داستانِ زیست۔۔۔محمد خان چوہدری/قسط3

گزشتہ سے پیوستہ

اس کا ہاتھ پکڑ کے پیار سے کہا، ہوٹل میں پرسوں لنچ پہ  ملاقات رکھ لیں لیکن تم ساتھ ہو گے،
سر کل پہ رکھیں ، دن اوپر ہوتے جارہے ہیں، میں نے سنا ہے تیسرا مہینہ لگ جائے تو ابارشن میں جان کو خطرہ  ہوتا ہے،
اب اس کے بھول پن پہ  پیار آ گیا، پیار سے کہا، کل اسلام آباد جانا ہے ایمبیسی انٹرویو ہے۔۔۔تم شاہ جی ہو دعا کرنا، میڈم سے کہنا وہ بھی دعا کرے اور شام کو ایک بلیک کی بوتل مجھے چاہیے،
سر! وہ تو مل جائے گی، آپ پرسوں فرحی سے ملیں گے ناں ، میں نے اسے کنفرم کرنا ہے۔
ہنستے ہوئے ، دفتر جاتے ، پیدل چلتے ، کہا ، یار کوئی  ڈیٹ تو نہیں  ہونی ، جو اتنے فکر مند ہو !
اس کے چہرے پر مکارانہ مسکراہٹ تھی، جب اس نے یہ کہا، سر کیا پتہ ۔۔۔ ایسا بھی ممکن ہے۔

تیسری قسط!

خالد شاہ پکا پنڈی وال ہے اس کو وفادار ماننا چاکلیٹ میں سنکھیا کھانے کے مترادف ہے۔شیزان سے نکل کے سڑک کراس کرنے لگے تو اس نے ہاتھ پکڑ لیا، سامنے جی پی او کے گیٹ کے ساتھ ٹانگے
کھڑے تھے، کوچوان لال کرتی، ڈھیری حسن آباد، اور کچہری کی سواریاں بٹھانے کو ہاکرے لگا رہے تھے، ایک کوچوان لپک کے شاہ سے بغلگیر ہوا، اس کے ٹانگے میں ایک فیشنی برقعے میں مستور لڑکی پچھلی سیٹ پر بیٹھی تھی، اُس نے بھی نقاب اٹھا کے شاہ کو سلام کیا، ہم یہ دیکھتے فٹ پاتھ پر چلتے رہے، خالد شاہ بھاگ کے ہم قدم ہوا ،اُس نے جلدی سے کہا، سر پرسوں دو بجے ہوٹل میں فرحی سے ملاقات بھولیے  گا نہیں  !
بغیر جواب دیئے ہاتھ کے اشارے سے اسے بائے  بائے  کرتے ہم مال روڈ کراس کرنے لگے تو اس نے خدا حافظ کی دعا دی، ویسے کلب بلڈنگ میں ہمارے آفس اور اُس کے ہوٹل کے درمیان یہی مال روڈ بارڈر تھی۔

Advertisements
julia rana solicitors
پنڈی کلب

آفس داخل ہوتے گھڑی دیکھی تو بارہ بج رہے تھے، ریسپشن پہ اطلاع ملی کہ جنرل مینجر صاحب تین بار طلب فرما چکے،
خالد شاہ، فرحی اور اس کی ستھیوں کے رومانس کو ذہن سے جھٹکا تو یاد آیا کہ اگلے ہفتہ کی بورڈ میٹنگ کا بریف اور ماہانہ اکاؤنٹس آج ہیڈ آفس بھجوانے ہیں، مزید فریش ہونے کے لئے واش روم گھسے، اپنے آفس سٹاف سے فائل پکڑی اور بڑے باس کے سامنے پیش ہو گئے۔
جی ایم صاحب راجہ صاحب محمود آباد کے خاندان سے اور آکسفورڈ سے پڑھے مارکیٹنگ کے سرخیل تھے۔پاکستان ٹوبیکو کمپنی کے مارکیٹنگ ڈیپارٹمنٹ کے ہیڈ رہ چکے تھے، ہمارا پراجیکٹ بھی گیس مارکیٹنگ کا تھا اور  انہیں کرنل صاحب کی جگہ جی ایم لگایا گیا تھا، سخت نوابی سٹائل کے پروفیشنل اور ماہر فن تھے۔ فیملی کراچی ہی مقیم تھی۔ یہاں صدر کے رہائشی ہوٹل میں رہتے، دفتر کے باہر ہم اکثر اکٹھے رہتے، شام ان کے سوویٹ پہ  محفل جمتی، اور دوست بھی شامل ہوتے ۔
صدر بازار کی سیر کرتے، شیزان پے کھانا کھاتے، کبھی اسلام آباد نکل جاتے، بہت شفیق مہربان دوست تھے۔لیکن دفتر میں سخت ڈسپلن سے پیش آتے، میٹنگ بارے بریفنگ ختم کی تو اچانک کہنے لگے۔۔۔۔تم کن ہواؤں میں اُڑ رہے ہو ؟ آج کل لگتا ہے کہیں انوالو ہو ۔۔۔
اس سے پہلے کہ ہم جواب دیتے ، یہ حکم جاری کیا کہ میٹنگ بریف کے پانچ سیٹ بنا کے ہیڈ آفس آج پہنچاؤ،ہلکی سی مُسکان سے یہ بھی کہہ دیا ، شام کو اکیلے آنا، ٹی وی والے دوستوں سے معذرت کر لینا، آتے ہوئے۔۔۔۔
اپنے دوست کے ہوٹل سے دو بلیک لیبل لیتے آنا، Now you can go ,۔
یہ راجہ اور نواب جتنے بھی بے تکلف دوست ہوں، گاہے گاہے آپکو آپ کی اوقات ضرور یاد دلاتے ہیں !
پنڈی پیروں کا شہر ہے، ایک مشہور پیر صاحب جن کا مزار پرانے صرافہ بازار کے ملحق موجود ہے اُن کے بارے میں مشہور ہے کہ انکے آبائی  گاؤں میں دوسرے پیر سے گدی نشینی کا مناقشہ ہوا، وہ دستبردار ہوئے ، وہیں زیر زمین چلے گئے اور پنڈی پہنچ کے نمودار ہوئے، مقام غیابت ابھی تک موجود ہے ہم اس کی زیارت کر چکے ہیں۔
کچھ اسی طرح ہم بھی جینیز مندر لاہور کے سامنے واقع ہیلی کالج کے ہاسٹل سے ایم کام کا امتحان دینے کے بعد زیر زمین یا سطح زمین پر تیرتے سیدھے پنڈی کینٹ میں نمودار ہوئے ہارلے سٹریٹ میں پہلا آفس اور لالکڑتی سے ملحق خادم حسین روڈ پر رہائش، ملازمت تو تعلیم کے سبب ملی لیکن اتنے پوش علاقے میں رہنے کو ڈیڑھ سو روپے ماہانہ کرایہ پر مکان وہ بھی سیمی فرنشڈ، ایک معجزہ ہونے سے کم نہیں تھا، اس گھر میں ہمارے عزیز عرصہ بیس سال سے مقیم تھے۔
اچانک ان پہ امارت نازل ہوئی ، سٹیٹس کے مطابق بچوں کی شادیاں کرنے کی خاطر ویسٹریج میں “بڑا بنگلہ” لیا۔۔۔
وہاں شفٹ ہو رہے تھے کہ ہمارا ورود ہوا اور پرانا گھر پرانے کرایہ پے ہمیں مل گیا اور لالکڑتی میں ہمارا ڈیرہ کینٹ کے مشہور مقامات میں اور ہم مشہور شخصیات میں شمار ہونے لگے۔
فوکس ویگن بیٹل کار سرُخ رنگ سڑسٹھ ماڈل تب ہمارے پاس تھی، جس پہ  آفس آنا جانا ہوتا باقی چکوال جانا اور دیگر سفر کے لئے پیمنٹ پر دفتر کی گاڑی بمعہ ڈرائیور دستیاب ہوتی،
شام کو اکثر ٹانگے پر صدر آتے اور جی ایم کے ساتھ انکی سرکاری گاڑی میں پھرتے ، کیونکہ رات کو واپسی کے حالات ڈرائیو کرنے کے نہیں رہتے تھے، اور ہمیں بحفاظت گھر پہنچانا باس یا دوست کا فرض ہوتا۔
اُس روز بھی اسی طرح صدر آئے، ہوٹل سے ڈرنک اٹھائی  اور خالد شاہ نے ہوٹل کی گاڑی پہ باس کی رہائش گاہ پہ  ڈراپ کروا دیا، راجہ صاحب برآمدے میں آرام کرسی پر مطالعہ میں مصروف تھے،
باپ اور باس سے نہ کچھ چھُپ سکتا ہے نہ ایسی کوشش کرنی چاہیے، جھُوٹ تو فوراً پکڑا جاتا ہے۔
دو تین پیگ کے بعد فرحی والی ساری کہانی بلا کم و کاست بیان کر دی، جس پر وہ پائپ میں تمباکو اور گلاس سے ڈرنک پیتے ہمہ تن گوش رہے، نہ کوئی  کمنٹ، نہ تادیب نہ مشورہ ، بلکہ مجھے غور سے دیکھتے رہے، جیسے ساتھ تجزیہ کر رہے ہوں۔
اچانک کہنے لگے یہ تمہارے جاب سے استعفی دینے کی ہیڈ آفس میں خبر سچ ہے کیا !
مجھے تو شاک لگ گیا، خیر ہمت کر کے بتایا کہ یہ آپکے علم میں ہوگا کہ میری پھر پروموشن ہو رہی ہے۔۔۔جہلم مل میں اکاؤنٹس چیف کی جگہ خالی ہے، مجھے عہدہ تو ڈپٹی چیف کا مل سکتا ہے کہ سارے چیف چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ ہیں، کام چیف کا ہو گا، بنیادی تنخواہ پچیس سو روپے ، رہائش اور گاڑی ،
ہنکارا بھر کے بولے ، یہ تو گریڈ اٹھارہ کے سرکاری افسر کے سکیل سے بھی زیادہ ہے، تو مسئلہ کیا ہے ؟۔۔۔۔
میں نے انکے خالی گلاس میں پیگ بنایا اور عرض کی، وہاں تین ہزار سے زائد لیبر اور سٹاف ہے،انکے یونین پرابلم ہیں۔
مجھے کل اسلام آباد ایک ایمبیسی جانا ہے، وہ پینتیس سو بنیادی پے اور دیگر سہولیات دیں گے، بیس پچیس ملازم جن میں تین خواتین اور پانچ ڈپلومیٹ بس ، اسلام آباد میں رہنا ، سر جی ۔۔
مجھے اچانک خیال آیا کہ نئے سوٹ کی میچنگ شرٹ اور ٹائی  خریدنی ہے، باس کو کہا صدر بازار چلتے ہیں ، کھانا بھی کھا آتے ہیں ۔
وہ تیار ہوئے گاڑی نکالی ، بنک روڈ پے ریڈی میڈ ڈریسز کی دکان کے سامنے پارک کی، اتُرے تو سامنے خالد شاہ، فرحی اس کی دوسری کولیگز، دو اور حضرات، قہقہے لگاتے یکدم دکان سے نکل کے سامنے آ گئے، خالد شاہ نے پورے فوجی انداز میں سلیوٹ ٹھوک دیا۔۔۔
جاری ہے!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply