس کا نام لکھنے اور ظاہر کرنے سے قاصر ہوں!
فقط خط پوسٹ کنندہ!

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply