بوکھلاہٹ کا شکار۔۔ایم اے صبور ملک

وزیر اعظم عمران خان ان دنوں سخت غصے اور بوکھلاہٹ کا شکار ہیں،گزشتہ ہفتے ہفتہ وار دو تعطیلات کے موقع پر انھوں نے اپنے سرکاری فرائض منصبی سے رخصت لی اور گھر جا کر بیٹھ گے،شنید تھی کہ واپسی پر ان دو دنوں میں انھوں نے کوئی مثبت بات سوچی ہو گئی اور اسکا اظہار بھی ہوگا،لیکن دوسرے ہی دن ہزارہ موٹر وے کے افتتاح کے موقع پر تقریر کرتے ہوئے اپنے بدترین سیاسی حریف قائد مسلم لیگ(ن) نواز شریف سمیت اپوزیشن جماعتوں سے تعلق رکھنے والے تقریباًسبھی سیاستدانوں کی نقلیں اُتار کر انھو ں نے یہ تاثر ایک بار پھر زائل کردیا کہ وہ ایک ذمہ دار عہدے پر براجمان شخصیت ہیں یا ذہنی طور پر ا بھی تک کنٹینر پر کھڑے ہیں،اوراسکے بعد میانوالی میں بھی جو کچھ انھوں نے بیان کیا اس سے ان باتوں کی کسی حد تک تصدیق ہوتی ہے کہ اندرون خانہ کوئی نہ کوئی کچھڑی ضرورپک رہی ہے۔

وزیر اعظم کو یا تو جان بوجھ کر اندھیرے میں رکھا جا رہا ہے یا وہ سب کچھ جانتے بوجھتے اپنے ووٹروں کے جذبات کو ٹھنڈا کرنے کے لئے جان بوجھ کر ایسا رویہ اپنائے ہوئے ہیں،نواز شریف کے بیرون ملک جا نے کے معاملے پر جس طرح کے بیانات اور پالیسی حکومت اور خود جناب وزیر اعظم کی جانب سے اپنائی گئی اسکے بعد میانوالی میں جس طرح وزیر اعظم نے ان زندہ جاوید حقائق کے بالکل برعکس بات کی ہے اور اس سے پہلے وزیر اعظم اور چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس آصف سعید کھوسہ کے درمیان جو باتیں ہوئیں،ان سب کو اگر ایک ہی تناظر میں دیکھا جائے تو وزیر اعظم کی بے خبری،معاملات پر حقائق سے برعکس بیان بازی،غصے،ناراضی اور خفت کا اظہار پورے منظر نامے کو بیان کردیتا ہے کہ اسلام آباد میں سب ٹھیک نہیں پی ٹی آئی کے اتحادیوں کی جانب سے حکومت پر عدم اعتماد،نواز شریف کے معاملے پر چوہدری شجاعت کا بیان،جواباًمیاں صاحب کی جانب سے چوہدری شجاعت کابطور خاص شکریہ اد اکرنا۔

سیاست ایک بے رحم کھیل ہے،جس میں جیت اُسی کی ہوتی ہے جو اپنے پتے بروقت کھیل جائے،موجودہ حالات میں عمران خان کے پاس ایک بہت سنہری موقع تھا جو انھوں نے گنوا دیا اگر وہ اس موقعے سے فائدہ اُٹھا لیتے تو انھیں آج اپنے ووٹرو ں کو مطمئن کرنے لئے جو بیانات دینا پڑ رہے ہیں،اور ووٹر وں سمیت حکومتی وزرا ء جس طرح عمرا ن خان کے لایعنی بیانات پر میڈیا اور قوم کے سامنے مختلف تاویلیں دے کر اپنی خفت مٹا رہے ہیں،ان سب باتوں سے بچا جاسکتا تھا،یہ بالکل وہی والی بات ہے،جیسے ماضی میں الطاف حسین کے بیانات پر ایم کیو ایم کی قیادت خصوصاً فاروق ستارٹی وی پر آکر لوگوں کو مطمئن کرتے نظر آتے تھے،یہ سنہری موقع تھا کہ جب نوازشریف کو کوٹ لکھپت جیل سے سروسز ہاسپٹل منتقل کیا گیا تو ان کی تشویش ناک حالت کو مدنظر رکھ کر عمران خان جذبہ خیر سگالی کے طور پر چل کر خود میاں صاحب کی عیادت کو جاتے اور انھیں اپنی حکومت کی جانب سے یہ آفر کرتے کہ ہم آپکو ملک اور بیرون ملک ہر قسم کے بہترین علاج کی سہولتیں دینے اور ای سی ایل سے نام نکلوالنے کو تیار ہیں،سیاست بعد میں ہوتی رہے گی،لیکن حکومت نے شروع دن سے میاں صاحب کی ایئر ایمولینس کے ٹیک آف کرنے تک جورویہ اپنایا وہ نہ تو ہمارے مشرقی معاشرے کی اقدار کے مطابق تھا نہ ہماری دینی تعلیمات کے مطابق،ووٹروں کو مطمئن کرنے کا بھی اس سے اچھا موقع اور کوئی نہیں تھا کہ دیکھو ہم تو چل کر عیادت کو گئے،ملک اور بیرون ملک علاج نیز ای سی ایل سے نام نکلوالنے کی آفر بھی کی،اب یہ اگر باہر جا کر واپس نہ آئے تو حکومت اس الزام سے بری الذمہ ہو گئی،لیکن ہو اسب کچھ اسکے برعکس۔

Advertisements
julia rana solicitors

اصل میں مسئلہ یہ ہے کہ عمران خان سے اس قسم کے رویے اور باتوں کی اُمید رکھنا بے کار ہے،کیونکہ ان کا ماضی زیادہ تر مغربی ممالک میں گزرا،جہاں ہر شے کو مادی نظر سے دیکھا جاتا ہے،رشتے ناتے،خلوص،چاہت،بیماری کی حالت میں اپنے بدترین دشمن کی عیادت کرنا،اپنی گفتگو میں اپنے مخالفین کے لئے شائستہ انداز اور محتاط الفاظ کا چناؤ یہ سب مغرب میں نہ ہونے کے برابرہے،مثال کے طور پر برطانیہ اور امریکہ کی سیاست میں جیسے سیاستدان ایک دوسرے کے خلاف بیان بازی کرتے اور ایک دوسرے کی نقلیں اُتارتے ہیں،یہ سب وہاں معمول کی بات ہے اور اسکو برُا نہیں تصور کیا جاتا،ہمارے ہاں مگر یہ سب بداخلاقی،تہذیب اورمشرقی اقدارکے منافی سمجھا جاتا ہے،لیکن عمران خان نے پاکستانی معاشرے کو بھی مغرب سمجھ رکھا ہے،جس طرح کی زبان،الفاظ اور انداز گفتگو انھوں نے کنٹینر پر اپنایا ہو ا تھا وہی وتیرہ وہ وزیر اعظم کی کرسی پر براجمان ہو نے کے بعد بھی جاری رکھے ہوئے ہیں،اور بیچارے وزراء اور پی ٹی آئی کے ذمہ داران کو اس کی صفائی دینی پڑتی ہے،ساری دنیا نے دیکھا نواز شریف کو جہاز پر سیڑھیوں کی بجائے ایمبو لفٹ کے ذریعے سوار کیا گیا،سرکاری میڈیکل بورڈ،وزیر صحت پنجاب ڈاکٹر یاسمین راشد صاحبہ،اور خود وزیر اعظم کا وفاقی کابینہ میں بیان کہ میں نے آزاد ذرائع سے تحقیقات کروائی ہیں،نواز شریف واقعی سخت بیمار ہیں اب ان سب کے بعد یہ کہنا کہ وہ ٹھیک ہیں،سیڑھیاں چڑھ کر جہاز پر گئے،اس کا یہ مطلب ہے کہ نواز شریف وئیل چیئر پر ہوتے،نیم بیہوشی کی حالت میں تو جناب وزیر اعظم کو یقین آتا،یا پھر ان کی اناء کو ٹھیس پہنچی کہ نواز شریف چل کر کیوں گئے،میڈیکل بورڈ کے مطابق ایک لمبے ہوائی سفر کے لئے نواز شریف کو پہلے سٹیرائیڈ دے کر اس قابل بنایا گیا کہ وہ بلندی پر جبکہ آکسیجن کی کمی ہوتی ہے،کسی مشکل کا شکار نہ ہوں،تب انھیں باہر لے جایاگیا،اب ایسے میں جوکچھ وزیر اعظم نے ارشاد فرمایا ہے اس پریہی کہا جاسکتا ہے کہ ایسے بے خبر تو وہ نہیں،یقینا کسی بوکھلاہٹ کا شکار ہو چکے ہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply