کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ آپ جو پڑھتے یا سنتے ہیں وہ مکمل طور پر آپ کے ذہن سے پھسل کر دماغ کے کسی تاریک گوشے میں چھپ جاتا ہے، لیکن اس سُنے یا پڑھے میں سے ایک ادھ سطر ایسی ہوتی ہے جو غیر ارادی طور پر آپ کے دل و دماغ کو آکاس بیل کی مانند اپنے حصار میں لے لیتی ہے اور باقی چیزوں پر توجہ مرکوز کرنے کے باوجود آپ ان سطور یا جملوں کو بھلا نہیں پاتے۔ مصروفیت کے کسی بھی لمحے جب آپ کے سامنے ان موضوعات پر بات ہو تو غیر شعوری طور پر یہ سب جملے اور الفاظ بے ساختہ آپ کی زبان پر جاری ہو جاتے ہیں جنہیں سالوں آپ نے پلٹ کر بھی نہیں دیکھا ہوتا۔ گو کہ یہ الفاظ میڈوسا ( دیومالائی کردار) کی طرح نہیں ہوتے کہ آپ کو پتھر کا بنا دیں، مگر ایسی سطور آپ کو ایک مرتبہ مدہوش ضرور کر دیتی ہیں کیونکہ ان سے کئی اور چیزیں منسلک ہو چکی ہوتی ہیں۔
میں نے سالوں پہلے ایک انگریزی ناول “برائڈا” پڑھا تھا، مجھے اب شاید صحیح طرح اس کی کہانی بھی یاد نہ ہو مگر لاشعوری طور پر پہلی دفعہ مطالعہ کے دوران ہی کچھ سطور میرے دل و دماغ میں جم گئیں اور پھر موسم بدلے، کتابیں بدلیں، نئے تجربات سے آشنائی ہوئی مگر وہ لفظ ہمیشہ ذہن نشیں رہے، جیسے ایک جگہ لکھا تھا،
“Nothing in the world is ever completely wrong. Even a stopped clock is right twice a day.”
اب اس میں ایسا کیا تھا اس وقت احساس نہ ہوا لیکن یہ الفاظ سالوں گزرنے کے بعد آج بھی ذہن میں تازہ ہیں۔ اسی طرح ایک اور جملہ نہیں بھولتا اور یہ کسی مشعل کی طرح بعض مشکل لمحات میں میرے ساتھ رہا،
“There is only one thing that makes a dream impossible to achieve: the fear of failure.”
جیسے جیسے انسانی تخیل اور فہم نمو پاتا ہے ماضی کی کئی سطور جو آپ کو کبھی متاثر کرتی تھیں، بہت عام سی لگنے لگتی ہیں، لیکن باوجود اس کے نجانے کیوں وہ آپ کے ذہن سے مٹ نہیں سکتیں۔
بہت عرصہ پہلے ایک اور ناول “دی کائٹ رنر” پڑھا تھا اور اس پر بنی فلم بھی دیکھی تھی۔ وقت گزرا تو اس کی جگہ دیگر اور کتابوں نے لے لی، مگر اس کی کچھ سطور اب بھی ذہن سے مٹائے نہیں مٹتیں۔۔
“For you a thousand times over”
اس ایک سطر میں محبت، وفا، قربانی تو جھلکتی ہی ہے لیکن اس میں وہ تمام راستے بھی موجود ہیں جن کو کسی کی خاطر عبور کیا جا سکتا ہے۔ باقی جملے ایک طرف مگر یہ جملہ ہمیشہ میرے ساتھ رہا ہے۔ پھر اسی طرح شمس الرحمن فاروقی کا ناول “کئی چاند تھے سرِ آسماں” پڑھا تو اس میں کئی اقتباسات خاصے اہم محسوس ہوئے، مگر باوجود اس کے ایک سطر ذہن میں ابھی تک اٹکی ہوئی ہے۔ انہوں نے وزیر خانم کے لباس کے بارے بتاتے ہوئے لکھا،
“یہ منظر دیکھنے کےلیے شیر کا کلیجا اور تیندوے کی بےحیائی درکار تھی۔”
یعنی تجسس ہی تجسس، اتنا تجسس کسی کے لباس کے بارے کہیں نہیں پایا، حالانکہ کچھ لوگوں کے نزدیک لباس بذات خود ہی باعث تجسس ہوا کرتا ہے۔ اتنے وسیع معنوں پر مشتمل ایسے جملے بہت کم دیکھنے کو ملتے ہیں۔
جان کیٹس کی مشہور زمانہ نظم”Ode on a Grecian Urn” کس نے نہیں پڑھی ہو گی، ہر سطر ہی قابل توجہ ہے مگر کچھ سطور ایسے دل و دماغ پر حاوی ہوتی ہیں کہ انسان خیال در خیال، تخیل کی بے شمار وادیوں کو پار کر جاتا ہے۔
“Thou still unravish’d bride of quietness,
Thou foster-child of silence and slow time,
Sylvan historian, who canst thus express
A flowery tale more sweetly than our rhyme”
یہ سطور ایک ایسے جہاں میں لے جاتی ہیں جہاں خاموشی اور سکون، وقت کی تلخی اور انسانی حماقتوں سے پرے باہم بغل گیر ہوتے ہیں۔
” unravish’d bride of quietness”, “foster-child of silence” اور “Sylvan historian”
فقط اسی مثلث پر ہی غور کرنے لگیں تو سوچ کے کئی نئے در وا ہوتے ہیں اور انسان کہاں سے کہاں پہنچ جاتا ہے۔ یہاں ن م راشد یاد آ رہا ہے،
“یہ تین زاویے کسی مثلثِ قدیم کے
ہمیشہ گھومتے رہے
کہ جیسے میرا چاک گھومتا رہا
مگر نہ اپنے آپ کا کوئی سراغ پا سکے” ایسے ہی ان تینوں پر غور کرنا بھی بہت سے پردوں کا سراغ لگانے جیسا ہے۔۔
میں سوچتا ہوں کہ کیا شور اور خلفشار کے بیچ ہم اس خاموشی کی تعریف کرنے کی صلاحیت کھو چکے ہیں جو قدرت اور ذات کے شعور سے گہرے تعلق کی عکاسی کرتی ہے؟ فوری تسکین اور مختصر لمحوں کی رفاقت کے اس دور میں وقت کا ٹھہراؤ اور دھیما پن بہت اجنبی محسوس ہوا کرتا ہے۔ لیکن کچھ منظر بیتے وقت کے محافظ ہوتے ہیں۔ یہ سطور بعض اوقات مجھے باور کروانے کی کوشش کرتی ہیں کہ میں ان کہانیوں کو زیادہ توجہ سے سنوں جو ہمارے اردگرد پھیلی ہوئی ہیں؛ مگر الفاظ کی صورت میں نہیں، بلکہ فن اور فطرت کے بے شمار تاثرات کے ذریعے ان کہانیوں کو سمجھوں۔ آپ نے کبھی انسانی حالت اور تکمیل کی آرزو میں انسان کے لامتناہی تعاقب اور ان احساسات پر غور کیا جو اس لامتناہی تعاقب کے نتیجے میں پیدا ہوتے ہیں۔؟ یہ الفاظ مجھے احساس دلاتے ہیں کہ آرٹ، اپنی بے شمار صورتوں میں صرف خوبصورتی کا عکس یا تاریخ کا ذخیرہ نہیں ہے، یہ کائنات میں انسان کے مقام کو سمجھنے کی کلید بھی ہے۔ من کے شور میں خاموشی تلاش کرنا، بہ حالت انتظار، وقت کی دھیمی رفتار کی تعریف کرنا، اور ان ابدی کہانیوں کو گلے لگانا جو ہمیں تاریخ، آرٹ، فلسفے اور شعورت ذات سے منسلک کرتی ہیں؛ ان کے ذریعے ہی ہم جان پاتے ہیں کہ
“Beauty is truth, truth beauty,—that is all Ye know on earth, and all ye need to know.”
واقعی۔۔۔ خوبصورتی ایک سچ ہے اور سچ ہی خوبصورتی ہے،ذرا غور کریں کہ،
“Reading creates a complete human being, counseling creates a prepared human being, and writing creates an accurate human being!!
But
there is no perfect human being..
یعنی لکھنے، پڑھنے اور مشورت کے بعد بھی کسی انسان کی تکمیل نہیں ہوتی، سچ تک رسائی نہیں ہو پاتی تو پھر ایسا کون سا علم ہے اور کون سی تربیت ہے، جو انسان کو تکمیل کی سرحدوں تک پہنچا سکے، اگر ایسا ممکن نہیں تو پھر کاملیت کا بیج کیسے نمو پا سکتا ہے؟
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں