گوئم مشکل/سیّد تجمّل حسین

یہ میری موت کے دن کا واقعہ ہے۔
اُس دن میری آنکھ اُسی کے فون کی وجہ سے کھلی تھی۔
میں نے اپنے تمام فیملی ممبرز اور تمام اہم دوستوں کے لئے الگ الگ رِنگ ٹونز مختص کر رکھی ہیں۔
اس لئے مجھے کال اٹھانے سے پہلے پتہ چل جاتا ہے کہ دوسری طرف کون ہوگا۔ جبکہ اُسوقت بجنے والی وہ رنگ ٹون میرے سیل فون کی ڈیفالٹ ٹون تھی،
مطلب یہ کہ کال ملانے والا یا تو کوئی نیا شخص تھا, یا پھر میرے لئے بالکل غیراہم تھا۔

لیکن, ذرا ٹھہرئے۔۔!
کیا اپنی کہانی سنانے سے پہلے میں آپ لوگوں کو اپنا تعارف کرواچکا ہوں؟
میرا خیال ہے کہ پہلے تعارف ہوجائے، تاکہ آپ کو میری زندگی کی اس کہانی کو سمجھنے میں آسانی ہوجائے۔
میں، ابرار احمد،
فلسفے کا ایک ہردلعزیز پروفیسر
( یہ گمان مجھے اپنے اسٹوڈنٹس کی آراء کو سن کر ہوا تھا)
ایک بہترین وائلن پلیئر
نہایت اچھی آواز میں گانے والا ایک گائیک
ایک لکھاری
ہمدرد اور خیال رکھنے والا شوہر
ذمہ دار باپ
اور
ایک پیدائشی نابینا ۔

جی ہاں، نابینا،
میں نے زندگی کو کبھی اس طرح نہیں دیکھا، جس طرح آپ دیکھتے ہیں۔
میں نے صرف زندگی کو محسوس کیا ہے،
برتا ہے،
پرکھا ہے،
اور
بھگتا بھی ہے۔
آخری لفظ میں نے آپ سے ہمدردی سمیٹنے کی خاطر نہیں کہا۔ I really hate sympathy
جی ہاں،
میں بالکل نہیں پسند کرتا، کہ کوئی مجھ سے ہمدردی کرے۔
میرے والدین نے میری پرورش بالکل نارمل بچے کی مانند کی۔ نابینا ہونے کے باوجود میں نے کبھی بریل سسٹم کے تحت نہیں پڑھا۔ گھر میں والدہ اور اسکول میں میرے ہم جماعت میری مدد کیا کرتے تھے۔ امتحانی پرچہ میں ٹائپ رائٹر پر ٹائپ کر کے دیا کرتا تھا۔ سب کچھ نارمل تھا۔
یونہی پڑھتے پڑھتے میں یونیورسٹی تک پہنچ گیا تھا۔
یونیورسٹی کی رنگین دنیا کے قصے بہت سنے تھے۔ اسکول کے زمانے سے بنا ہوا میرا دوست فاران، جو میرے محلے میں ہی رہتا تھا، یہاں بھی میرے ساتھ تھا۔ مجھے کوئی مشکل نہیں ہوتی تھی۔ ہم چار پانچ دوستوں کا ایک گروپ تھا۔
ہر کلاس کے بعد ہم لیکچر کو ڈسکس کرتے۔ کبھی کبھی فاران مجھے کتاب میں سے بھی کچھ پڑھ کر سنا دیتا، اور میرے لئے فاران کا سنایا ہوا ہی کافی ہوجاتا۔
یونہی ایک سال گذر گیا۔
ایک دن فاران مجھے کچھ ضروری نوٹس پڑھ کر سنا رہا تھا۔ مگر اس دن میں نے محسوس کیا کہ وہ بار بار رک جاتا تھا۔
کیا ہوا بھائی؟ آج تُو کہاں غائب ہے؟
میں نے اس کے کندھے پر ہاتھ مار کر پوچھا تو وہ چونک گیا۔
کچھ نہیں ابرار، کچھ خاص نہیں
اس نے مجھے مطمئن کرنا چاہا
نہیں، کچھ تو ہے۔
میں نے مشکوک لہجے میں کہا۔
کچھ نہیں جناب، بلکہ بہت کچھ ہے، ہم سے پوچھیے ہم بتاتے ہیں۔
اچانک پیچھے سے احتشام کی آواز آئی۔
ہو ہووو، احتشام آیا ہے۔
میں خوش ہوکر بلند آواز میں چلّایا
ہاں گُرو، ہمیں ہی آنا پڑا، کیونکہ فاران صاحب تو آپ کو کچھ بتانے والے ہیں نہیں، تو ہم نے سوچا ہم چل کر سارے راز اٹھادیں۔
احتشام کی کھنکھناتی آواز بہت بلند تھی۔
مجھے لگا کہ شاید اس کا یوں بلند آواز میں بات کرنا فاران کو سخت ناگوار گذرا ہے۔
نہیں، مجھے کوئی مسئلہ نہیں،
اگر فاران ابھی نہیں بتانا چاہتا تو مجھے بھی کوئی جلدی نہیں۔
میں نے فاران کا دل رکھنے کو یہ بات کہی تھی۔ ورنہ میرے ذہن میں کئی سوال اٹھ رہے تھے۔ اس نے مجھ سے کبھی کوئی بات نہیں چھپائی تھی۔ وہ میرا جگری دوست اور ہمراز تھا۔

دوسرے دن میرے دوبارہ استفسار پر فاران نے بتایا کہ کل جب وہ مجھے نوٹس پڑھ کر سنارہا تھا تب اس نے یونیورسٹی کے سوشیالوجی ڈیپارٹمنٹ کی طرف جاتی ہوئی کچھ لڑکیوں کو دیکھا تھا۔
اور وہ ان میں سے ایک لڑکی کے حسن کو دیکھ کر حیران رہ گیا تھا۔
اوہ تو گویا، یہ Love at first sight والا معاملہ ہے۔
میں نے مسکرا کر پوچھا
ارے نہیں یار ابرار، کمال کرتے ہو تم بھی، ایسی کوئی بات نہیں
فاران نے ہنس کر بات کو ٹال دیا۔
مگر میں جان چکا تھا
فاران اب روز میرے ساتھ کسی نہ کسی بہانے سوشیالوجی ڈیپارٹمنٹ کے چکر لگانے لگا تھا۔ اسے اچانک اس ڈیپارٹمنٹ کے کیفے ٹیریا کی چائے میں الائچی کی خوشبو آنے لگی تھی۔
راحیلہ نام ہے اس کا، گلشن اقبال کے مڈل کلاس گھرانے سے تعلق ہے اور بہت اچھی مقرر بھی ہے۔
ایک دن احتشام نے تمام معلومات مجھے اور فاران کو بتادیں تھیں۔
ارے واہ، تم تو چھپے رستم نکلے۔
میں نے شوخ آواز میں احتشام کو چھیڑا
ابھی تو آپ ایک اور بات سنیں گے تو حیران رہ جائیں گے جناب
احتشام نے میرے کندھے کو ہلکا سا دبایا
اچھا ! وہ کیا بھلا؟
میں نے مسکراتے ہوئے پوچھا
اُس راحیلہ کے ساتھ ایک لڑکی اور بھی ہے، جو اسے مباحثوں کے لئے تیاری کرواتی ہے۔ دونوں میں بہت گہری دوستی ہے۔
اس دوسری لڑکی کا نام ہے معصومہ، اور وہ بالکل۔۔۔
احتشام اچانک کچھ کہتے کہتے رک گیا
ہاں ہاں احتشام، اور وہ بالکل، کیا؟
میں نے پوچھا

وہ بالکل، تمہاری طرح ہے۔ میرا مطلب ہے کہ تمہاری طرح نابینا ہے، بیچاری دیکھ نہیں سکتی۔
احتشام نے آہستہ سے کہا
اچھا، واقعی ؟
فاران، جو اتنی دیر سے خاموش بیٹھا ہماری بات سن رہا تھا، اچانک ہمارے درمیان بول پڑا
تو کیا وہ اس لئے سیاہ چشمہ لگاتی ہے؟ میں تو سمجھا تھا کہ محض فیشن گلاسز ہیں۔ اچھا تو، اسکا مطلب وہ بھی اندھی ہے۔
فاران کی دل چسپی معاملے میں اور بھی گہری ہوگئی۔
وہ دونوں اس کے بعد نہایت جوش و خروش سے ان دو لڑکیوں پر مشتمل اس گروپ کی باتیں کرتے رہے۔
مگر مجھے اچانک اپنے چاروں طرف ٹریفک کا شور بڑھتا ہوا محسوس ہونے لگا۔
میری طرح نابینا؟
میری طرح؟
وہ ‘بھی “اندھی” ہے؟
مجھے نجانے کیوں, اپنے نابینا ہونے پر حیرانی سی ہونے لگی
اوہ، تو کیا میں نابینا ہوں؟
اف، میں تو بھول ہی چکا تھا کہ
میں نابینا ہوں، مجھے تو لگا تھا کہ میں بالکل عام لوگوں کی طرح ہوں۔
مجھے گھبراہٹ ہونے لگی۔
مجھے لگا کہ سب لوگ میری طرف ہمدردی سے دیکھنے لگے ہیں۔

دل میں آئی کہ فاران سے کہوں کہ چلو اب واپس چلیں، مگر یہ تو کسی کا سہارا لینے والی بات ہوجاتی، نہیں نہیں میں اب کسی پر بوجھ نہیں بنوں گا۔
میں نے نہایت جذباتی ہو کر کچھ فیصلہ کیا اور وہاں سے اٹھ کر چلا آیا۔
فاران اور احتشام کو میرے اچانک واپس جانے کے فیصلے سے تھوڑی حیرانی بھی ہوئی۔ مگر میں ناسازیء طبع کا بہانہ بنا کر اس دن گھر ہی چلا آیا۔
اور اس کے بعد، میں نے دس دن تک یونیورسٹی کی شکل تک نہیں دیکھی۔ مگر مجھے حیرت اس بات پر تھی کہ فاران نے بھی زیادہ اصرار نہیں کیا۔
وہ روز صبح مجھے لینے آتا، اور میں روز اسے کہتا ”میری طبیعت کچھ ٹھیک نہیں لگ رہی مجھے”
اور وہ میری بات پر یقین کر کے، بغیر اصرار کیے  یونیورسٹی چلا جاتا۔
گیارہویں دن، جب مجھے اچانک احساس ہوا کہ میں جذبات میں بہہ کر اپنی تعلیم کا نقصان کر رہا ہوں، تو خود ہی یونیورسٹی چلا آیا۔
ہائیں، یہ کیا بھئی؟ ظلّ الہٰی کی طبیعت تو صبح تک خراب تھی۔
احتشام کی چہکتی ہوئی آواز آئی
فاران نے بھی اچانک آگے بڑھ کر مجھے تھام لیا،
عجیب گھامڑ آدمی ہو، صبح ہی مجھے منع کیا اور اب خود منہ اٹھا کر چلے آئے۔
اس نے شکوہ کیا
اچھا، تو یہ ہیں مسٹر ابرار؟
قریب سے نسوانی آواز ابھری تو میں چونک گیا۔
اور آپ محترمہ کون؟
میں سرپرائز رہ گیا تھا۔
گو کہ ہمارے گروپ میں احتشام کے علاوہ منیر، سید اکمل، اور جواد بھی شامل تھے، مگر آج تک کسی لڑکی نے ہمارے گروپ میں قدم رنجہ نہ فرمایا تھا۔
میں، راحیلہ قیوم اور یہ میری دوست معصومہ غوری ہیں، ہم سوشیالوجی ڈیپارٹمنٹ میں ہوتی ہیں۔
نسوانی آواز نے نہایت بے تکلفی سے اپنا تعارف کروایا تو مجھے خوشگوار حیرت سی ہوئی۔
ان دس دنوں کی غیرموجودگی میں کافی کچھ بدل گیا تھا۔ احتشام اور فاران نے نجانے کس طرح راحیلہ اور معصومہ سے دوستی گانٹھ لی تھی۔
اور ابرار صاحب، ہم نے سنا ہے کہ آپ وائلن بہت اچھا بجا لیتے ہیں اور آپ کی آواز بھی بہت اچھی ہے۔
راحیلہ نے بےتکلفی سے کہا، تو میں تھوڑا حیران ہو گیا۔
اچھا؟ اور کیا کیا بتایا ہے ان باتونی لوگوں نے میرے بارے میں؟
میں نے خوشگوار حیرت سے پوچھا،
مجھے اچھا لگا تھا کہ میری غیرموجودگی میں میری باتیں ہوتی رہیں تھیں۔
زیادہ نہیں، بس یہی کہ آپ موسیقی، شاعری، فلسفہ اور معاشرے پر بہت گہری نظر رکھتے ہیں۔
ایک نئی کھنکتی ہوئی آواز فضا میں ابھری تو میں جان گیا کہ یہ معصومہ کی آواز ہے۔
مس معصومہ غوری، میں نے سنا تھا کہ آپ بھی۔۔۔!
میں نے جان بوجھ کر درمیان میں ہی بات ادھوری چھوڑ دی۔
جی ابرار صاحب، میں بھی آپ کی طرح نابینا ہوں، البتہ میں پیدائشی نہیں، بلکہ بچپن میں ایک بیماری کی وجہ سے میری آئی سائٹ تھوڑی، بلکہ اچھی خاصی، بلکہ۔۔۔ بس یونہی سمجھیں کہ میں نابینا ہی ہوگئی۔
یہ کہہ کر وہ کھلکھلا کر ہنسنے لگی۔
جیسے نابینا ہوجانا، بچپن کی کوئی شرارت ہو،
جیسے نابینا ہونے میں بہت مزا آتا ہو۔
میں حیران رہ گیا۔ اس دن گھر واپس آنےکے  بعد بھی میں اس کی آواز اور ہنسی کو سوچ سوچ کر مسکراتا رہا۔
یہ معصومہ غوری سے میری پہلی ملاقات تھی۔
____________

صاحبان، وقت کبھی کبھی تو بہت تیزی سے گذرتا ہے۔ اور کبھی کبھی، کاٹے نہیں کٹتا۔
اور یہ احساس اسوقت تو اور زیادہ ہونے لگتا ہے جب، آپ کو کسی سے محبت کا احساس ہونے لگے۔

جی۔۔۔ جی، آپ نے بالکل درست سنا،
میں، ابرار احمد
محبت کی ہی بات کر رہا ہوں۔
ایک بہترین وائلن بجانے والے، موسیقی اور شاعری کے دلدادہ کو محبت تو بہت پہلے ہوجانی چاہیے تھی۔
مگر خیر، دیر آید درست آید
قصہ مختصر یہ کہ مجھے معصومہ سے محبت ہونے لگی تھی۔
اور اس جذبے میں شدت، دن بدن بڑھتی چلی جارہی تھی۔
مگر، کیا دوسری جانب بھی یہی آگ لگی ہے؟
یہ وہ سوال تھا، جو میری نیندیں اچاٹ کر رہا تھا۔
بالآخر، مجھے ایک دن فاران سے بات کرنی پڑی۔
فاران۔۔۔!
یار، مجھے لگنے لگا ہے کہ، وہ مجھے نہ ملی تو شاید،
شاید۔۔۔ میں مر ہی جاؤں گا۔
اور میری بات سن کر فاران پہلے تو بری طرح چونک گیا۔
اور پھر اچانک، مجھے گلے لگا کر ہنسنے لگا۔
اور پھر، بے تحاشا قہقہے مار مار کر ہنستا چلا گیا۔
میں ہونق بن کر اس کے قہقہے سنتا رہا۔

محبت واقعی میرے گلے پڑچکی تھی۔
اس کا اظہار اتنا مشکل ہوگا، میں نے کبھی سوچا نہیں تھا۔
فاران کے قہقہے بلاوجہ نہیں تھے۔
یہ میں ہی تھا، جو شاعری سے لگاؤ کے باوجود، عاشقوں کی آہ و بکا سے بیزار تھا۔
مجھے لگتا تھا کہ
محبت، اتنی ظالم نہیں ہوسکتی کہ کسی کو پاگل بنا کر چھوڑ دے۔
اور نہ ہی محبت، اتنی بے پرواہ ہوسکتی ہے کہ سامنے والے کی آنکھوں میں چھپے پیغام کو نہ جان سکے۔
محبت تو، فاتح عالم ہے۔
محبت سب جانتی ہے۔
یہ شاعر بہت جھوٹ لکھتے ہیں، یہ ہر بات کو بڑھا چڑھا کر لکھتے ہیں۔
محبت کسی کا گلا نہیں گھونٹتی۔

اور میرا خود کا گھڑا ہوا یہ بودا فلسفہ، جب میرے ہی گلے کو گھونٹنے آگیا تو، تب میں سمجھا کہ
فاران کے قہقہے۔۔۔ بلاوجہ نہیں تھے۔
وہ میری فلسفے کی شکست کو انجوائے کر رہا تھا۔
کمینہ، فسادی کہیں کا۔۔۔ !

میں کبھی معصومہ کو اپنے دل کی اندرونی بات نہیں بتا پایا۔
اور نہ ہی مجھے اسکی کسی بات سے یہ اندازہ ہوسکا کہ اس کے دل میں میرے لئے کیا جذبات ہیں۔
کبھی تو وہ بہت سنجیدگی سے صرف اور صرف پڑھائی کے حوالے سے باتیں کرتی تھی۔ جیسے اس کی گریجویشن ہی اس کا سب سے بڑا مسئلہ ہو۔
اور کبھی صرف راحیلہ کی بات کرتی۔
کبھی صرف فاران کی،
کبھی طلبہ تنظیموں کی سیاست، اور کبھی معاشرتی ناہمواریوں پر گفتگو کرنے لگتی۔
ایسی صورتحال میں مجھ پر غالب کی طرح
گو ئم مشکل و گر نہ گوئم مشکل
والا معاملہ صادق آتا تھا۔

پھر اچانک طلبہ تنظیموں میں تصادم کی وجہ سے یونیورسٹی ہی بند ہوگئی۔
آپ مانیں کہ، میری تو سانس ہی بند ہونے لگی۔

کہاں آئے روز معصومہ کے ساتھ بیٹھے خوش گپیاں کرنا، غزلیں سنانا، جماعت کی پکنک اور دیگر آؤٹنگ کے موقعوں پر اس کو اپنے پاس بٹھا کر وائلن بجانا
لوگوں کی تالیاں، اور معصومہ کا مجھ سے جوش کے مارے ہاتھ ملانا۔
اور اب کہاں یہ خواہ مخواہ کا گھر میں بیٹھ جانا،
مجھے بری طرح بے چین کئے دیتا تھا۔
دن بدن میری حالت غیر ہورہی تھی۔

ایک دن یہی پریشانی لے کر میں فاران کے گھر چلا آیا۔
اس گھر سے، اور اسکے مکینوں سے میں نے ہمیشہ پیار، حوصلہ اور اعتماد پایا تھا۔
فاران مجھے دیکھتے ہی ڈرائینگ روم میں لے گیا۔ اور مجھے ٹیلی فون سیٹ کے پاس بٹھا کر کسی کا نمبر ڈائل کرنے لگا۔
کسے فون ملا رہا ہے تو؟
میں نے حیرانی سے پوچھا
معصومہ کو۔
اس نے مختصر جواب دیا
پاگل ہوگیا ہے کیا؟
میں گھبرا کر اٹھنے لگا، تو اس نے زبردستی مجھے دوبارہ صوفے پر بٹھا دیا۔
یہ لے، بیل جارہی ہے، بات کر اس سے اور سب بتادے اسے، میں اتنی دیر میں تیرے لئے چائے لے کر آتا ہوں۔
اس نے ریسیور زبردستی میرے ہاتھ میں پکڑا دیا۔ اور کمرے سے باہر چلاگیا۔
میں جھلا کر فون کو واپس رکھنے ہی لگا تھا کہ دوسری جانب سے معصومہ کی ہلکی سی آواز سنائی دی۔ وہ ہیلو کہہ رہی تھی۔
میں نے بیتابی سے ریسیور اپنے کان سے لگا لیا۔
معصومہ میں، ابرار احمد
میرے گلے میں اچانک کچھ اٹکنے لگا۔
ابرار؟
اوہو ہو ہو، تو تمہارے گھر بھی فون لگ ہی گیا آخر،
اور سناؤ کیسے ہو۔
لاسٹ سمسٹر کی تیاری کیسی جارہی ہے؟
تمہیں پتہ ہے یونیورسٹی انتظامیہ نے دونوں تنظیموں کے کارکنان کے خلاف چارج شیٹ تیار کر لی ہے۔ کل راحیلہ کی طرف بھی جانا ہے، اس کی امی کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے نا۔
وہی عام گفتگو، جو وہ اکثر کیا کرتی تھی۔

کبھی جو میرے دل کی آواز سن سکے یہ لڑکی،
میں نے دل ہی دل میں اسے کوسا۔

معصومہ…! وہ میں، تم سے۔
دراصل، یہ فون۔۔۔ میرے گھر نہیں لگا۔
وہ تو میں فاران سے ملنے آیا تھا تو،
تمہاری آواز سنے ہوئے بہت عرصہ بیت گیا تھا۔
تو میں، بے چین ہوکر یہاں فاران کے گھر چلا آیا۔
تم میری بات سن رہی ہو ناں؟
مگر دوسری جانب ایکدم خاموشی چھاگئی تھی۔
معصومہ۔۔۔!
معصومہ؟
مگر دوسری جانب سے فون رکھ دیا گیا تھا۔

یونیورسٹی کھل گئی۔ مگر وہ دونوں نہیں آئیں۔ راحیلہ کے بھائیوں نے سیاسی حالات کی مکمل درستگی تک اس کے یونیورسٹی آنے پر پابندی لگادی۔
اب اکیلی معصومہ کیسے آتی۔
مگر نجانے کیوں مجھے لگا کہ اب وہ جان بوجھ کر نہیں آرہی ہے۔
اس نے میری محبت کو ٹھکرا کر انتہائی بےاعتنائی کا ثبوت دے دیا تھا۔
اسکے پاس فاران کا نمبر تھا، وہ چاہتی تو فاران کو فون کر کے مجھے بات کرنے کے لئے بلا سکتی تھی۔ مگر اس نے میرا تو کجا، فاران کا حال پوچھنے تک کے لئے فون نہیں کیا۔
میں نے بھی حالات سے سمجھوتا کیا اور لاسٹ سمسٹر کی تیاری میں جٹ گیا۔
___________

رفتہ رفتہ یکطرفہ محبت، قصۂ پارینہ ہوئی۔
پی ایچ ڈی کرنے تک کئی لڑکیاں زندگی میں آئیں۔
کسی کو مجھ جیسے وجیہہ انسان کے نابینا ہونے کا دکھ تھا۔
کسی کو صرف مجھ سے اللہ واسطے کی ہمدردی تھی۔
کسی کو میرا وائلن بجانا بہت اچھا لگتا تھا۔
کوئی میری آواز کی شیدائی تھی۔
مگر قصہ مختصر کہ
ایک اندھے سے بھلا کون پاگل اپنی بیٹی بیاھے گا؟

بالآخر، خاندان میں ایک پاگل ایسا مل ہی گیا۔ جو مجھ جیسے اندھے سے بھی اپنی بیٹی کو بیاھنے پر راضی ہوگیا۔
ویسے وہ،اتنا پاگل بھی نہیں تھا۔
ربعیہ کے کئی رشتے ٹھکرانے کے بعد، جب بیٹی کے آنکھوں کے گرد حلقے بڑھنے لگے، حسن معدوم ہونے لگا تو ایسے میں متین چچا کو اپنا نابینا بھتیجا اس حد تک عزیز ہوگیا کہ وہ اسے اپنا داماد بنانے پر تیار ہوگئے۔اور کیوں نہ ہوتے،
آخر میں سترہ گریڈ کا سرکاری ملازم اور ایک قومی یونیورسٹی کا پروفیسر بھی تو تھا۔
ربعیہ بہت اچھی اور خیال رکھنے والی بیوی ثابت ہوئی۔ اس نے مجھے بالکل محسوس نہیں ہونے دیا کہ میں معذور ہوں۔
اس لئے، میرا بھی فرض بنتا تھا کہ میں اس کی محبت کی قدر کروں۔
یوں ہمارے گھر کی بنیاد خلوص، احترام اور قدر و منزلت پر استوار ہونے لگی۔
رباب، احمر اور بلال، یکے بعد دیگرے ہمارے گھر کے آنگن کی رونقوں میں اضافہ کرتے چلے گئے۔
دن گذرے اور میں، ذیابیطس کی وجہ سے بغیر شکر کی چائے پینے لگا۔ بلڈپریشر کی وجہ سے نمک کا عمل دخل بھی کھانوں میں کم ہوتا چلا گیا۔
مگر اس کے باوجود، سب ٹھیک ٹھاک جارہا تھا۔ آگے بھی سب ٹھیک ہی چلتا رہتا اگر اس دن وہ کال نہ آتی۔
________________

میں نے ابتداء میں بتایا تو تھا کہ
اس دن میری آنکھ اسی کے فون کی وجہ سے ہی کھلی تھی۔
میں نے اپنے تمام فیملی ممبرز اور تمام اہم دوستوں کے لئے الگ الگ رِنگ ٹون مختص کر رکھی ہیں۔ اس سے مجھے کال اٹھانے سے پہلے پتہ چل جاتا ہے کہ دوسری طرف کون ہوگا۔
جبکہ اسوقت بجنے والی یہ رنگ ٹون، میرے سیل فون کی ڈیفالٹ ٹون تھی،
مطلب یہ کہ کال ملانے والا، یا تو کوئی نیا شخص تھا، یا پھر میرے لئے بالکل غیراہم تھا۔
میں نے فون نہیں ریسیو کیا، مگر جب بار بار کال آتی رہی تو جھلا کر فون کو ٹٹولا اور اسے سائلنٹ کر کے رکھ دیا۔

آخر کوئی، کسی نابینا شخص کو اتنا تنگ کیسے کر سکتا ہے؟
مستقل کام کر کر کے میں تھک گیا تھا اس لئے میں نے ڈیپارٹمنٹ سے چند دن کی چھٹیاں لے لی تھیں۔
یہ میری چھٹیوں کا تیسرا دن تھا۔
بچے اسکول اور کالج جاچکے تھے۔ اور ربعیہ کچن میں ناشتے کے برتن دھو رہی تھی۔
جب بار بار کال آنے لگی تو مجھے مجبوراً کال اٹینڈ کرنی پڑی۔
ہیلو، کون؟
میں نے بیزاری سے پوچھا۔
دوسری جانب خاموشی چھائی رہی
ہیلو، کون بات کر رہا ہے؟
میں نے جھلا کر پوچھا،
اسی دوران دوسری جانب سے کسی نے گہری سانس لی۔
ہیلو؟
میں ابھی کال کاٹنے کا سوچ ہی رہا تھا کہ دوسری جانب سے ہنسی کی آواز آئی۔

نقرئی گھنٹیوں جیسی ہنسی کی اس آواز کو،میں ہزاروں لوگوں کے بےہنگم شور میں بھی پہچان سکتا تھا۔
میری روح کی گہرائیوں میں بسی تھی یہ ہنسی،
مگر آج،
شاید اس ہنسی میں کچھ بناوٹ اور تصنع بھی چھپی ہوئی تھی۔
معصومہ غوری؟
میں نے دھڑکتے دل کے ساتھ احتیاطاً کنفرم کرنا چاہا۔
ہاں۔۔۔ میں، معصومہ غوری۔
بہت ہی بزدل، بودے اور کمزور عاشق نکلے تم تو، پلٹ کر خبر ہی نہیں لی کبھی،اور شادی کرلی بتایا بھی نہیں،
بچے کتنے ہیں؟
بیوی کیسی ہے؟
خیال تو رکھتی ہے ناں؟
جاب کیسی جارہی ہے؟

اور ہاں، احتشام بتارہا تھا کہ تمہیں بلڈپریشر اور شوگر کی بیماری لاحق ہوگئی ہے؟

مجھے بھی کچھ عرصے سے شوگر کی تکلیف ہوگئی ہے۔
خیر ہے یار، ہم تو پہلے ہی اندھے ہیں، اندھوں کو آخر کتنا اندھا کردے گی یہ شوگر۔ ہاہاہاہا
وہ پہلے کی طرح پھر کھلکھلا کر ہنسنے لگی۔
میں تو بس اسے سنتا ہی رہ گیا
کچھ بول ہی نہیں سکا۔

بالآخر اسے خود ہی مخاطب کرنا پڑا۔
تم بھی تو کچھ بات کرو نا ابرار۔۔۔ !
میں اکیلی ہی باتیں کئے جارہی ہوں۔
آں۔۔۔ ہاں،
ہاں ہاں، مم میں۔۔۔ میں سن رہا ہوں تمہاری باتیں،
لیکن میں، آخر کیا بات کروں معصومہ؟
میں نے بیچارگی سے کہا
اس سے بات کرتے ہوئے میری زبان ایک بار پھر پتھرانے لگی تھی۔
مجھے لگا،میری ناک سے خون آنا شروع ہوگیا ہے۔
میں نے الٹے ہاتھ سے سائیڈ ٹیبل پر موجود ٹشو پیپر کے ڈبے کو اٹھانا چاہا،
مگر میرا ہاتھ وہیں پتھرا گیا۔
فون پر میری گرفت ڈھیلی پڑنے لگی۔
اس کی مدھم آواز مستقل آرہی تھی۔

کچھ تو کہو، ابرار
جو پہلے نہ کہہ سکے،
وہی کہہ دو
بس۔۔۔ ایک بار ہی کہہ دو
میں نے محسوس کیا کہ اسکی آواز بھی اچانک لرزنے لگی ہے،
جیسے وہ آنسوؤں کو پی رہی ہو،
اور مجھے لگا کہ
میرے پیروں میں سے جان نکل رہی ہے۔
میرے ہاتھ سے موبائل چھوٹ گیا۔

میری بیوی جب تک میری مدد کو آتی
میں
مر چکا تھا۔
_______________

میری تدفین کے وقت، احتشام نے فاران کو بتایا کہ کل اسے ایک تقریب میں معصومہ مل گئی تھی۔
اس کی شادی کہیں نہ ہوسکی۔
ایک دو رشتے آئے بھی تھے مگر معصومہ نے خود انکار کردیا۔
کل مجھے ملی تو، ابرار کا بار بار پوچھتی تھی۔
میں نے اسے بتایا کہ ابرار تمہارے انکار کے بعد بہت دلبرداشتہ ہوا۔ مگر پھر سنبھل گیا۔
ابرار کی شادی کا سن کر وہ بہت خوش بھی تھی، مگر وہ بار بار مجھے یقین دلاتی رہی کہ اس نے ابرار کو انکار نہیں کیا تھا، وہ بس فطری شرم تھی جو اسوقت آڑے آگئی تھی اور بس،
اگر ایک بار بھی ابرار دوبارہ اس سے، یا اس کے گھر والوں سے رابطہ کرلیتا تو وہ کبھی انکار نہ کرتی۔
فاران نے بہت دکھی دل کے ساتھ احتشام کی باتیں سنیں،اور پھر آہستہ سے گویا ہوا
میں نے ہمیشہ ابرار کی ہمت بندھائی کہ وہ اپنے پیار کا اظہار بے باکی سے کردے۔
مگر وہ بہت بزدل نکلا،
اتنا بزدل کہ۔۔۔ اب بھی جان دیدی، مگر اظہار نہ کرسکا۔

Advertisements
julia rana solicitors

فاران،
میرا بھائیوں جیسا دوست،
اسے بھی راحیلہ سے محبت ہوگئی تھی۔
مگر اس نے راحیلہ کو تو درکنار،
مجھے  تک نہیں بتایا
کمینہ، فسادی کہیں کا۔۔۔!

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply