پیالی میں طوفان (101) ۔ پیاس/وہاراامباکر

پیاس کے احساس کے بعد ہم نے یہ فیصلہ لے لیا کہ جسم میں کوئی مشروب انڈیلا جائے۔ اس پر عملدرآمد کرنا کسی بھی لحاظ سے سادہ عمل نہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

باقی جسم سے دماغ کے جوڑ اتنے ہی اہم ہیں جتنی دماغ کے اپنے خلیوں کے درمیان۔ اندرونی رابطہ اعصابی فائبر کے ذریعے ہوتا ہے۔ پتلے اور لمبے خلیے جو جسم کی برقی تاریں ہیں۔ یہاں سے چارجڈ ذرات گزریں گے۔ دماغ کا خلیہ ایک سگنل شروع کرتا ہے، جو رقی آبشاریں چلاتا جاتا ہے۔ پہلے فائبر کے آخر میں اگلا فائبر ہے۔ ان کی ممبرین سے سگنل آگے سے آگے چلتا جائے گا۔ ایک سیکنڈ سے بھی کم وقفے سے یہ ٹانگ تک پہنچ گیا ہے۔ اس طرح ایک کوآرڈینیشن سے ٹانگ کے پٹھوں تک سگنل پہنچ رہے ہیں اور ہم صوفے سے اٹھ گئے ہیں۔ پاؤں سے فرش محسوس ہونا یا وہ ہلکی سی ہوا کا محسوس ہونا بھی اسی اعصابی نیٹ ورک پر ہو گا۔
ہمارے اندر ہونے والی معلومات کا تبادلہ تیزی سے اور بڑی مقدار میں ہو رہا ہے۔ الیکٹریک نرو سگنل اور کیمیکل پیغامات چل رہے ہیں۔ ہمارے جسم کے اعضاء اور سٹرکچر مل کر ایک واحد جسم بناتے ہیں، اس لئے نہیں کہ ہم بس جڑے ہوئے ہیں بلکہ اس کی گوند یہ معلومات ہے۔ اس معلومات کی وسیع، تال میل کرتی، اور ایک دوسرے کے ساتھ ملکر بہتی ندیوں نے ہمیں جوڑا ہوا ہے۔ ہم انفارمیشن مشین ہیں۔
انفارمیشن دو قسم کی ہے۔ ایک سفر کرتی انفارمیشن۔ اعصابی سگنل اور کیمیائی سگنل جو کہ حرکت میں ہیں۔ رس رہے ہیں، چمک رہے ہیں اور ہمارے اندر بہہ رہے ہیں۔ لیکن ہم میں وسیع پیمانے پر ذخیرہ ہونے والی انفارمیشن بھی ہے۔ ہمارا ڈی این اے ایک مالیلیکولر لائبریری ہے۔
ہمارے ارد گرد کی دنیا میں، ایسے ہی کروڑوں ایٹم ملکر گلاس اور چینی اور پانی بناتے ہیں۔ لیکن ڈی این اے کی لڑی کے اس دیوہیلک مالیکیول میں ہر ایٹم اپنی خاص جگہ پر بیٹھا ہوا ہے۔ اور ان ایٹموں کا اپنے خاص مقام پر بیٹھنا ایک حرف کو جنم دیتا ہے۔ خلیے کے مالیکیولر مشین اس لڑی پر چلتے ہوئے جینیاتی حروف کو پڑھ سکتا ہے۔ ہم ان حروف کو A, T, C, G کہتے ہیں۔ اور ان میں وہ انفارمیشن ہے جس کی مدد سے پروٹین بنتے ہیں یا خلیے کی سرگرمی کی ریگولیشن ہوتی ہے۔
ایٹم کے مقابلے میں ہم اتنے بڑے اس لئے ہیں کہ ہمارے خلیات کی فیکٹریوں میں اتنا کچھ ہے۔ ہم بہت بڑے ہیں۔ دس ملین ملین خلیوں سے بنے ہوئے جس میں سے ہر ایک خلیہ خود اربوں مالیکیول سے بنی پیچیدہ مشین ہے۔
ہمارا ری ایکشن اتنا سست اس لئے ہے کہ ان سب نے مل کر کام کرنا ہے۔ اس قدر زبردست پیچیدگی کی قیمت سست رفتاری کی صورت میں ادا کرنا پڑتی ہے۔ پلک جھپکنے کو ہم انتہائی تیز سمجھتے ہیں حالانکہ اس میں ایک تہائی سیکنڈ لگ جاتا ہے اور اس عرصے میں جسم کے اندر کئی ملین پروٹین بن چکے ہوتے ہیں اور اربوں آئن ہمارے اعصابی سائنیپسز کو پار کر چکے ہوتے ہیں۔
چلتے وقت ہماری انفارمیشن مشین پوری قوت سے چل رہی ہیں اور کچن کی طرف لے جا رہی ہے۔ اور ہمیں یہ انفارمیشن چاہیے کہ ہمارے اردگرد کیا ہے۔ ہمیں پانی تک پہنچنا ہے۔ ہمارے پاس سنسر ہیں۔ یہ جسم کے وہ حصے ہیں جو کہ ماحول کے مطابق ردِ عمل دیتے ہیں اور اس انفارمیشن کو دماغ تک پہنچاتے ہیں۔ اس میں ایک اہم حس بصارت کی ہے۔
ہم روشنی میں نہائے ہوئے ہیں لیکن ہمارا جسم اسے زیادہ تر باہر ہی رکھتا ہے۔ روشنی کا سمندر ہم تک دنیا کی معلومات لا رہا ہے۔ کیونکہ روشنی کی نیچر ہمیں اس کے آنے کی جگہ کے بارے میں معلومات فراہم کرتی ہے۔ اس کا زیادہ تر حصہ ہمارے پاس سے گزر جائے گا۔ اور بس ایک چھوٹا سا حصہ آپکی آنکھ کی پتلی پر پڑے گا جو ایک انچ کے آٹھویں حصے کے سائز کا ہے۔ اس چھوٹے سے سیمپل میں موجود معلومات ہمارے لئے دنیا کو پہچاننے کی کھڑکی ہے۔ ہم اس کا بھی ایک چھوٹا سا حصہ ہی اٹھائیں گے۔ یہ وہ حصہ ہے جو دکھائی دی جانے والی روشنی ہے۔ آنکھ کی پتلی کے گرد باریک سا شفاف لینز اس روشنی کی لہر کی رفتار بدل دے گا۔ اور یہ ہوا کے مقابلے میں ساٹھ فیصد تک رہ جائے گی۔ اور جب روشنی کی رفتار کم ہوتی ہے تو یہ راستہ بدلے گی۔ لینز کی شکل کو چھوٹا سا مسل بدل کر روشنی کو فوکس دے گا اور ایک عکس شعاعوں کو مرکوز کر کے آنکھ کے پیچھے بنا دے گا۔ چناؤ کا یہ پراسس بڑا دنگ کر دینے والا ہے۔ ہم یہ فرض کر لیتے ہیں کہ ہم سب کچھ دیکھ رہے ہیں لیکن یہ بہت ہی چھوٹے سے سیمپل سے بنائی گئی تصویر ہے۔
آنکھ تک پہنچنے والی روشنی کی لہر چاند سے آ سکتی تھی یا ہماری اپنی انگلیوں سے۔ دونوں کا اثر ایک ہی جیسا ہوتا ہے۔ ایک فوٹون اوپسین کے ایک مالیکیول میں جذب ہوتا ہے۔ اس مالیکیول کو مروڑتا ہے اور اس سے dominoes کی ایک زنجیر شروع ہو جاتی ہے۔ اور اس سے برقی سگنل ہمارے کنٹرول سسٹم تک جاتا ہے۔
ہم پیاس بجھانے کے لئے کچن تک پہنچے۔ فوٹون نلکے، چولہے، کیتلی وغیرہ سے آنکھ تک پہنچ رہے ہیں۔ دماغ میں یہ انفارمیشن پراسس ہو رہی ہے اور پلک جھپکتے میں ہم یہ فیصلہ کر لیں گے کہ کرنا کیا ہے۔ کچن میں کچھ اندھیرا ہے۔ بٹن دبایا اور روشنی کی لہروں کے فوارے امڈ پڑے۔ یہ بلب سے باہر کی طرف نکلیں گے اور جسی طرح انہوں نے اپنا سفر شروع کیا، دنیا نے انہیں بدلنا شروع کر دیا۔ انعکاس، انعطاف اور جذب ہونے کا سلسلہ اور اس سب میں سے بس کچھ ہی پتلی تک ہنچ گیا۔ اور ہمارے گرد صرف روشنی ہی نہیں ہے۔
(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply