• صفحہ اول
  • /
  • ادب نامہ
  • /
  • سفر نامہ
  • /
  • میرا گلگت و ہنزہ(سفرنامہ) علاقائی ثقافتی رنگوں کی قوس و قزح کہانی کے آئینہ خانے میں/سلمیٰ اعوان(قسط10-ب)

میرا گلگت و ہنزہ(سفرنامہ) علاقائی ثقافتی رنگوں کی قوس و قزح کہانی کے آئینہ خانے میں/سلمیٰ اعوان(قسط10-ب)

یامین نے دس ہزار کے نوٹوں کی گڈی بابو کی گود میں ڈال دی یہ کہتے ہوئے: ‘‘ہمارا مذہب اگر شراب پینے کو حرام کہتا ہے تو اسے بنانے اور بیچنے کے عمل کو کیسے پسند کر سکتا ہے’’؟
بابو کی آنکھیں یقینا پھٹنے کی حد تک پھیل گئی ہوں گی۔ اس کے دل کی دھڑکن یقینا غیر معمولی تیز ہو گئی ہو گی۔ اس کے ہاتھ ضرور کانپتے ہوں گے۔ جب اس نے گڈی کے نوٹوں کو چھوُا ہو گا۔ میں اس کے جسم و جاں اور دل و دماغ پر وارد ہونے والی سب کیفیات کو محسوس کر سکتی تھی۔ بے شک وہ میری طرف پشت کئے بیٹھا تھا۔
اگلی شام جب میں اپنی گوٹ (مکان) سے مشرقی ہاتھ بہتی کوہل (چھوٹی کھال یا نالہ) سے پانی بھر رہی تھی۔ میں نے یامین اور تاجور خان کو سامنے سے آتے دیکھا تھا۔ آج سارا دن دونوں گھر کے سب افراد کے ساتھ کھیتوں کی کٹائی کرتے رہے تھے۔ صرف میں کھانا پکانے کے لئے گھر میں تھی۔ یہ اور بات ہے کہ میرا دل وہاں جانے کو تڑپا تھا۔ پر یامین اپنے جگری یار کو اچھا کھانا کھلانے کا خواہش مند تھا۔
یامین ہماری ایک معمر رشتہ دار سے جو اپنے کھیتوں سے واپس آرہی تھی۔ بات چیت کرنے رک گیا۔ تاجور خان آگے بڑھ آیا۔ وہ مجھ سے ڈھائی تین گز کے فاصلے پر تھا۔ میں نے اسے دیکھا اور سر جھکا لیا۔ میرے ہاتھ پانی سے کھیلنے لگے تھے۔
تب اس نے اچانک کہا۔
‘‘تم کل مجھے دیکھ کر بھاگ کیوں گئی تھیں؟ کیا تمہیں میر اآنا برا لگا’’۔
میں نے جواب نہیں دیا۔ اس وقت میرا چہرہ سرخ تھا۔ میرا دل اور میرا وجود درخت کے کسی پتے کی طرح کانپتا تھا۔ میں نے سنا وہ کہہ رہا تھا۔
‘‘میں تمہارے لئے اجنبی ہوں۔ لیکن تم میرے لئے نہیں۔ بخدا میں نے یامین سے تمہارے بارے میں اتنا کچھ سنا ہے کہ میرا خیال ہے میں تمہیں تم سے بھی زیادہ جاننے لگا ہوں’’۔
میں نے پانی سے بھری بالٹی اٹھائی اور یہ کہہ کر رخ پھیر لیا۔
‘‘بخدا میں بھی تمہیں تم سے زیادہ جانتی ہوں’’۔
ذرا آگے جا کر میں نے پلٹ کر جب پیچھے دیکھا تو وہ وہاں سنگی بت کی طرح کھڑا تھا۔ غالباً اسے سنگل جیسے گاؤں کی ایک نو عمر لڑکی سے ایسے جواب کی توقع نہیں تھی۔ شاید وہ یہ نہیں جانتا تھا کہ کبھی کبھی کسی غیر ترقی یافتہ ماحول میں ایسے بچے بھی پیدا ہو جاتے ہیں جن کے ذہنی افق میں اتنی بلندی اور کشادگی ہوتی ہے کہ وہ اپنے اردگرد کی دنیا میں منفرد نظر آتے ہیں۔
یقینا میرا اور یامین کا شمار بھی ایسے ہی لوگوں میں ہوتا تھا۔ میں نے گھر آکر چائے چولہے پر رکھی۔ زمینی چولہے میں چپٹی (کیک نما روٹی) تیا ر ہو رہی تھی۔ میں نے سلور کے کٹورے کے ڈھکن پر پڑے کوئلوں کو نیچے گرایا اور چھپٹی کو بڑی تھالی میں نکالا۔
وہ دونوں آکر برآمدے میں لکڑی کی پیڑیوں پر بیٹھ گئے۔
میں نے پیالوں میں چائے ڈالی۔ نمکین چائے جس کی سطح پر مکھن تیرتا تھا۔ تازہ گرم خوشبو دیتی چھپٹی۔ تاجدار خان نے ہنس کر کہا۔
‘‘یار میں نے کوئی دس سال بعد ایسی ذائقہ دار چھپٹی کھائی ہے۔ میری ماں بہت بہترین بناتی تھیں’’۔
چائے پیتے پیتے انہوں نے سنگل کے قریبی گاؤں ‘‘دماس’’ جانے اور وہاں کے مشہور ٹھنڈے پانی کے چشمے پر مرغابی کے شکار کا پروگرام بنا لیا۔
اگلی صبح جب ہم ابھی سوتے تھے وہ چلے گئے اور دوپہر کو مرغابیوں سے لدے پھندے واپس آئے۔
میں یامین کی شکر گزار تھی کہ وہ اپنی مرو جہ روایات سے جی داری کے ساتھ ٹکرایا تھا۔ تاجدار خان وادی یاسین کے قلعہ موڈوری اور بوبر گاؤں میں قدیم یادگار ڈمورا دیکھنے کاخواہشمند تھا۔
اس وقت جب میں خوبانی کی گریوں کا تیل نکالنے کے لئے انہیں بھون رہی تھی میں نے یونہی کہا تھا۔
‘‘کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ میں بھی تمہارے ساتھ چلوں۔ میں پھپھی (پھوپھی) کے پاس ٹھہر جاؤں گی۔ عرصہ ہو گیا ہے انہیں ملے ہوئے۔’’
اور اس نے بے نیازی سے کہا تھا۔
‘‘بھئی اس میں پوچھنے کی کونسی بات ہے’ تیاری کرو۔’’
لیکن یہ بات جب مان کو معلوم ہوئی تو اس نے خشمگین نگاہوں سے بیٹے کو گھورا۔
‘‘کیا باؤلے ہو گئے ہو۔ جوان بہن کو غیر مرد کے ساتھ لے جاتے ہو’’۔ اس وقت وہ کمرے میں اپنے بریف کیس کو کھولے بیٹھا تھا۔ تڑپ کر اُس نے رخ پھیرا اور غصے سے بولا۔
‘‘مان تاجدار خان کے لئے غیر کا لفظ کبھی استعمال نہ کرنا۔ سمجھو وہ میں ہی ہوں’’۔
بیٹے کی اس بات پر مان کا لہجہ نرم پڑ گیا۔
‘‘وہ تو ٹھیک ہے پر بیٹے لوگ کیا کہیں گے’’۔
اور یامین نے بس اتنا کہا
‘‘مجھے لوگوں کی ذرہ پروا نہیں’’۔
رات کو دو تندرست اور پلے ہوئے گھوڑے ہمارے دروازے پر بندھ گئے تھے۔ یہ یامین کی فرمائش پر اس کے ایک دوست نے بھجوائے تھے۔ ان دنوں ذرائع آمد و رفت دشوار ترین تھے۔ پنیال سے گوپس تک اور پنیال سے گلگت تک اتنی چوڑی سڑک تھی کہ اس پر جیپ چل سکتی تھی۔ لیکن جیپ تھی کس کے پاس؟ ایک بار کسی سرکاری افسر کی گاڑی گاؤں میں آئی تو پورا گاؤں اُسے دیکھنے دوڑا تھا۔
بابو چپ سا تھا۔ میں جانتی تھی۔ میرا جانا اسے بھی ناپسند تھا پر وہ کماؤ بیٹے کے سامنے مجبور تھا۔ البتہ رات کو کھانا کھانے کے بعد اس نے یہ ضرور کہا تھا۔
‘‘بیٹے اتنی سادگی اچھی نہیں۔ سیانے لوگ کہتے ہیں۔ دنات مکرے ساں تی کھتہ (دنیا کو مکر کے ساتھ کھا)
لیکن یہ بات یامین کے سر سے ہوا کی طرح گزر گئی تھی۔
ہم تینوں منہ اندھیرے جب وادی ابھی سوتی تھی بوبر جانے کے لئے نکل کھڑے ہوئے۔ میں یامین کے پیچھے گھوڑے پر سوار تھی۔
یہ حیرتوں کا سفر تھا۔ ایک ایسی لڑکی کے لئے جس کی دنیا کتابوں کے گرد آباد تھی۔
اس میں مسرتوں کی آمیزش تھی۔
میں نے اپنا چہرہ اور جسم بہت بڑی چادر میں چھپا رکھا تھا۔ گھوڑے سرپٹ بھاگتے تھے اور میں خوف زدہ تھی۔ تاجدار خان اچھا گھڑ سوار جان پڑتا تھا۔ بابو سر اور کاغان کی وادیوں میں اس نے کافی گھڑ سواری کی تھی۔ البتہ یامین کو اپنے بچپن میں اس کا موقع بہت کم ملا تھا۔ پھر بھی ان چند دنوں میں اس نے اچھی خاصی پریکٹس کر لی تھی۔
بوبر وادی پنیال کا ایک گاؤں ہے۔ یہاں ہمارا ایک رشتہ دار رہتا تھا۔ اس کے گھر پڑاؤ ڈالا۔ دونوں میاں بیوی بوڑھے تھے۔ تعجب سے انہوں نے مجھے دیکھاتھا۔ ایک جوان لڑکی کا اپنے بھائی اور بھائی کے دوست کے ساتھ پھرنا معاشرتی اقتدار کے مطابق گویا سنگین جرم تھا۔ انہوں نے برا منایا اور برملا اس کا اظہار بھی کیا۔
یامین نے قدرے سنجیدہ ہو کر کچھ سوچا اور کہا
‘‘اب ڈمورا کے کھنڈرات تو اسے دکھا لائیں۔ بیچاری اتنا پینڈا مار کر آئی ہے۔
گاؤں کے شمال میں یہ قدیم یادگار ریت کے ایک ٹیلے پر واقع ہے۔ زمین دوز کمروں کا ایک سلسلہ مسمار ہوا پڑا تھا۔ سوائے اوپر والی منزل کے ایک کمرے کے ‘کمرے کی دیواروں میں قطار در قطار الماریاں ہیں۔ فرش پر جا بجا بکھرے انسانی ہڈیوں کے پنجر رگ و پے میں دوڑتے خون کو منجمد کرتے تھے۔
یامین نچلے کمرے میں اترنے والے راستے کے عین درمیان رُک کر دفعتاً میری طرف مڑا تھا کیونکہ میں نے دہل کر اُس کا بازو پکڑ کر کہا تھا۔ ‘‘نیچے کہاں جاتے ہو۔ نکلو یہاں سے باہر۔ میرا تو دل ڈوب رہا ہے’’۔
‘‘لو دیکھنے کے لئے بھی مری جاتی تھی۔ اب دلیر بنو۔’’
لیکن میں اتنی بہادر نہیں بن سکتی تھی۔ سر کی کھوپڑیاں’ بازوں کی ہڈیاں اور انسانی اجسام کے پنجر بندے کو اس کا انجام بتا رہے تھے اور میں بالی عمریا کے اس دور میں اپنے بارے میں کسی ایسے اختتام کا تصور بھی نہیں کر سکتی تھی۔
اور یہی وجہ تھی کہ میں ہڈیوں کو پیروں تلے روندتی باہر آگئی تھی۔ کھلی فضا میں جہاں سورج چمکتا تھا اور آسمان نیلا شفاف تھا ۔تاجدار خان کی نتھری ہوئی نیلگوں آنکھوں جیسا۔ برف سے لدی پھندی پہاڑوں کی چوٹیاں سورج کی کرنوں سے کیسے کیسے نقش بناتی تھیں۔ ٹیلے پر بیٹھ کر یہ سب دیکھنا بہت دلفریب تھا۔
مجھے نہیں پتہ تاجدار خان کب مجھ سے کچھ فاصلے پر آکر کھڑا ہو گیا تھا؟ میری نگاہوں کو برفانی چوٹیوں میں پھنسا دیکھ کر اس نے یہ کہنا بہت ضروری سمجھا تھا۔
‘‘مت دیکھو اس طرح۔ برف بہت سفید اور چمکدار ہے۔ دھوپ میں شدت ہے۔ آنکھوں کی بینائی پر اثر پڑ سکتا ہے۔ ’’میں نے نگائیں جھکا لی تھیں۔ پر میری آنکھوں کے گرد نیلے پیلے دھبے رقصاں تھے۔
تبھی تاجدار خان پھر مجھ سے مخاطب ہوا تھا۔ؒ
‘‘بتاؤ تو ذرا تمہارے سامنے بھلا کون سے پہاڑ ہیں؟’’
مسکراہٹ نے میرے چہرے کو ٹہنی پر کسی شگفتہ پھول کی طرح کھلا دیا تھا۔ میرے چہرے پر تاجدار خان کی نظریں تھیں۔ ان نظروں میں محبت بھی تھی اور وارفتگی بھی۔
میں نے دونوں کی زبان کو سمجھا تھا۔ اٹھلا کر ایک ادائے ناز سے اسے دیکھتی ہوئی بولی تھی۔
‘‘بتا دوں تو کیا انعام دو گے’’؟
اس نے اپنی گھنی مونچھوں تلے ہونٹوں کو شوخ انداز میں پھیلایا۔ فضا کو دیکھا اورکہا تاجدار خان جیسے بیبے لڑکے کو تمہیں سونپ دوں گا’’۔
میری ہنسی چھوٹ گئی۔ اپنے گھنٹوں میں سردے کر میں اتنا ہنسی کہ میرا سارا وجود کسی چُلبلی نار کے کانوں میں پہنے خوبصورت جھمکے کی مانند لرزنے لگا تھا۔ جب میں نے سر اٹھایا۔ اس وقت یامین بھی وہاں آگیا تھا۔ میری آنکھوں میں پانی دیکھ کر اُس نے پوچھا تھا۔
‘‘ارے اسے کیا ہوا ہے’’۔؟
تاجدار خان نے کہا: ‘‘میں اسے ایک کہانی سنا رہا تھا۔’’
تبھی وہاں ایک نوجوان لڑکا اپنی بھیڑ بکریوں کا ریوڑ چراتا اپنی لگن میں گیت گاتا آ گیا۔ اس کی پاٹ دار آواز نے اس ویرانے میں جہاں خوف و دہشت اور موت جیسی ظالم شے کا کر بناک احساس پھیلا ہوا تھا کو ختم کر کے حسن و عشق کی ایک لطیف و سرور آگیں کیفیت کو جنم دیا۔
اس نے سر نئی بجائی اور ہم لوگوں نے دل کھول کر نہ صرف داد بلکہ پیسے بھی دئیے۔
وہ ابد و نامی قبیلے کا ایک فرد تھا۔ ڈمورا کے متعلق اس نے بے شمار حیرت انگیز اور انوکھی باتیں بتائیں۔ پر دو میرے ذہن سے چپک گئیں۔
پرانے وقتوں میں لوگ جب شادی کر تے تھے تو دولہا دُلہن کے کپڑے اور زیورات یہاں کسی محفوظ مقام پر رکھ جاتے تھے۔ ان کی موت کے بعد ان کے لواحقین یہ کپڑے اور زیورات انہیں دوبارہ پہنا کر اسی زمین دوز عمارت کے کسی حصے میں چھوڑ جاتے تھے۔
میں نے اس حماقت اور جہالت سے لبریز روایت پر ہنسنا چاہا پر میں ہنس نہ سکی۔ ہنسی میرے گلے میں مچھلی کے کسی کانٹے کی طرح پھنس گئی تھی۔ وہ بدنصیب دُلہنیں اور دولہے میرے سامنے آکھڑے ہوئے تھے جن کی ہڈیاں یہیں کہیں پڑی ہونگی۔ کیا انہوں نے پہنے اوڑھنے بننے سنورنے کے خواب نہ دیکھے ہوں گے۔ ایک دن کی بیاہی دلہنیں جن کے سینوں میں جانے کیے کیسے بھانپڑ مچے ہوں گے۔ جب روایات سے بند ھے ہاتھوں نے اِن نوخیز تنوں سے زیورات اُتارے ہوں گے۔ آنسو آنکھوں سے ٹپکے ہوں گے۔ اور کیا پتہ کسی منچلی نے‘ کسی شوقین مزاج نے ‘صرف دوبارہ یہ کپڑے اور زیور پہننے کے شوق میں ہی موت کی تمنا کی ہو اور خود کشی جیسی ظالم شے کو سینے سے لگایا ہو۔
بوبر گاؤں میں آباد ابدو قبیلے کی ایک اور خوفناک روایت اب چرواہے کے ہونٹوں پر تھی۔ اس برادری کا کوئی شخص جب مرتا ہے تو ایک شب پہلے اس کھنڈر سے ڈھول بجنے کی آواز آتی ہے۔ رشتہ دار اس کے مرنے کا انتظار کئے بغیر قبر کھودنا شروع کر دیتے ہیں۔
یامین نے بحث کی۔
‘‘بابا اگر وہ بچ جائے تو۔’’
‘‘بابو ایسا کبھی نہیں ہوتا’’۔ چرواہے نے اس کی بات کاٹ دی تھی۔ ڈھول کی آواز موت کی پیش گوئی ہے۔
‘‘اللہ کے ساتھ شرک کرتے ہو’’۔
میں نے فوراً یامین کا ہاتھ پکڑ کر خفگی سے کہا۔
‘‘احمقوں والی باتیں مت کرو۔ عقیدہ ہے ان کا۔’’
ڈمورا اپنے اندر کیسے کیسے خوفناک اسرار چھپائے ہوئے ہے۔ شاید یہی وجہ تھی کہ یہاں غیر ملکیوں کی آمد و رفت کا بڑا غلغلہ رتہا ہے۔
ڈمورا کی اس یادگار کو دیکھنے کے بعد ہم جب اپنے اس عزیز کے گھر آئے دُوپہر کے سائے ڈھل گئے تھے۔ تاجدار خان نے واپسی کے لئے کہا تھا۔ یامین کا خیال تھا آگے ‘‘یاسین’’ کی طرف نکلتے ہیں۔ لیکن تاجدار خان نے انکار کرتے ہوئے کہا۔
‘‘چھوڑو یار پھر کبھی سہی۔’’
ہم لوگ رات ڈھلے واپس سنگل اپنے گاؤں آگئے۔
مجھے شدید غصہ تھا۔ دادی یاسین جانے کی تمنا اس آکاس بیل کی طرح تھی جو وقت کے ساتھ ساتھ میرے دل میں پھیلتی ہی جا رہی تھی۔
میرے حالات نے یاوری کی تھی مگر تاجدار خان پہار کی چوٹی سے ڈھلکا ہوا گلیشیر کا وہ تودہ بن گیا تھا جو اچھے بھلے رواں دواں دریا میں گر کر اس کے بہاؤ کے سامنے بند لگا دیتاہے۔ مجھے سمجھ نہیں آتی تھی اس نے ایسا کیوں کیا؟
میں کھانا کھائے بغیر سوگئی تھی۔
میری پلکوں کی چھاؤں میں آرام کرتی وہ سب کہانیاں جو میں ‘‘وقتاً فوقتاً ’’پڑھتی اور سنتی آئی تھی’ دھیرے دھیرے میری آنکھوں میں اترتی آئیں۔
پتہ نہیں یہ رات کا کونسا پہر تھا جب میں وادی یاسین کے مشہور گاؤں تھوداس کے قلعہ ڈور کھن کی بھول بھلیوں میں تاجور خان کو ڈھنڈوتی پھر رہی تھی؟ وہ پتہ نہیں کہاں تھا؟ میں اسے آوازیں دئیے جا رہی تھی۔
میری آنکھ کھل گئی۔ رات بہت تاریک اور خوفناک تھی۔ ڈر کر میں نے چہرہ بازوؤں میں چھپا لیا۔
نیند کا ہلکورا آیا تو میں پھر اس کے ساتھ تھی۔ درہ تھوئی میرے قدموں کے نیچے تھا۔ میرا دل چاہا میں واخان کی پٹی میں داخل ہو جاؤں۔ مایون پرندے کے اس گیت کو سنوں جو وہ چترال کی وادیوں میں بہار کے دنوں میں سنُاتاہے۔
میری ساری رات اضطراب میں کٹی تھی۔ جان لیوا اور گھائل کر دینے والا اضطراب۔ صبح روشن اور چمکدار تھی پر میرے لئے عجیب سی اداسی میں ڈوبی ہوئی۔ میں ناراض تھی۔ میرے گال یوں پھولے ہوئے تھے جیسے کسی نے ان میں مٹھی مٹھی بھر مکئی کے دانے بھر دئیے ہوں۔ دن میں دوبار سامنا ہوا۔ پر میں نے نظر اٹھا کر اس کی طرف نہیں دیکھا۔
اگلے دن دوپہر کو میں باغیچے میں شفتل (جانوروں کا چارہ) اور مکئی کے ڈنٹھل دھوپ میں سوکھنے کے لئے پھیلا رہی تھی تاکہ انہیں سکھا کر سردیوں کے لئے محفوظ کر لیں جب تاجدار خان وہاں آیا۔
میں بے نیازی سے کام کرتی رہی اور وہ میرے قریب کھڑا مجھے دیکھتا رہا۔ پھر اس نے کہا۔
‘‘ملکہ تم مجھ سے ناراض ہو’’۔
میرے جذبات اور احساسات کی شدت آنسوؤں کے موتی بن کر میری آنکھوں میں چمکنے لگی۔ تاجدار خان نے انہیں دیکھا اور حیرت زدہ ہو کر بولا۔
‘‘تمہارے دل میں جو کچھ ہے مجھے بتاؤ’’۔
چمکتے موتی میرے رخساروں سے پھیلتے میری چادر میں آگرے تھے۔ میں نے دھیمی آواز میں کہا۔
‘‘میں اس آسمان’ زمین’ درختوں ‘پرندوں اور جگہوں کو دیکھنے کی آرزو مند تھی جو میری اس چھوٹی سی دنیا سے مختلف تو نہیں پر نئے ضرور تھے۔ مگر تم نے مجھے یہ سب دیکھنے نہیں دیا۔
تاجدار خان گم سم کھڑا تھا۔ کتنی دیر وہ ایسے ہی کھڑا رہا۔ پھر جُھکا۔ شفتل کے گھٹے پر دھرے میرے ٹھنڈے ہاتھوں پر اس نے اپنے سنہری بالوں والے سخت ہاتھ رکھے اور یوں بولا جیسے چیری کے درختوں سے پھول گر رہے ہوں۔
‘‘مدتوں بعد اپنی سرزمین پر لوٹا ہوں۔ اس لئے چپے چپے کو دیکھ کر اپنی آنکھوں کی پیاس بجھانا چاہتاتھا۔ پر میں اور یامین کراچی جیسے ترقی یافتہ شہر میں مدتوں رہ کر اپنی معاشرتی اقدار کو بھول سے گئے تھے۔ تمہیں ساتھ لے جانا تو مناسب ہی نہ تھا۔
وہ رکا’ پھر مسکراتے ہوئے میری آنکھوں میں جھانکا اور بولا۔
پر میں وعدہ کرتاہوں کہ نئے آسمان ‘نئی زمینیں ‘نئے رنگ و روپ تمہاری معیت میں ہی دیکھوں گا۔ بہت جلد۔
پھر وہ اٹھا‘ مڑا اور باغیچے کی چار دیواری سے باہر نکل گیا۔ بیرونی دروازے تک پہنچنے کے لئے اس نے انیس قدم اٹھائے تھے۔ اعتماد عزم اور حوصلے سے بھرے پرے یہ قدم سکندر اعظم کے ان قدموں جیسے ہی تھے جب وہ اپنے گھر سے دنیا کی تسخیر کے لئے نکلا تھا۔
کوئی ہفتے بعد ایک جوڑا ہمارے گھر آیا۔ تاجدار خان کا بھائی اور بھاوج ‘اس کی یہ بھارج خوبصورت تو تھی پر آنکھوں سے مار کھا گئی تھی۔ باز جیسی مدقوق آنکھیں جو دیکھنے والوں کو خواہ مخواہ ہی عجیب سی کوفت کا احساس دلاتی تھیں۔
یامین کی موجودگی نے ہر مسئلے کو عمدگی سے حل کر دیا تھا۔ یہ طے ہوا تھا کہ جونہی فصل کی کٹائی وغیرہ سے فرصت ملے ‘شادی کی رسم ادا ہو جائے۔
مان سنگل کی کپڑے کی ایک دوکان سے میرے لئے سفید سوتی کپڑا خرید کر لائی تاکہ اس پر مقامی رواج کے مطابق کڑھائی کر کے اسے عروسی جوڑا بنایا جائے۔ یامین نے اسے دیکھ کر کہا ‘‘ہٹاؤ اس کفن کو۔ میں تواِسے سرخ جوڑے میں رخصت کروں گا’’۔
اخروٹ اور انگور پک گئے اور جونہی ان کی اترائی کے دن شروع ہوئے۔ یامین نے اس کام میں خاص دلچسپی لی۔ اخروٹوں کو بوریوں میں اور انگوروں کو ٹوکروں میں بھر کر وہ انہیں گلگت شہر لے گیا۔ جہاں ان کی فروخت سے اس نے معقول پیسے کمائے۔
میں نے اس سرخ ریشمی کپڑے کو جو یامین میرے لئے لایا تھا دن کی تنہائیوں میں ہزار بار دیکھا تھا۔ سَر سَر کرتے ریشم جیسے ا سکے وجود پر ہاتھ پھیرے تھے۔ اپنے جسم کے گرد لپیٹ کر اپنے آپ کو تاجدار خان کی آنکھوں سے دیکھتے ہوئے خود پر واری صدقے ہوئی تھی۔
جس دن اس کی کٹائی ہوئی ‘آنگن میں میری سکھیاں اور رشتہ دارنیاں جمع تھیں۔ فراک نما قمیص’ شلوار’ چادر گلے اور بازوؤں کے کفوں پر خوش رنگ دھاگوں سے کڑھائی کی۔ چادر ‘کو فیتہ لگایا۔ ٹوپی کو نفیس کڑھت سے مزین کیا۔
اکتوبر کا درمیانی ہفتہ شادی کے لئے طے پایا۔ رشتہ داروں کو سدا بھیجا گیا۔ یہ میرے بابو کے گھر کی پہلی شادی تھی۔ عزیزوں نے پندہ (شادی کے لئے نقدی ‘جنس کپڑا) میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ میری پھوپھی من گندم اور کپڑوں کا جوڑا لائی تھی۔ دونوں چچا دو بھیڑوں اور تین بکریوں کے ساتھ آئے تھے۔ خالہ پندرہ سیر چاول’ بیس روپے اور پٹھور (خشک خوبانی) کا ٹوکرہ لائی۔ بیاہ کی تقریب کا آغاز ہو گیا تھا۔
اندر باہر مہمانوں کی گہما گہمی تھی۔ تاجدار خان بارات کے ساتھ ہمارے گاؤں پہنچ چکا تھا۔ بارات کش (بارات کے ٹھہرانے کے لئے ایک گھر مخصوص کیا جاتاہے) میں مقیم تھی۔
آنے والے دنوں کے حسین تصورات نے میرے وجود کو دھنک رنگوں سے سجا دیا تھا۔ میں یوں چمکتی تھی جس طرح مرغ زریں کے جسم پر حسین رنگی کلغی لشکارے مارتی ہے۔ میرے بھائیوں نے گھر کی دیواروں میں جگہ جگہ روخ (لکڑی کے چراغ) لگا دئیے تھے۔ان کی تیز بھڑکتی روشنیوں میں عورتوں کی پیشانیوں پر لٹکتے سلسلے (چاندی کا زیور جو ٹوپی کے ساتھ سلا ہوا ہوتا ہے) کس قدر چمک رہے تھے۔
رات کا کھانا خمیری روٹی اور گوشت کے شوربے پر مشتمل تھا۔ کھانے کی سینیاں ابھی اٹھائی بھی نہ گئی تھیں کہ باہر ڈوم (ناچنے بجانے والے) لوگوں نے ڈھول کھڑکانے اور سر نئی بجانی شروع کر دی تھی۔ اس آواز نے گویا کھلبلی مچا دی۔ رسم تاؤ کی تیاریاں شروع ہو گئیں۔ آنگن کے ایک کونے میں پڑتل کی لکڑیاں جلا دی گئیں۔ بھڑکتے شعلوں کی روشنی میں رقص وموسیقی کا کھیل شروع ہو گیا۔
بابو ہنستے ہوئے چہرے کے ساتھ دائرے میں آیا۔ اس نے اپنی چھوٹی بہن محبوب النساء اور اس کے شوہر کو رقص کی دعوت دی۔ میری پھوپھی کا عنابی سوٹ ‘اس کے گلے میں چمکتا مشٹی (گلے کا زیور) کانوں میں ہلکورے کھاتے چاندی کے کسوار بالے سینے پر سجے طوطے (بروچ نما زیور) ان طوطوں سے لٹکتے لونگوں کے ہار‘ ان ہاروں میں الجھتی پھنستی اس کی دو چوٹیاں‘ آنکھوں میں گلابی کاجل کے ڈورے‘ سبھوں نے مل جل کر اسے کوہ قاف کی پری بنا ڈالا تھا۔
اور میں کھڑکی سے اُسے دیکھتے ہوئے سوچتی تھی کہ خالی خولی حسن سردیوں کی چاندنی راتوں جیسا سوگوار ہوتا ہے۔ بناؤ سنگھار اور آرائشی چیزیں اسے گرما کی چاندی رات بنا دیتے ہیں‘ جسے دیکھنے اور سراہنے کے لئے ہر کوئی باہرنکلتاہے۔
میرے پھوپھا چمکدار چوغے پر سرخ کمر بند (ٹپکا) باندھے سر پر توا رکھے رقص کرتے ہوئے جونہی دائرے میں داخل ہوئے ‘سیٹیوں اور تالیوں کا وہ شور مچا کہ کان پھٹنے والی بات ہو گئی تھی۔ لڑکے پھڑکتے گیت گا رہے تھے۔ توا میری پھوبھی کے ہاتھوں پر آگیا تھا۔ وہ اسے رقص کے انداز میں صحن کے چولہے تک لے گئی۔ اسے اس پر رکھا۔ تین بار اُس پر سوکھا آٹا ڈالا پھر واپس ناچتے ہوئے دائرے میں مل گئی۔ اب باقی لوگ باری باری دائرے میں آکر اپنے کمال دکھا رہے تھے۔
رات ختم ہو رہی تھی۔ پر نہ ساز بجانے والوں نے ہمت ہاری تھی اور نہ ہی لوگوں کی ٹانگوں نے تھکن کا اظہار کیا تھا۔ قہوے اور نمکین مکھن والی چائے کا دور چل رہا تھا۔ جب کہیں صبح کا ستارہ آسمان کے سینے پر چمکا تب محفل اپنے اختتام پر پہنچی۔
دھوپ اچھی طرح پھیل گئی تھی اُس وقت تلاؤ گی کی رسم ادا ہوئی۔ میں ساری رات جاگتی رہی تھی۔ صبح کے قریب آنکھ لگی تو سرنئی بجانے والوں نے ایسی ایسی دلکش دھنیں بجائیں کہ فوراً آنکھیں کھول کر اُٹھ بیٹھی۔ گھر کا ہر فرد اپنی جگہ ساکت بیٹھا یا کھڑا یہ دھن سن رہاتھا۔ پندرہ بیس منٹ تک یہ دھنیں بجیں۔ ان کا مقصد رات بھر کے جاگے ہوئے لوگوں کو تازہ کرنا تھا۔
دوپہر کو تاجدار خان اپنے بھائیوں اور چچاؤں کے ساتھ ہمارے گھر داخل ہوا۔ میں نے اسے نہیں دیکھا میری چھوٹی بہن بتاتی تھی کہ وہ سفید شلوار ‘ریشمی چمکدار سفید قبا ‘کا مدار کھسے‘ اور کلاہ میں اتنا خوبرو لگ رہا تھا کہ مان نے آگے بڑھ کر اس پر پھونکیں ماریں کہ وہ نظر بد سے محفوظ رہے۔ رشتہ دار عورتوں نے انہیں اونی دری پر بٹھایا اور اشپری کی رسم شروع ہو گئی۔ لکڑی کی تھالیوں میں پتلے پتلے پھلکے جن پر دیسی گھی پگھلا کر ڈالا گیا تھا‘ ان کے آگے رکھے گئے۔ رواج کے مطابق انہوں نے تین تین نوالے توڑے اور کھائے۔ تاجدار خان پرمیدانی علاقوں میں رہنے کا اثر تھا۔ اُس نے اُس پلیٹ میں جو میری بہن لائی تھی پانچ کا نوٹ رکھا تھا۔
‘‘یہ تمہارے لئے ہے’’۔ وہ محبت سے اس کی طرف دیکھ کر مسکرایا تھا۔
میری بہن تھالی اور نوٹ اٹھاکر بھاگتی ہوئی آئی اور مجھ سے چمٹ گئی۔ اس کا چہرہ تپ رہا تھا اور بار بار کہے جاتی تھی۔
‘‘گاکی (بہن کو بلاتے وقت) تاجدار گاکو یامین سے بھی اچھا ہے’’۔
دراصل ان دنوں تھالیوں میں پیسے رکھنے کا رواج نہیں تھا۔ تاجدار کی اس حرکت کو سبھوں نے پسندیدگی سے دیکھا تھا اور اسے دریا دل کا نام دیا تھا۔
پورے گاؤں کا ایک ایک فرد کھانے پر مدعو تھا۔ سینیوں میں گوشت کا شوربہ ‘اس میں ڈالی گئی خمیری روٹیوں کے ٹکڑے اور بوٹیاں یہ بابو جیسے غریب آدمی کی بیٹی کی بارات کا کھانا تھا۔ نکاح ہوا۔ تاجدار خان قبول ہے‘ قبول ہے‘قبول ہے‘ ان الفاظ کی تکرار یوں ہوئی کہ میرا سریر پگھل کر کھولتا ہوا وہ پانی بن گیا جس میں تاجدار خان کے نام کی پتی ڈالی تو قہوے کی دم اڑاتی مسحور کن خوشبو نے مجھے پاگل سا کر ڈالا۔
‘‘ہاں’ ہاں’’۔
میرے ہونٹوں نے اونچی آواز میں کہنا چاہا پر جیسے کسی غیر مری طاقت نے میرے ہونٹوں پر اپنا ہاتھ رکھ دیا۔
شاید جذبے شدت پکڑ جائیں تو انسان پر پاگل پن کے دورے سے پڑنے لگتے ہیں۔ حواس کی گم شدگی شروع ہو جاتی ہے۔
سرخ جوڑا کیا پہنا ‘میں چنار کا سرخ پھولوں سے لدا ہوا درخت بن گئی تھی۔ سلسلے کی زنجیروں نے میری پیشانی پر گویا تاج سجا دیا تھا۔ دائیں بائیں سینے پر صدف کے ساتھ لونگ کے لٹکتے ہاروں کی خوشبو میرے نتھنوں میں گھستی ہوئی بہت سے پیغام دے رہی تھی۔ مشٹی کا زیور میرے گلے میں پہناتے ہوئے میری گہری دوست زینب نے کہا تھا۔
‘‘تو خوش قسمت ہے ملکہ ‘جسے چاہا اسے پا لیا۔’’
‘‘اپنا چہرہ دیکھو’’ لطف النساء بولی۔ پنور کی سبز پری نظر آتی ہو جسے ترکستان کا گلفام شہزادہ بیاہنے آیا ہے۔
باہر میری بہنوں اور بھائیوں نے اودھم مچا رکھا تھا۔ وہ نال (دلہن کے ساتھ جانے والے لوگ) میں شامل ہونے کے لئے ضد کر رہے تھے اور مان انہیں ڈانٹتے ہوئے کہہ رہی تھی۔
‘‘کمبختو دم لو۔ سارا گھر نال بن جائے گا تو رشتہ دار کیا کہیں گے’’۔
میں رونا چاہتی تھی۔ لیکن میرے دل کی زمین خوش رنگ پھولوں سے یوں کھلی ہوئی تھی کہ اگر چند لمحوں کے لئے مان’ بابو اور بہن بھایوں سے جُدا ہونے کے دکھ بھرے احساس کا کوئی چھینٹا ان پر گرتا بھی تو پتہ ہی نہ چلتا کہ وہ کہاں گیا ہے؟

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply