اسلامی تصوف بارے ایک سیکولرموقف۔۔۔سلیم جاوید/چھٹی،آخری قسط

صوفی لٹریچر کو کیوں “بلیک زون” قرار دیتا ہوں؟-

مضمون میں احباب سے عرض کرچکا ہوں کہ تصوف کے پہلے دوسٹیج پرکسی کو کوئ اعتراض نہیں مگراگلے دوسٹیج، یعنی بیعت وعلم لدنی بارے بہت ابہام ہے پساس سے دوررہا جائے- اپنی اس بات کی وضاحت کیلئے چند حوالہ جات بلاتبصرہ پیش کئے جاتے ہیں-

1- صوفیاء کی توحید:

’’اگرچہ مخلوق، بظاہر خالق سے الگ ہے ، لیکن باعتبار حقیقت خالق ہی مخلوق اور مخلوق ہی خالق ہے ۔ یہ سب ایک ہی حقیقت سے ہیں ۔ نہیں، بلکہ وہی حقیقت واحدہ اور وہی اِن سب حقائق میں نمایاں ہے ۔ (فصوص الحکم ۷۸)

’’توحید کے تین درجے ہیں : پہلا درجہ عوام کی توحید کا ہے ، یہ وہ توحید ہے جس کی صحت دلائل پر مبنی ہے ۔ دوسرا درجہ خواص کی توحید کا ہے ، یہ حقائق سے ثابت ہوتی ہے ۔ توحید کا تیسرا درجہ وہ ہے جس میں وہ ذات قدیم ہی کے ساتھ قائم ہے ، یہ اخص الخواص کی توحید ہے ۔ اب جہاں تک عوام کی توحید کا تعلق ہے تو وہ بس یہ ہے کہ اِس بات کی گواہی دی جائے کہ اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں، صرف وہی الٰہ ہے، اُس کا کوئی شریک نہیں ، وہ یکتا ہے ، سب کا سہارا ہے، وہ نہ باپ ہے، نہ بیٹا اور نہ اُس کا کوئی ہم سر ہے۔ ‘‘(منازل السائرین‘‘ ، شیخ الاسلام ابو اسمٰعیل عبد اللہ بن محمد بن علی الانصاری الہروی ،خراسانی، وفات ۴۸۱ھ)

’’وجود ایک ہی حقیقت ہے ، اِس لیے ذات باری کے سوا کچھ باقی نہ رہا ۔ چنانچہ نہ کوئی ملاہوا ہے نہ کوئی جدا ہے ، یہاں ایک ہی ذات ہے جو عین وجود ہے۔(فصوص الحکم ، فص اسماعیلیہ ۹۳) ۔

اللہ تعالیٰ نے ابراہیم کے بیٹے کو ایک بڑی قربانی کے عوض میں چھڑا لیا ۔ پس مینڈھے کی صورت میں وہی تو ظاہر ہوا جو انسان یعنی ابراہیم کی صورت میں اور جو ابراہیم کے بیٹے کی صورت میں ظاہر ہواتھا۔ نہیں، بلکہ بیٹے کے حکم کے ساتھ وہی ظاہر ہوا جو والد کا عین تھا، یعنی اللہ تعالیٰ۔‘‘(فص ادریسیہ ۷۸)

بریلوی جماعت کے اعلیٰ حضرت احمد رضا خان بریلوی شیخ عبدالقادر جیلانی کے لیئے لکھتے ہیں:

’’حضور پر نور سیدنا غوث اعظم ،حضور اقدس و انور سید عالم ﷺ کے وارث کامل و نائب تام و آئینہ ذات ہیں کہ حضور پرنور ﷺ مع اپنی جمیع صفات جمال و جلال و کمال و افضال کے ان میں متجلی ہیں ۔۔۔۔۔ تعظیم غوثیت عین تعظیم سرکاررسالت ہے۔۔۔۔۔‘‘ (السنیۃ الانیفہ فی فتاویٰ افریقہ: ص97)

اسی طرح ایک اور جگہ “اعلیٰ حضرت” مولانا احمد رضا خان بریلوی لکھتے ہیں:

’’یہ قول کہ اگر نبوت ختم نہ ہوتی تو حضور غوثِ پاک رضی اللہ تعالیٰ عنہ نبی ہوتے اگرچہ اپنے مفہوم شرطی پر صحیح و جائز اطلاق ہے کہ بے شک مرتبہ علیہ رفعیہ حضور پر نور رضی اللہ تعالیٰ عنہ ظل مرتبہ نبوت ہے۔‘‘ (عرفان شریعت: ص84)

ہمارے ہاں کے مشہور صوفی شاعر اور مستند بزرگ مانے جانے والے خواجہ غلام فرید چشتی نے کہا:

’’حضرت قبلہ ٔعالم مہاروی بھی اتقاء میں یگانۂ روزگار تھے۔ جس طرح ایک نبی ٔمرسل صاحب مذہب ہوتا ہے۔ آپ بھی نبی مرسل کی طرح مبعوث کئے گئے تھے۔‘‘(اشاراتِ فریدی ترجمہ مقابیس المجالس: ص 871-872)

تحریک پاکستان میں بھی نمایاں کردار ادا کرنے بزرگ امام الاصفیاء پیر جماعت علی شاہ لاثانی کے خلیفہ مجاز حکیم محمد شریف نے لکھا:

’’شیخ شبلی رحمۃ اللہ علیہ کے پاس دو شخص بیعت کے لئے حاضر ہوئے۔ ایک مولوی وضع کا تھااور ایک سادہ زمیندار تھا۔ آپ نے بیعت کرنے پر مولوی صاحب سے فرمایا کہ پڑھ لا الہ الاللہ شبلی رسول اللہ۔ اس پر مولوی صاحب نے لاحول پڑھااور آپ نے جھڑک دیا۔ پھر زمیندار کی باری آئی۔ آپ نے اس کو بھی اسی طرح فرمایا۔ وہ خاموش رہا۔ آپ نے زور سے فرمایا کہ بولتے کیوں نہیں۔ تم بھی مولوی صاحب سے متفق ہو۔ زمیندار بولا کہ مَیں تو آپ کوخدا تعالیٰ کے مقام پر سمجھ کر آیا تھا۔ آپ ابھی تک مقام ِ نبی ؐ کا ہی ذکر فرماتے ہیں۔‘‘ (منازل الابرار: ص106)

جماعت علی شاہ کے خلیفہ حکیم محمد شریف نے اس پورے واقعہ کو نقل کرنے کے بعد لکھا:

’’الغرض یہ چیزیں طریقت کے رموز ہیں اور درست ہیں۔ عوام نہیں سمجھ سکتے۔ خواص اور سالکانِ طریقت کو ان چیزوں کو سمجھ کر عمل پیرا ہونا لازمی اور ضروری ہے۔‘‘ (منازل الابرار: ص106)

صوفی بزرگ “زبدۃ العارفین” میرعبدالواحد بلگرامی نے خواجہ معین الدین چشتی کے حوالے سے لکھ رکھا ہے کہ بیعت کی غرض سے حاضر ہونے والے شخص کے کمال، اعتقاد اور صدق کو آزمانے کے لیے کہا گیا:

’’اگر تم کہو کہ ’’لا الہ الاللہ چشتی رسول اللہ‘‘ تو مَیں تمہیں مرید کر لوں۔ وہ شخص چونکہ دھن کا پکا اور سچا تھا اس نے فوراً اقرار کر لیا۔ خواجہ نے بیعت کے لیے اسے اپنا ہاتھ دیا اور اسے بیعت کر لیا۔‘‘(سبع سنابل: ص278-279)

میر عبدالواحد بلگرامی نے چشتی رسول اللہ کا کلمہ پڑھانے اور مرید کا اسے پڑھ لینے کے متعلق کہا:

’’لہٰذا پیر کے ساتھ صدق یہی ہے کہ ظاہر و باطن کی کسی حالت پر زرہ برابر اعتراض نہ کرے۔‘‘ (سبع سنابل: ص279)

خواجہ غلام فرید چشتی لکھتے ہیں:

’’ایک شخص خواجہ معین الدین چشتی کے پاس آیا اور عرض کیا کہ مجھے اپنا مرید بنائیں۔ فرمایا کہہ لا الہ الاللہ چشتی رسول اللہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں چشتی اللہ کا رسول ہے۔‘‘ (فوائدِ فریدیہ: ص 83)

“غوث الاسلام” حضرت پیر مہر علی شاہ گولڑوی نے لکھا:

’’سالک کا وجود بعینہ مظہر حقیقت محمدیہؐ ہو کر’’لا الہ الاللہ چشتی (سالک) رسول اللہ‘‘ کے ترنم میں آتا ہے۔‘‘ (تحقیق الحق: ص127)

2- بیعت کے اثرات:

خاکسار نے بیعت کو “ریڈ زون”قرار دیا تھا کیونکہ اپنے شیخ کے ساتھ اکتسابی محبت کرتے ہوئے، بندے کا ذہن آؤٹ ہوجانے کا خظرہ موجود رہتا ہے- اس سلسلےمیں کسی اور کی نہیں بلکہ حضرت شیخ الہند جیسے جینئس عالم دین کی مثال پیش کرتا ہوں- یہ ذہن میں رہے کہ شیخ الہند محمود الحسن نہ صرف مترجم ومفسر قرآن ہیں بلکہ ریشمی رومال تحریک کے موسس رہے ہیں اور پچھلی صدی کے عظیم راہنماؤں میں انکا شمار ہوتا ہے-

شیخ الحدیث مولانا زکریا فرماتے ہیں” اعلیٰ حضرت گنگوہی نور اللہ مر قدہٗ پان نوش فر مایا کر تے تھے لیکن اگالدان رہتا تھا ، کبھی کھانسی وغیرہ میں بلغم اس میں ہو تا تھا، سوکھ بھی جاتا تھا۔ حضرت شیخ الہند نو ر اللہ مر قدہٗ نے ایک مرتبہ اس اُگالدان کو بہت چپکے سے کوئی نہ دیکھے اٹھا یا اور با ہر لے جا کر اس کو دھو کرپی لیا”

خاکسار کا ناقص خیال یہ ہے کہ آدمی چاہے کتنا ہی سمجھدار اور ذہین کیوں نہ ہو، جب وہ صوفی حضرات کی محفل میں جانا شروع کرتا ہے تووہاں ایک ایسا ماحول مہیا کیا جاتا ہے کہ وہ اپنے آپ میں نہیں رہتا – بے خود ہوکر وہ غیر فطری حرکتوں کا مرتکب ہونے لگتا ہے تو اسکی مزید حوصلہ افزائی کی جاتی ہے-حتی کہ کلی یا وقتی طور پروہ اپنے ذہن پہ گرفت کھو بیٹھتا ہے اورپھرایسا کچھ سننے، دیکھنے یا محسوس کرنے لگا جاتا ہے جو حقیقت میں وجود نہیں رکھتا-

آپ اس واقعہ سے ہی اندازہ کرلیجئے کہ صوفیانہ ماحول میں آدمی کیا سے کیا ہوجاتا ہے؟-پھر ان واقعات کی حوصلہ افزائی کیلئے شریعت سے دلیل لائ جاتی ہے- اپنے یہی شیخ الحدیث صاحب، فضائل اعمال میں لکھ چکے ہیں کہ ایک صحابی کوحضور نے اپنا خون باہرپھینکنے کو دیا تو اس نے پی لیا تھا-انہی روایات کے متکرر پڑھنے سے ہی وہ ماحول وجود میں آتا ہے جہاں لوگ اپنے شیخ کوحضور کے مماثل سمجھ کر ایسی حرکتیں کیا کرتے ہیں- کوئ شیخ الہند جیسا مضبوط اعصاب کا بندہ ہوتا ہے تو وہ “آفٹر ایفیکٹ” جھیل لیتا ہے ورنہ ہما شما کا وہی حال ہوتا ہے کہ شیخ کے نام کا کلمہ پڑھنے کا تیار ہوجاتے ہیں-

نوٹ: مذکورہ بالا تتمہ فقط اس طرف متوجہ کرنے کیلئے ضروری تھا کہ تصوف کے شخصی پروفشنل حلقوں سے دور رہا جائے- والسلام

Advertisements
julia rana solicitors london

اسلامی تصوف بارے ایک سیکولرموقف۔۔۔سلیم جاوید/قسط5

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply