محبّت اور مکان۔۔جبیب شیخ

فجر روز بیٹے کو طعنے دیتی کہ اس کو باپ سے محبت نہیں ہے ورنہ وہ مکان بیچ کر اس کا علاج کرواتا۔ وہ مکان جو باپ نے عمر بھر ایک ایک پیسہ جمع کر کے کھڑا کیا تھا اور وہ اپنی آمدنی سے کبھی بھی نہ بنوا سکے گا۔ جب ماں یہ بات کہتی تو بیٹےکو محسوس ہوتا کہ اس کی اپنی ماں اس کے دل کو چاقو سے چیر رہی ہے۔ کچھ دن تو وہ ماں کے طعنوں کا جواب دیتا رہا لیکن اب اس نے ماں کے سامنے زبان پر تالا لگا لیا تھا اور آنکھوں کی آبشار پربند باندھ دیا تھا۔ اس بند کو وہ بعد میں غسل خانے میں جا کر توڑ دیتا۔ اس کو یہ فیصلہ کرنا تھا کہ وہ باپ کے علاج کے لئے مکان بیچے یا نہیں!

زاہد پر فالج گرے ایک سال گزر چکا تھا۔ اس کا آدھا جسم حرکت سے مفقود تھا۔ بول بھی نہیں سکتا تھا البتہ سننے اور دیکھنے کی کچھ صلاحیت اس میں باقی تھی۔ جب اس پر فالج گرا تو اسے تقریباً دو ہفتے ہسپتال میں رکھا گیا۔ بیوی، بیٹے اور بہو نے بہت دیکھ بھال کی اور ساری جمع پونجی ہسپتال اور دواؤں کے لاکھوں کے بل چکانے میں خرچ ہو گئی۔ جب زاہد کو ہسپتال سے رخصت کیا گیا تو ڈاکٹر نے بتایا کہ سرجر ی سے زاہد بہتر ہو سکتا ہے۔ اس کے علاوہ کچھ دوائیاں کافی عرصہ کھانا پڑیں گی اور فزیوتھراپی کروانی ہو گی ۔

اس چھوٹے شہر میں ایک   ٹوٹا پھوٹا   سرکاری ہسپتال تھا جس کے زیادہ تر شعبے بند ہو چکے تھے۔ اس کے علاوہ کوئی خیراتی ہسپتال بھی نہیں تھا۔ ایک اور ہسپتال کی زمین پر علاقے کے با اثرقومی اسمبلی کے رکن کی کوششوں سے ایک چھوٹا مگر فیشن ایبل مال بن چکا تھا۔ البتہ شہر سے کچھ دور ایک اچھا پرائیویٹ ہسپتال تھا جس میں زاہد کو فالج گرنے کے بعد رکھا گیا تھا۔

جب صبح زاہد کا بیٹا اور بہو سلام کرنے آتے تو اسے لگتا کہ وہ ابھی سچ مچ زندہ ہے۔ وہ دونوں زاہد کا ہاتھ پکڑ کر تھوڑی دیر کے لئے بیٹھتے اور باتیں کرتے اور پھر تیار ہو کر کام پر چلے جاتے۔ زاہد کی بیوی فجر تو وقت اور موسم سے بے پرواہ ہوچکی تھی۔ کبھی یہ مالش اور کبھی وہ سکائی، کبھی کوئی وظیفہ یا کوئی نئی دعا۔ اس 65  سال کی مضبوط عورت نے پورا وقت شوہر کی تیمارداری پر لگایا ہوا تھا۔ لیکن زاہد کی طبیعت آہستہ آہستہ بگڑتی چلی گئی۔ بیٹے نے ایک اورماہر ڈاکٹرسے مشورہ کیا تو اُس نےبتایا کہ باپ کی حالت کے بہتر ہونے کی کوئی  امید نہیں ہے۔ فجر شکست ماننے کے لئے تیار نہیں تھی ۔ وہ زاہد کو اگلی دنیا میں کوچ کرنے نہیں دے گی۔ اس کا اپنا وجود زاہد کے بغیر نا مکمل تھا۔ ایک دن اس نے بیٹے سے کہا ’مکان بیچ کر تمہارے ابّا جی کا علاج کروا لیتے ہیں۔‘
بیٹا شش و پنج میں پڑ گیا پھر اس نے دھیمے لہجے سے جواب دیا۔ ’ میں بھی ابّا جی کا علاج کروانا چاہتا ہوں۔ اگر کرایہ پر مکان لیں گے تو خرچہ نہیں پورا ہو گا اور وہ دوبارہ مکان کبھی نہ خرید سکیں گے۔ ڈاکٹر کے مطابق ابّا جی کی حالت زیادہ بگڑ چکی ہے اور بہتر نہیں ہو سکتی۔ تو یہ سب کچھ کرنے سے پریشانی کے علاوہ کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔‘

شروع شروع میں یہ گفتگو آہستگی سے ہوتی رہی لیکن چند دنوں کے بعد ماں بیٹے کے درمیان بحث میں تبدیل ہو گئی۔ ماں بضد تھی کہ زاہد کا علاج ضرور کروانا ہے، آرام آئے یا نہ آئے یہ اللہ کی طرف سے ہے۔ بیٹا ماں سے کہتا کہ وہ باپ کے علاج کے خلاف نہیں ہے۔ اگر اسے تھوڑی سی بھی بہتری کی امید ہوتی تو وہ مکان بیچ کر علاج کرادیتا۔ ماں اور بیٹا یہ بحث زاہد کے سامنے کبھی نہ کرتے لیکن ایک دو بار بحث کے دوران ان  کی آواز کافی بلند ہو گئی تو زاہد کے کان میں مکان بیچنے کی بات پڑ  گئی۔ یہ بات تیر کی طرح اس کے دل کو  چیرتی چلی گئی۔ اس کو مکان بیچنے کے بارے میں سن کر بیماری سے بھی زیادہ دھچکا لگا۔ یہ مکان اس نے بڑی مشکل اور بڑی محنت سے بنایا تھا، آہستہ آہستہ پیسے جمع کر کے، ایک ایک کمرے کا اضافہ کر کے۔ اس پورے عمل میں زاہد کو دس سال سے زائد عرصہ لگا تھا۔ اس دوران اس نے اور فجر نے انتہائی تنگدستی سے وقت گزارا۔ اب وہ یک بیک اس مکان کو نہیں کھو سکتا محض ایسے علاج کے لئے جس کی کامیابی کا کوئی امکان نہیں۔ اگر ہو بھی تو اس کے لئے باقی بڑھاپے کی زندگی اس اپنے مکان میں بستر میں گزار دینا بہتر ہو گا۔ اس نے اپنے بائیں ہاتھ سے ایک بار لکھ کر بھی دیا کہ نہ وہ علاج کروانا چاہتا ہے اور نہ ہی مکان بیچنا چاہتا ہے لیکن فجر علاج کے اخراجات کے لئے مکان بیچنے پر بضد تھی ۔

زاہد نے بیماری اور موت کی آمد کو قبول کر لیا تھا۔ اس کے پاس ایک دو سطور لکھنے کے علاوہ اپنی بیوی کو سمجھانے کے لئے طریقہ نہیں تھا۔ ایک بار زاہد نے اس بارے ميں کچھ کہنے کی بھی کوشش کی لیکن فجر نے جب یہ الٹی سیدھی آوازیں سنیں تو اور پریشان ہو گئی۔

زاہد نے یہ دعا مانگنا شروع کر دی کہ اللہ اسے جلد از جلد اس دنیا سے اٹھا لے تاکہ مکان بیچنے کی نوبت نہ آئے۔ زاہد نہیں چاہتا تھا کہ اس کی بیوی اور بیٹے کو دوبارہ مشکل اور غیر یقینی صورتحال سے دوچار ہونا پڑے۔ زاہد کی دعا قبول نہیں ہو رہی تھی اور گھر میں مکان کے بیچنے کے بارے میں سرگوشیاں اب بلند آواز تک پہنچ چکی تھیں ۔ ماں بیٹے کی لڑائی تقریباً ہر روز ہوتی اور ماں اسے طعنہ دیتی کہ اسے باپ سے محبت نہیں ہے۔ زاہد نے ایک بار ماں کے طعنوں کے ردِ عمل میں بیٹے کی آنکھوں میں آنسو دیکھے تو اس کا کلیجہ بھر آیا۔ بیماری سے زیادہ مکان بیچنے کی بحث اس کو اندر سے کھاۓ جا رہی تھی۔

زاہد کو ہر وقت یہ فکر رہتی  کہ کہیں فجر کی طرح بیٹا بھی جذباتی نہ ہو جائے یا وہ کہیں فجر کے دباؤ میں نہ آجاۓ۔ چند بار  اس نے مکان بیچنے کی رائے کے خلاف لکھنے کی کوشش کی لیکن اس کے ہاتھ نے ساتھ نہیں دیا۔ اب اس کو اپنے بائیں بازو کی حرکت پر بھی قابو نہیں تھا۔ لیکن زاہد فیصلہ کر چکا تھا کہ اس نے اپنی رائے ضرور دینی ہے کسی نا کسی طرح۔ اس جھگڑے کو ہمیشہ کے لئے ختم کرنا ہے اور اپنی زندگی کے بقیہ دن بیماری میں سہی لیکن ذہنی سکون سے گزارنے ہیں۔ زاہد سارا دن خود سے یہ کہتا رہتا کہ اب اس کے ٹھیک ہونے کا وقت آ گیا ہے۔ وہ اپنے مفلوج ہاتھ پیر ہلانے کی مسلسل کوشش کرتا رہتا۔ ایک رات جب فجر ساتھ والے پلنگ پر سوئی ہوئی تھی تو زاہد نے پوری طاقت اپنے ہاتھ پاؤں اور زبان کے ہلانے پر لگا دی۔ آج وہ نہیں سوۓ گا بلکہ پوری رات اندھیرے اور خاموشی میں یہی کوشش کرتا رہے گا جب تک کہ وہ زبان کوحرکت دینے کے قابل نہیں ہو جاتا، جب تک کہ وہ ہاتھوں پیروں کو نہیں ہلا سکتا! کبھی یہ رات اس کو ویران لگتی اور کبھی نورانی۔ چاند بادلوں کی اوٹ میں سے نکل نکل کر اسے جھانک رہا تھا۔ ہوا کے جھکّڑ تھوڑی تھوڑی دیر بعد رک جاتے زاہد کی جنگ دیکھنے کے لئے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

وقت بدل رہا تھا اور زاہد کا ساتھ دے رہا تھا۔ اس کو محسوس ہو رہا تھا کہ اس کی زبان اور ہاتھ پیر اب جنبش کر رہے ہیں۔ وہ پورا زور لگا کر بستر پر بیٹھ گیا، اس نے فجر کو آواز دی لیکن حلق اب بھی شایدپرانے وقت میں تھا۔ وہ خوشی کے مارے انتظار نہیں کر سکا اور بستر سے نکل کر کھڑا ہو گیا۔ اس کا بیمار دل اور نیم مردہ ٹانگیں اچانک یہ حرکت اور بوجھ کیسے برداشت کرتیں! دوسرے ہی لمحے زاہد دھڑام سے فرش پر آگرا۔ وہ اوندھے منہ ہاتھ فرش سے چپکاۓ بے حس پڑا ہوا تھا۔ شاید وہ اپنے مکان سے چمٹا ہوا تھا اس کو کھونے سے بچانے کیلئے۔ اور اس کے چہرے پر ایک خفیف سی مسکراہٹ تھی !

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply