آدھا انسان/ مصنف : رشی خان / تبصرہ نگار : صادقہ نصیر

کتاب کے پس منظر میں پہلے مصنف ہوتا ہے ۔ لہذا کتاب پر تبصرہ اور تعارف سے پہلے مصنف کا تعارف ضروری ہے اور اس کا حق ۔
مصنف رشی خان خود ہی صفحہ 15 پر اپنا تعارف کراتے ہوئے لکھتے ہیں۔
” میں ہوں رشی خان ” اور یوں وہ تبصرہ نگار اور قاری کے لئے سہولت پیدا کر دیتے ہیں ۔ اور اس سلسلے میں انہیں کسی اور کی خوشامد کرکے مدد لینے کی ضرورت پیش نہیں آئی اور یہ انداز بیان مجھے ذاتی طور پر بہت پسند آیا ۔ اسی طرح ان کی کتاب میں خلاف روایت کسی قد آور مصنف کا اظہار خیال نظر نہیں آیا ۔ مصنف نے شروع سے آخر تک سب کام خود ہی کیا ہے ۔ جو ان کی خود اعتمادی ، راست بازی اور مقصدیت پسندی کی دلیل ہے ۔ وہ اپنے لکھے پر مطمئن ہیں اور اس کی ترسیل اور فروغ کے لئے بے پرواہ ہیں اور وہ جانتے ہیں کہ کتاب لکھی ہے تو پڑھی بھی جائے گی اور اس کا ابلاغ بھی ہوتا رہے گا ۔
قاری کا فرض ہے کہ فروغ کتاب کے لئے اپنا فرض نبھاۓ ۔۔ میں جو کتاب پڑھتی ہوں اس کا ذکر کرنا اور اس کتاب کا تعارف کروا کر لوگوں کو ترغیب دینا اپنا فرض سمجھتی ہوں ۔ اسی ذمہ داری کے تحت اس کتاب کو پڑھا اور تعارف قارئین کی خدمت میں حاضر ہے ۔

مصنف رشید خان جن کا قلمی نام رشی خان ہے ، آبائی وطن لاہور پاکستان ہے ۔جو یکم فروری 1952 میں ماڈل ٹاؤن لاہور میں پیدا ہوئے. دیال سنگھ کالج پہنچے اور فزکس ، اور ہائر میتھ کی تعلیم جاری تھی کہ 1968 اور 1969 کی ایوب خان کے خلاف تحریک میں شامل ہوئے اور فنون لطیفہ کی طرف رغبت کی وجہ سے انجینئرنگ کی بجائے مصنف بن بیٹھے ۔

رشی خان

اس میدان میں اترے تو نثر ، سکرین رائیٹنگ ، صحافت ، اخبارات اور ٹی وی کو بھی وقت دیا ۔ روزنامہ” صدائے وطن” کی ڈپٹی ایڈیٹری کے دوران جیل میں جانا پڑا  اور رہا ہوکر واپس آئے تو روزنامہ “صدائے وطن” کی اشاعت جبری طور پر روک دی گئی ۔یہ مختلف راستے اپناتے برلن پہنچے اورپاکستان میں جمہوریت کی بحالی کے لئے تحریک کے سرگرم رکن بننے کے ساتھ قلم کا سہارا لیا ۔1981 میں ہفت روزہ ” انقلاب “لندن کے جرمنی کے ریزیڈینٹ ایڈیٹر کی ذمہ داری اٹھائی ۔
بحالی  ءِجمہوریت کے بعد پاکستان آ کر “ریزہ ریزہ کائنات” تخلیق کی اور نثرانوں پر مشتمل دو کتابیں “پردیس دیس” اور ” طناب جگر” کے ناموں سے شائع ہوئیں ۔شاعری کی تین کتابیں “موسم سرخ گلابوں کے” ، ” دارو رسن کے زمزمے” ” اور شہروں کو پرندے چھوڑ چلے ”
اس کے علاوہ ٹی کے لئے سیریل بھی لکھے ۔ ماہنامہ چترالی کے ایڈیٹر بنے ۔
اب تک کی مطبوعہ تصانیف گیارہ ہیں ۔
ریزہ ریزہ کائنات ، جس روز شہر میں قتل ہوا ، جناب بھٹو نے فرمایا ، پردیس دیس ،موسم سرخ گلابوں کے ، دارو رسن کے زمزمے ، طناب جگر ، شہروں کو پرندے چھوڑ چلے [شاعری] ، زینیا [ایک مکمل ٹیلی سیریل کا مکمل سکرپٹ] ، پردیس دیس کا ہندی ترجمہ ، اور ناول بت پرستوں کی نسلیں ، اور زیر نظر کتاب “آدھا انسان” ،

اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ رشی خان سیاست کے ایوانوں کی دھاندلیوں کے خلاف عملی طور پر نہ صرف متحرک نظر آتے ہیں ، بلکہ جیل بھی جھیلتے ہیں اور قلم کا جہاد بھی بذریعہ صحافت کرتے ہیں ۔ اور فنون لطیفہ کے تقریباً سبھی میدانوں کے پر اعتماد کھلاڑی ہیں ۔ اور سیاست کے علاوہ ادب کی اصناف کو برائے مقصد استعمال کرتے ہیں ۔ ان کی باقی کتب کا مجھے پڑھنے کا موقع نہیں ملا لیکن میرے مطالعے میں جو کتاب ہے اسے پڑھ کر بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ اپنی ہر ادبی کاوشِ کو سماجی شعور بیدار کرنے ، آگاہی دینے اور معاشرے کے ناسوروں کو صحتیاب کرنے کی ٹھانے ہوئے ہیں ۔ اور بہت پر عزم ، دبنگ اور بے باک اور بے لوث ہیں ۔
اب آتے ہیں زیر نظر کتاب “آدھا انسان” کے خصوصی جائزے کی طرف ۔

آدھا انسان : میں نے اس کتب کا جو کہ کہانیوں اور افسانوں کا مجموعہ ہے لفظ بہ لفظ مطالعہ کیا ہے ۔ شروع سے آخر تک یہ کہانیاں جگ کی کہانیاں ہیں ۔ شاید ہر انسان کی نظر سے یہ کہانیاں واقعات بن کر گزرتی ہوں  اور تجربات میں بھی ہوں ۔  ان کو افواہوں کی طرح زبان سے سناکر تماش بینی کے مزے لینے کے بجائے قلم کی روشنائی سے صفحات پر بکھیرا ہے تاکہ یہ کہانیاں فکر و شعور پیدا کریں اور صاحبان فکرو عمل ان کو اقتدار کے ایوانوں تک پہنچائیں،  جس سے  کم از کم کچھ فیصد لوگ ہی جاگ جائیں ۔ اور اس کتاب کے مصنف نے اس سوئے احساس اور شعور کو جگانے کا بھر پور فریضہ انجام دیا ہے ۔

کُل 14  کہانیوں پر مشتمل کتاب بہت فی البدیہہ انداز اور روانی جذبات میں اور شدید پر خلوص احساس کے اعتماد کے ساتھ لکھی گئی ہے ۔ عام طور پر تبصرہ پہلے صفحہ سے شروع ہوتا ہے لیکن مجھے آخری صفحہ پر رشی خان کی مندرجہ ذیل تحریر نے شدتِ حیرت سےچونکا دیا ملاحظہ ہو:
“خدا کے نمائندے!
“کہا خدا کے نمائندوں کو خبر نہیں کہ جب وہ منبر کی بلندی سے اتر کر ہم گناہ گاروں سے چندہ مانگتے ہیں تو خدا خوش نہیں ہوتا”
” کچھ نیا سیکھتے ہوئے جن لوگوں کو شر مندگی کا احساس ہوتا ہے ، انہیں جان لینا چاہیے کہ ان کی انا در اصل ان کی دشمن ہے “۔
” تاریخ بتاتی ہے کہ عورت کی جسم فروشی کی ابتدا بابل کی قدیم تہذیب میں مذہبی رہنماؤں نے اپنے دیوتاؤں کے اخراجات پورے کرنے کے لئے کی تھی “۔
” غلط ہیں وہ لوگ جو دوستی ، محبت یا کسی رشتے میں جان دینے یا جان لینے کی بات کرتے ہیں ۔۔ دنیا کی کوئی بھی اور شے ، کو ئی رشتہ یا تعلق انسان کی زندگی سے زیادہ قیمتی نہیں ہوتا ”
اس آخری صفحہ پر رشی خان کی ان مختصر سطروں میں پنہاں عظیم پیغامات کسی بھی صورت میں عالمی محبت کے پیغامات اور عالمی امن کے پیغامات سے کم نہیں ۔

مجھے امید ہے کہ بلکہ میں اس تعارفی تحریر کے ذریعہ کم از کم با شعور لوگوں کو پر زور ترغیب دیتی ہوں کہ اس کہانیوں کے مجموعے کی ہر کہانی کا ایک ایک لفظ پڑھنے کے قابل ہے ۔ معاشرے کی گھناؤنی منافقت سے جس طرح راست گوئی سے پردہ اٹھایا ہے وہ قابل تحسین ہے ۔جنس ، مرد کی جھوٹی جنسی زیادتی ، تشدد اور عورت ، عورت کی نفسیات اور مذہب کی سفاکی کیا کچھ نہیں ہے۔
رشی خان کہتے ہیں کہ یہ کتاب صرف ذہنی بالغوں کے لئے ہے ۔ لیکن میں نے اسے پڑھا تو لگا کہ یہ تو سکولوں کے نصاب میں شامل ہونی چاہیئے. تاکہ بچپن سے یہ شعور اجاگر ہوگا تو ذہنی بالیدگی کی توقع کی جا سکتی ہے ۔

اپنے کھلے ذہن اور بے باک قلم کی وجہ سے رشی خان میں منٹو اور عصمت چغتائی کا رنگ نظر آنے کے باوجود ان کا الگ انداز بیان ہے ۔
تیرہ افسانوں کی بات کرنے سے پہلے آخری افسانہ جو شاہکار افسانہ ہے ۔ جو ” امام مسجد اور جسم فروش عورت کا دہرا قتل” بادی انظر میں کرائم سٹوری ہے لیکن چشم کشا ہے ۔ اس افسانے میں ایک ون لائنر سوسائٹی کے اجتماعی شعور کو جگانے کے لئے قارئین کی نذر :
“ایک کم علم امام مسجد مذہب اور سوسائٹی دونوں کے لئے زہر قاتل ہوسکتا ہے”
کہ کس طرح امام مسجد معاشرے کے لوگوں سے شعور چھینتا ہے اور ثواب کے کے حصول کے لئے لوگ خدا بھی براستہ مولوی یا امام حاصل کر کے شخصیت پرستی کی لعنت اور گناہ کی بھینٹ چڑھتے ہیں ۔ اس افسانے میں بتایا گیا ہے کہ کہ کس طرح ایک پر امن رہائشی کالونی امام مسجد کی سرپرستی میں جرائم ، عصمت فروشی ، منشیات اور قتل غارت کی آماجگاہ بنی ۔ یہ افسانہ اہل ایمان کے قبلے درست کرنے کے لئے لازمی ہے پڑھا جائے بلکہ اس کو مشعل راہ بنا کر آنکھیں کھولی جائیں اور اس راہ ہدایت کو فروغ دیا جائے ۔ افسانے کی ہر لائن کی وضاحت کرنا کتاب کے ساتھ زیادتی ہے ۔ یہ کام قار ئین خود کریں ۔

اب آتے ہیں کتاب کی بقیہ کہانیوں کی طرف جن میں ہر کہانی عورت کے حقوق پر ہے اور خاص طور پر عورت کی نفسیات کے حساس پہلو یعنی عورت کے جنسی حقوق کی پامالی پر ہے ۔ اس مو ضوع پر مصنف نے بے باک اور کھلم کھلا لکھا ہے جس پر شاید ابھی تک کسی نے نہ لکھا ہو اور حیرت کا مقام ہے کہ مصنف نے مرد ہو کر عورت کو جنسی معاملات میں برابری کے حقوق اور ان حقوق کے لئے آواز اٹھانے کی جرا  ءت کی ہے ۔

دیگر افسانے بھی عورتوں کے معاشی حقوق ، تعلیم اور معاشرتی رتبے کو بلند کرنے کے علاوہ ان کی طاقت اور حوصلے کے جوہروں پر بات کی ہے کہ کوئی عورت جس کو نازک اور ناقص  الععقل سمجھ کر دھتکار دیا جاتا ہے وہ کتنی طاقتور ہو سکتی ہے اور بڑے بڑے مردوں کو پچھاڑ سکتی ہے ۔انہی افسانوں میں جس خاص موضوع کو چھیڑا گیا ہے اور عورتوں ،مردوں کو جھنجھوڑ کر آگاہی دی گئی ہے وہ ہے عورت کے کنوارپن کو اور باکرہ ہونے کو اس کے پردہ بکارت کے ساتھ منسوب کرنے کی جہالت دور کرنے کے لئے ظالمانہ اور سفاکانہ فیصلوں کی نفی کی گئی ہے ۔ اس ضمن میں افسانہ ” سہاگ رات کی سفید چادر” شاہکار افسانہ ہے ۔

عورت اور مذہب ان کے خاص موضوعات ہیں ۔ اور مردوں کے گھٹیا ذہن جو عورت کے بارے میں ہر فیصلہ خود کرتے ہیں اور ان فیصلوں میں شادی کے فیصلے ، کنوار پن کے فتوے ، گناہ سزا کے فیصلے اور معاشی اور ذہنی طور پر عورتوں کو کمتر جاننے اور دھتکارنے کے فیصلے اور مرد کے جنسی جنون اور اس سے منسوب جسمانی اور سفاکانہ جنسی تشدد پر بے باک قلم اٹھایا ہے ۔ اور اس طرح مصنف اپنی اس کتاب میں کہانیاں سمیٹ کر نسائی تحریک کے علمبردار دکھائی دیتے ہیں ۔ مذہب میں انہوں نے صرف اسلام ہی کو زیر بحث نہیں لایا بلکہ عمومی طور پر تمام مذاہب کی بات کی ہے کہ کس طرح کوئی مذہب سائنسی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ڈالتا ہے اور یہ کہ کسی بھی مذہب کی نئی نسل عقل کی کسوٹی اور شعور کی پرواز سے اپنے والدین کے ان دیکھے خداوں اور عقائد کو رد کرتی ہے ۔ اس بات کو انہوں نے اپنے افسانے “ایک سچے عیسائی اور خالص جرمن کا دل ” میں کیا ہے ۔ یہ افسانہ بھی بڑھنے کے لائق ہے ۔
اب مختصراً ان کہانیوں اور افسانوں کے نام قارئین کی خدمت میں پیش ہیں:
سہاگ رات کی سفید چادر
ابو صالح اور جوزفین
ایک سچے عیسائی اور خالص جرمن کا دل”
عورت کو غلطی کے حقوق
مردوں کا پردہ بکارت
کہاں گئی مردانگی؟
ایک بے بس بیوی کا بستر
کنواری لڑکی خریدنی ہے
تم ایک بے کار عورت ہو
بیوی کی بے وفائی مگر کیوں
دشمن کے بیٹے کی ماں وہ تو ایک نا مرد ہے
امام مسجد اور جسم فروش عورت کا دہرا قتل۔

پیش لفظ بہ عنوان “قارئین کے حضور” بھی ان کی عاجزانہ ، سادہ مگر پر اعتماد تحریر ہے جس کو بغور پڑھنا بھی ضروری ہے کہ اس میں افسانے پڑھنے سے پہلے ہی بہت کچھ سیکھنے کو ملتا ہے ۔انتساب بھی عورتوں کے حقوق کے زبردست حامی کا عکاس ہے ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

غرض آدھا انسان” سانجھ پبلی کیشن سے شائع شدہ رشی خان کی یہ کہانیوں کی کتاب ،کتاب کے شوقین افراد کی ذاتی لائبریری میں ایک خوبصورت علمی اضافہ ہونے کے ساتھ اپنے شعور کے ارتقاء کے شوقین اہل علم لوگوں کے لئے روشنی اور اہل ایمان کے لئے قبلہ درست کرنے کے لئے قطب نما ہے ۔
قیمت سات سو روپیہ
سانجھ پبلی کیشن کا رابطہ نمبر ۔923334051741
پتہ : سانجھ پبلیکیشن ،
46/2  مزنگ روڈ لاہور پاکستان

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply