کیا شراب پہ قدغن لگانا شرعی تقاضا ہے؟۔۔۔۔۔۔سلیم جاوید/قسط2

ہمارا مضمون، شراب کی حلت وحرمت بارے نہیں بلکہ اس پرشرعا” پابندی لگانے بارے ہے-چونکہ اس بحث سے گزرے بغیر، موضوع کا حق ادا نہیں ہوسکتا تواختصار کے ساتھ چند بنیادی باتیں عرض کردیتا ہوں-

اسلام میں “شراب” سےنہیں بلکہ “خمر” سے منع کیا گیا ہے-عربی میں”شراب”، ہر پینے والی چیز کو کہتے ہیں(فروٹ جوس سے لیکر کھانسی کے سیرپ تک) جبکہ “خمر” کا مطلب نشہ آورچیز ہے-

اگلا سوال: حکم کی روح یا حکم کی شکل؟

معلوم ہونا چاہیے  کہ زمانہ نبوی میں “خمر”، صرف انگور اور کھجور سے کشید کی جاتی تھی- جبکہ جدید دنیا کی “خمر” کے اجزائے ترکیب ، زمانہ نزول قرآن والی “خمر” سے خاصے مختلف ہیں- اگرچہ آجکل بھی اکثر شراب انگور سے ہی کشید کی جاتی ہے مگر یہ کہ جدید شرابیں دیگر نباتات سے بھی تیار کی جارہی ہیں- مثلاً  چاول کی شراب بھی معروف برانڈ ہے (مگر صحابہ، فتح عراق سے پہلے چاول سے آشنا نہیں تھے)- اس طرح بعض شرابیں تو فقط کیمیکل کمپاونڈ ہی ہوتی ہیں- ( آسٹریلیا کی “ریڈ شیراز” وغیرہ)-

خاکسار نے “حجامہ” بارے مضمون میں عرض کیا تھا کہ حکم کی روح کو دیکھا جانا اصل ہوتا ہے- اس لیے   بیماری کا علاج کرانا سنت عمل ہے نہ کہ خاص حجامہ کرانا– اس پر بعض احباب نے فرمایا تھا کہ زمانہ نبوی میں جوحجامہ مروج تھا، ویسی ہی شکل اب بھی سنت قرارپائے گی-

چونکہ خاکسار کی رائے تو” حکم کی روح” پرمبنی ہوتی ہے تومیرے نزدیک جدید وقدیم سب قسم کی “خمر”ممنوع ہیں مگرجن لوگوں کی رائے میں “حکم کی شکل” اصل بات ہے تووہ اب خود سوچ لیں کہ کوکین کو کیوں حرام کہیں گے جبکہ یہ والی شکل، دورِ نبوی میں موجود نہیں تھی؟-

نوٹ: گفتگو میں آسانی کی خاطر آئندہ لفظ شراب کو ہی خمر کیلئے استعال کیا جائے گا-

اگلا سوال: جرم یعنی کرائم کسے کہتے ہیں ؟

دوسیکولر اصطلاحات نوٹ فرمائیں- ایک ہوتی ہے غلطی اور ایک ہوتا ہے جرم-( ہر”جرم”، غلطی ہوتا ہے مگر ہرغلطی، جرم نہیں ہوتی)-

دومذہبی اصطلاحات نوٹ فرمائیں- ایک ہوتا ہے گناہ اورایک ہوتا ہے جرم- (ہر”جرم”، گناہ ہوتاہے مگرہرگناہ جرم نہیں ہوتا)-

سیکولر سوسائٹی میں بھی اوراسلام میں بھی، کوئی  غلط کاری( یا گناہ) ،”جرم” تب بنتا ہے جب اسکے کرنے سے کسی دوسرے کوضرر پہنچے –

مثلاً  جھوٹ بولنا، سیکولر لحاظ سے غلط فعل ہے اور مذہبی لحاظ سے گناہ ہے( گناہ کبیرہ)-

اب دیکھیے  کہ ایک وہ “جھوٹ” ہوتا ہے جوروزانہ کامیڈی شوزمیں بولا جاتا ہے-مگر ایک وہ”جھوٹ” ہوتا ہے جسکی بنا پر بندے قتل ہوجایاکرتے ہیں-

پہلی قسم والے جھوٹ پرسیکولرازم میں کوئی  سزا نہیں-اسلام میں بھی اس دنیا میں کوئی  سزا نہیں (سیکرلرازم میں”خطا” سوری کہنے سے اور مذہب میں “گناہ” توبہ کرنے سے” بیلنس” ہوجاتے ہیں)-

دوسری قسم والا جھوٹ بولنا ایک جرم ہے جسکے لیے  سیکولرازم والے بھی ایک سزا مقرر کریں گے اور اسلام میں بھی سزامقرر ہوگی- (کسی کی عزت خراب کرنے والے جھوٹ پر 80 کوڑے کی سزا مقررہے- جرم توبہ سے معاف نہیں ہوتے، بلکہ حق دینا پڑے گا)-

مطلب یہ ہوا کہ “جرم” وہ فعل ہوتا ہے جسکے لیے  انسانی معاشرہ ایک خاص سزا کا تعیین کرتا ہے- اسلام میں بھی ہر اس گناہ کیلئے جو جرم کی کیٹیگری میں آجائے، ایک خاص سزا متعین ہے(جسے شرعی حد کہا جاتاہے)-

اسی بات کو اب الٹا لے لیں – کسی قومی آئین ورواج میں کسی غلط کاری پراگر سزا مقرر نہیں کی گئی تو اس کام کو چاہے آپ “بُرا” بولیں، “ناشائستہ ” کہیں ، “غیرمہذب “قرار دیں مگر اسے “جرم” نہیں کہیں گے-(محفل میں برسرِعام تھوکنا بُرا  کام ہے مگر یہ فعل، جرم تب بنے گا جب اسکی ایک قانونی سزا مقرر ہوگی)-

بعینہ اسی طرح اگر کسی “گناہ” پرشریعت اسلامی میں کوئی  “حد” مقرر نہیں ہے تو وہ گناہ تو کہلائے گا مگرجرم قرار نہیں دیا جاسکتا-

امید ہے یہ بات پوری طرح سمجھ آچکی ہوگی کہ “جرم” یعنی کرائم کسے کہتے ہیں؟-

اگلا سوال: کیا نشہ کرنا جرم ہے؟ یا پھر کونسا نشہ کرنا، جرم ہے( اسلام اور سیکولرقانون کا موازنہ کرتے جائیں)-

منشیات کو ہم مندرجہ ذیل تین کیٹیگریزمیں تقسیم کرتے ہیں-

کیٹیگری الف:( ابتدائی  نشہ – مسکن نشہ)

آپ اس کو ہلکے نشہ والی منشیات کہہ لیں کہ جس کے لینے سے انسان کے اعصاب پرسکون ہوجاتے ہیں مگردماغ مختل نہیں ہوتا اور نہ ہی اعضاء بے قابوہوتے ہیں-یعنی ایسا نہیں ہوتا کہ اس حالت میں کسی دوسرے کو ضرر پہنچانا شروع کردے- (مثلاً  نسوار وغیرہ) –

طبی مضرت اپنی جگہ مگر جدید دنیا میں ایسے نشہ پرپابندی نہیں ہوتی-اسلام میں بھی ایسا نشہ کرنا حرام نہیں ہوتا- یعنی ایسا نشہ کرنا جرم نہیں ہے-

کیٹیگری ب:( درمیانی نشہ- سرور آگیں نشہ)

یہ وہ منشیات ہوتی ہیں جن کے لینے سے انسان کے اعصاب پُرسکون ہوجاتے ہیں مگردماغ مختل ہوجاتا ہے، تاہم اسکے اعضاء بے قابونہیں ہوتے –یعنی ایسا ہوتا ہے کہ کہنا کچھ چاہتا ہے مگربول کچھ جاتا ہے لیکن یوں نہیں ہوتا کہ کسی اوربندے کیلئے خطرناک ہوجائے-اس حالت کو”سکران” کہتے ہیں-

جدید دنیا میں ایسے نشہ کیلئے مقام، مقدار اور ذمہ داری کو سامنے رکھ کرقانون سازی کی جاتی ہے- شرعاً  یہ حرام ہے یا نہیں؟ اس بارے آگے گفتگو کریں گے-

کیٹیگری جیم:

منشیات کی تیسری قسم وہ مضرنشہ ہے جس کو لیتے ہی بندہ عقل پہ قابو کھو بیٹھتا ہے اورسماج کیلئے خطرناک ہوجاتا ہے-

ایسا نشہ کرنا قطعاً ممنوع ہے( اسلام میں بھی، سیکولرازم میں بھی) کیونکہ سماج کا امن اولیٰ ہے -(استثنائی  حالات میں کسی کیلئے بطور دوا کی اجازت دینا الگ بات ہے )-

اوپرمنشیات کی تقسیم بہ لحاظ شدت نشہ کو دیکھ کرآپ کو خود ہی اندازہ ہوچکا ہوگا کہ شراب ایسی چیز ہے جووقت، ظرف اورمقدار کے لحاظ سے کبھی پہلی قسم میں اور کبھی دوسری قسم تو کبھی تیسری قسم میں داخل ہوجاتی ہے-

شراب کی اسی خاصیت کی بنا پر، اسےجدید دنیا میں منشیات میں شمار نہیں کیا جاتا حالانکہ یہ  ایک نشہ آور مشروب ہے – اسکی وجہ یہ ہے کہ شراب ، پھلوں کا رس ہونے کے باوصف، ایک انرجی ڈرنک بھی ہے – شراب کے طبی فوائد بھی ہیں- (خود خدا نے بھی فرمایا کہ شراب میں فوائد موجود ہیں)-

پھلوں کے رس سے شراب کیسے تیار ہوتی ہے؟

شراب بنانے کا برتن یا صراحی ایک خاص شکل میں ہوتی ہے مگرشراب کی تیاری میں اصل بات، اسکا دورانیہ ہے یعنی جتنے زیادہ وقت کیلئے آپ نے پھلوں کے عرق کوہوا بند رکھا ہوگا، اتنا زیادہ یہ نشہ آور بنتا جائے گا- ( یوں تو پھلوں کے عرق میں کئی مصالحہ جات وغیرہ بھی ملائے جاسکتے ہیں لیکن ابتدائی  صورت یہی ہے کہ انگور کے رس کو ہوابند جگہ پر کچھ وقت کیلئے محفوظ کردیں جیسا کہ اچار بنانے کا طریقہ ہے)- یہ ہوابند رس کچھ وقت کے بعد، جھاگ چھوڑ دے گا جس کو ہٹا لینے کے بعد، جو باقی مائع رس بچ جاتا ہے، اسے شراب کہتے ہیں –

اگر آپ نے صراحی کوفقط ایک دودن کیلئے بند رکھا ہو تواس قلیل دورانیہ سے جو شراب بنتی ہے وہ فقط مسکّن ہوتی ہے- اسکو عربی میں “نبیذ” کہتے ہیں اور امام ابوحنیفہ اسکو حرام نہیں کہتے-

دیکھیے کہ “نبیذ”، اپنی شکل میں بھی اوراجزائے ترکیب میں بھی ” شراب” ہی ہے مگر چونکہ ابھی ” خمر” نہیں بنی تو حرام بھی نہیں ہوئی -(یعنی اصل علت موجود نہیں تو یہ حرام نہیں ہے)- بالفاظ دیگر، کسی چیز کی شکل وصورت اورا جزائے ترکیب، اگرچہ شراب سے مختلف ہوں مگر اس میں اصل علت (خمار) موجود ہو تووہ ” خمر” ہوگی اورممنوع ہوگی-

بہرحال شراب ( اوردیگر منشیات) بارے شرعی قانون سازی( اورجدیدقانون سازی) اوپرذکرکردہ کیٹیگری وائز ہوگی- اس کو ان شاء اللہ اگلی قسط میں لیں گے-
پچھلی قسط میں منشیات کی تین کیٹگریز کا ذکرکرتے ہوئےعرض کیا تھا کہ شراب واحد نشہ ہے جو، اپنی مقداراورکوالٹی کی بنیاد پر، تینوں کیٹگریزمیں گھومتا رہتا ہے( نبیذ کی مثال بھی دی تھی)- امید ہے کہ آپ “گناہ” اور”جرم”کے مابین فرق سے بھی آگاہ ہوچکے ہوں گے-

آگے ہمارا کام آسان ہے- ثابت یہ کرنا ہے کہ مے نوشی گناہ ہے یا نہیں؟- اگر گناہ ہے تو جرم ہے یا نہیں؟- اگر جرم بھی ہے تواس پہ کامل پابندی ،شرعی تقاضہ ہے یا نہیں؟- ان تینوں کو الگ الگ قسط میں لینا ہے-

لہذا، آیئے کہ آج ہم قرآن پاک کی اس آیت پرسوچ وفکرکرتے ہیں جس میں شراب سے ممانعت آئی  ہے-

إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنصَابُ وَالْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ

قرآنی بلاغت پہ قربان جایئے- اس آیت میں خمر کے ضمن میں دواصطلاحات استعمال ہوئی  ہیں اور انہی میں ساری بات پوشیدہ ہے-

ایک ٹرم ہے ” رجس” اوردوسری ٹرم ہے”اجتناب”-

پہلے”رجس” کا مفہوم سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں-

عربی کا ایک لفظ ہے”رجس” اورایک لفظ ہے” نجس”-

عربی الفاظ کا ہوبہوکسی اورزبان میں ترجمہ مشکل ہوتا ہے مگر یوں سمجھیے کہ”رجس” کہتے ہیں گندگی کواور”نجس”کہتے ہیں پلیدی کو- ہرپلیدی، گندگی ہوتی ہے مگر ہرگندگی، پلیدی نہیں ہوتی- یعنی “گندگی” کی رینج، قباحت سے لیکر، نجس وحرام ہونے تک ہے-

عربی میں لفظ “رجس” کے 9 معنی ہیں- ہر قبیح چیزکو بھی رجس کہا جاتا ہے-( بجلی کی کڑک کی آواز چونکہ قبیح ہے تواسے بھی رجس کہا جاتا ہے) – ہرنجس چیزبھی رجس ہے- خدا نےایسا لفظ استعمال کیا ہے جسکی رینج، غلاظت سے لے کرزہرناکی تک ہے-

مولوی صاحبان، بخوبی جانتے ہیں کہ”رجس”کے معنی میں اہلِ علم میں کس قدراختلاف پایا جاتا ہے؟- کیا امام شافعی کے ہاں اسی بنیاد پرمرد کی منی پینے کاجواز نہیں؟- کیاعلمائے دیوبند کا یہ فتوی موجود نہیں ہے کہ انسان کے پیشاب سے سورہ فاتحہ کا لکھنا جائز ہے؟- ایسے مباحث کےباوجود جب مولوی صاحبان بھی یہاں”رجس”کے معنی صرف”حرام” قراردینے پراصرار کرتے ہیں تو حیرت ہوتی ہے-

خاکسار کے نزدیک،”رجس”کا معنی بھی موقع بہ موقع بدلتا رہے گا-میری اس رائے کی بنیاد خود قرآن ہی کی دوسری آیت ہے جس میں”مقام ومنصب” کے لحاظ سے شراب کو ممنوع کردیا(چنانچہ رینج ثابت ہوگئی)- فرمایا:

لَا تَقْرَبُوا الصَّلَاةَ وَأَنتُمْ سُكَارَىٰ حَتَّىٰ تَعْلَمُوا مَا تَقُولُونَ

یعنی حالت سکران میں اس لئے نماز نہ پڑھو کیونکہ خود تمہیں پتہ نہ چلے گا کہ کیا پڑھ رہا ہوں-اسکا ایک مطلب یہ نکلتا ہے کہ بغیرنماز کی حالت میں شراب پی جاسکتی ہے-

آپ کی پوری توجہ درکار ہے!

مولوی صاحبان فرماتے ہیں کہ جب شراب کو”رجس” بتانے والی آیت نازل ہوئی  تو نمازمیں شراب والی آیت منسوخ ہوگئی تھی-

معاف کیجئے، خاکسار کو”ناسخ ومنسوخ” والے فلسفہ پرتحفظات ہیں- مجھے خدا کے اس حق پہ اعتراض نہیں کہ وہ اپنے آئین کی کسی شق کو معطل کردے یا موقوف یا منسوخ کردے- مگر کچھ کامن سینس بھی ہوتی ہے بھائی-

صاف بات ہے کہ اگر مجاز اتھارٹی، اپنی مہر سے جاری کردہ کسی آرڈر کو منسوخ کرے تو اسکی اطلاع بھی اسی مہر شدہ آرڈر سے بہم پہنچائے- کسی غیرمجاز بندے کی ہوائی بات سےبھلا ایک آفیشل ارڈر کیسے منسوخ ہوگا؟-

اگر خدا نے قرآن میں ایک حکم نازل کیا ہے جسے بعد میں منسوخ بھی کیا ہے تواسکی اطلاع دینا بھی خودخدا کا ہی کام ہے- یا تو منسوخ شدہ ٹکسٹ کو قرآن میں موجود ہی نہیں ہونا چاہیے تھا یا پھرقرآن ہی میں وضاحت ہونی  چاہیے  تھی کہ پہلے والا فلاں حکم اب منسوخ کیا جاتا ہے-( آئین کی کوئی  شق اگر منسوخ ہوئی  تو اسے آئین سے نکال دیں یا پھر آئین میں ہی اس پر”ڈیلیٹڈ” کا ٹیگ لگائیں- یہ تو نہیں ہوسکتا ہے کہ ایک ہی آئین میں ایک ہی موضوع بارے دومختلف قسم کے احکام موجود ہوں اورعوام اپنی مرضی سے تاویلات فرماتے رہیں کہ جی دراصل ایک حکم باقی ہے اور دوسرا کالعدم ہوگیا ہے)-

عجیب بات یہ ہے کہ ایک آیت، منسوخ توخدا نےکی ہے مگراسکی اطلاع ہمکوایک علامہ سیوطی ٹائپ بندہ دے رہا ہے- ہمارے اکابر پرخدا رحمت کرے، اس حد تک قرآن کو مشتبہ بنا گئے ہیں کہ ایک روایت کے مطابق اس قرآن میں تقریبا”400 آیات منسوخ ہوچکی ہیں- مطالبہ کیا جائے کہ ان آیات کی فہرست عنایت فرمائیں تو جواب یہ کہ اسکا بھی ہمیں پورا پتہ نہیں کہ کونسی آیات منسوخ ہوئی  تھیں- یا للعجب( اوریہ راویات اہلسنت علماء کی ہیں-مگراہل تشیع جب کہتے ہیں کہ امامت والی آیات دھوکے سے حذف کی گئیں توان پریہ احباب غصہ ہوتے ہیں)-

اس سے بھی عجیب تر بات یہ ہے کہ دیگرجو آیات منسوخ بتائی جاتی ہیں، وہ آیات اب قرآن میں موجود نہیں ہیں مگریہ نماز میں شراب والی آیت ابھی تک موجود ہے؟ -اسکو پھرکیوں نہیں نکالا دوسری آیات کی طرح؟-

بہت معذرت کے ساتھ عرض ہے کہ ہمارے خیال میں قرآن پاک میں”ناسخ ومنسوخ” کا فقط شوشا ہی چھوڑا گیا ہے جسکی وجہ سے سارا قرآن مشتبہ ہوجاتا ہے- ہمارے رائے یہ ہے کہ خدانے جس”ناسخ ومنسوخ” کا قرآن میں ذکر کیا ہے، اس سے مراد زبور اور انجیل کی منسوخی ہے کہ وہ بھی خدا کی آیات ہی تھیں- موجودہ قرآن میں کوئی  بات منسوخ نہیں ہوئی –( بہرحال یہ الگ بحث ہے جسے کسی اور وقت کیلئے اٹھارکھتے ہیں)-

چنانچہ، ہماری رائے میں یہ پہلی آیت قرآن میں اسی لیے باقی رکھی گئی تاکہ مستقبل کا قاضی اس اصول سے آگاہ رہے کہ خدا نے بھی نشہ کی کیفیات، حالات اوردرجات کے فرق کو مدِ نظر رکھا ہوا ہے- چنانچہ اس پہلی آیت میں اہل علم مخاطب ہیں تاکہ اس بنا پر وہ مختلف زمانوں میں ایجاد ہونے والے نشہ جات کیلئے مناسب اوردرجہ بدرجہ قانون سازی کرسکیں- چنانچہ قانونی حد بندی کے بعد، بعض منشیات عام طور جائزہونگی، بعض مشیات حساس ڈیوٹی کیلئے ممنوع ہونگی( حالت سکاری میں نماز کی اجازت نہیں تو عدالت میں جج کی ڈیوٹی کی اجازت نہیں ہوگی- وعلی ھذا القیاس) – جبکہ بعض منیشات کوقطعا” ممنوع قراردیا جائے گا-

یعنی شراب کو “رجس”( گندگی) کہا گیا تویہ”رجس” کہیں فقط قباحت ہوگی اورکہیں حرام ہوگی-

اب مذکورہ آیت کی دوسری ٹرم یعنی ” اجتناب” کا مفہوم سمجھنے کی کوشش کریں-

اس لفظ کا اردو متبادل”پرہیز”سمجھ لیں- سبحان اللہ کہ اس لفظ کی بھی وسیع رینج ہے- یعنی یہ”عام نصیحت” ( دوررہو) سے لیکر”قانونی حکم”( ممنوع) تک پھیلا ہوا لفظ ہے-

مجھے اس پر بھی حیرت ہے کہ”اجتناب” کے معنی صرف”ممنوع” کیوں لیے گئے ہیں؟-

قرآن میں ہی ایک اورجگہ یہ لفظ “اجتناب” استعمال ہوا- خدا نے فرمایا کہ لوگوں بارے زیادہ بدگمانی سے “اجتناب ” کیا کرو- یہاں بھی اسکی رینج ہے جو کہ بدگمانی کی ماہیت پر منحصر ہے- کسی پہ یہ بدگمانی کہ”یہ مجھے اچھا نہیں سمجھتا” ایک فطری بات ہے اوراس سے اجتناب کرنا، نصیحت کے طور پر ہے- کسی پہ یہ بدگمانی کہ”اس نے میرے پیسے چرائے ہیں”، ایک “جرم” ہے اور اس سے اجتناب کرنے کاحکم ہے-

خلاصہ اوپر کی تقریر کا یہ ہوا کہ نہ تو رجس کا معنی فقط “حرام” ہے اور نہ اجتناب کا معنی ، کامل پابندی ہے-

اب دوبارہ اس آیت کی طرف توجہ کیجیے-

خدائے پاک نے غذائی  گندگی، مالی گندگی، نفیساتی گندگی اورروحانی گندگی سے دور رہنے کی نصیحت کرتے ہوئے شراب، جوا، ازلام اورانصاب کا ذکرکیا ہے-

قرآن کی آیت کا مفہوم ہے کہ شراب، جوا، بت اور پانسہ ، گندی چیزیں ہیں پس اس سے “اجتناب” کرو-

جن لوگوں نے مذکورہ آیت کے لفظ”اجتناب” کا معنی “مکمل حرمت” لے کرپاکستان میں شراب پہ قدغن لگائی  ہے تو چاہیے تھا کہ اسی آیت کی رو سے باقی تین چیزوں( یعنی قماربازی، پانسہ اور ازلام) کی ہرشکل پربھی پاکستان میں قدغن لگائی جاتی- مگرسلام ہے سرمایہ دارانہ چالبازیوں پرکہ مولوی صاحبان نے انکی خاطر لاٹری، پرائزبانڈز وغیرہ جیسے سٹے اورجوئے کو”قمار بازی” سے الگ قسم ثابت کرکے اسکے جوازکی گنجائش نکال رکھی ہے- سوال یہ ہے کہ ایسی ذہنی مغزماری شراب بارے کیوں نہیں کی جاتی؟- اسی آیت کی رو سے تو پانسہ وغیرہ بھی شراب ہی کی طرح حرام ہوئے پھر پاکستان میں نجومیوں کی دکانیں کیوں کھلی ہوئ ہیں؟- ان پہ کیوں قدغن نہیں لگایا گیا؟-

خلاصہ کلام:

آج کے مضمون میں شراب کی حلت وحرمت بارے اکابرکی آراء پرکچھ عرض کیا گیا ہےاور ظاہر ہے آبگینوں کو ٹھیس لگی ہوگی- احباب کی تسلی کیلئے عرض کرتا ہوں کہ ہمارا اصل موضوع شراب کو بطور جنس ڈسکس کرنا نہیں تھا بلکہ شراب پرقدغن لگانے کو چیلنج کرنا تھا- پس آپ لوگ اگر مذکورہ بالا ساری تقریرکو ریجیکٹ کردیں تو بھی ہمارے اصل موضوع پرفرق نہیں پڑتا-

خاکسار نے پوری بات آپ کے سامنے رکھ دی ہے- خدا نے ہر شخص کو عقل والا آرگن اس لئےعطا فرمایا کہ اسے استعمال کرے- پھر قرآن میں سینکڑوں بار اسکا مطالبہ کیا کہ عقل کو استعمال میں لاؤ- یہ بھی فرمایا کہ ہرکامن سنس رکھنے والے کیلئے قرآن آسان ہے- اب آپ خود فیصلہ کیجیے کہ کیا مے نوشی، قطعا” گناہ ہے یا کسی حدیا مقدارتک اسکا جواز بنتا ہے؟-(معذرت سے عرض ہے کہ میرامخاطب وہ طبقہ ہرگزنہیں ہے جوبڑے فخر سے کہتا ہے” الحمد للہ ہم دین میں اپنی عقل کو استعمال نہیں کیا کرتے”)-

فی الحال، ہم یہ فرض کرلیتے ہیں کہ شراب کا ایک قطرہ بھی حرام ہے جسےپینا” گناہ” ہے- پس موضوع کو آگے بڑھاتے ہیں کہ کیا یہ”جرم” بھی ہے؟- پچھلی قسط کی بحث سے یہ فارمولا وضع کیا تھا کہ اگرشریعت میں شراب نوشی پر”حد”مقرر ہے تویہ جرم ہے-اور اگر شریعت نے حد مقرر نہیں کی تویہ جرم نہیں-

کیا خیال ہے اگلی قسط میں کچھ دن وقفہ نہ کرلیں کیونکہ محفل بوجھل سی محسوس ہونے لگی ہے؟-

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے۔۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply