قصہ ایف-سکسٹین پائلٹ کی سچائی کا۔۔ انعام رانا

انگلستان میں مقیم ایک “دانشور” نے اک پوسٹ لکھی جو دھڑادھڑ شیئر ہوئی ہزاروں کی تعداد میں (یقیناً  انڈین دوستوں کی جانب سے) اور یہاں تک کہ سپوتنک اور کئی انڈین اخبارات نے بھی اسے کاپی کر لیا۔ صاحب پوسٹ جو حق سچ کے علمبردار ہیں کے  مطابق “حقیقت کئی بار فکشن سے مختلف ہوتی ہے”۔ انکی “حقیقت پسندانہ کہانی” کے مطابق پاکستانی ایئر فورس کے ایئر مارشل وسیم الدین کا لڑکا شہزاد الدین ایف سولہ اڑاتے ہوئے انڈیا پہ پاکستانی حملہ میں شریک ہوا جسے انڈین ایئر مارشل کے بیٹے  ابھینندن نے مار گرایا مگر خود بھی گر گیا۔ ابھی نندن تو بچ گیا مگر ہائے المیہ کہ کشمیریوں نے پاکستانی پائلٹ کو ہندی پائلٹ سمجھ کر مار مار کر ادھ موا کر دیا اور وہ بعد ازاں ہسپتال میں مر گیا۔ (مزہ آیا؟)

میں صاحب پوسٹ کی عقل و دانش ، غیر متعصب پوسٹ کے جواب میں بہت زیادہ بات نہیں کرنا چاہتا، بس سوچنے والوں کو  ذرا سی کامن سینس کے استعمال کی دعوت دیتا ہوں۔ ہندی فوج ہو یا پاکستانی، انکی وردی ہے۔ فضائیہ کے فائٹر جہاز اڑاتے ہوئے بھی مخصوص وردی پہنتے ہیں جس پہ نام لکھا ہوتا ہے، پرچم لگا ہوا ہوتا ہے بازو پر۔ اسکے علاوہ انکے پاس آئی ڈی ڈاکیومنٹ ہوتے ہیں۔ ان سب کے باوجود “مبینہ شہزاد الدین” کشمیریوں کو یہ نہ سمجھا سکا کہ وہ تو پاکستانی ہے۔ یاد رہے کشمیری سن سینتالیس سے فوجی وردی دیکھ رہے ہیں، وہ تو اندھیرے میں بھی پہچان جائیں۔ پائلٹ اگر اردو بولتا، کوئی قرآنی آیت پڑھ دیتا تو بھی کافی تھا یقین دلانے کو۔ مگر شاید “دانشور” میری اس پوسٹ کے جواب میں اسے گونگا بھی بنا دیں۔ البتہ وردی اور پرچم اور آئی ڈی کا کیا کریں گے؟

دوسرا حقیقت و حق پسند دانشور یہ بھی بھول گئے (اور انکی کہانی پہ یقین کرنے والے ذہین بھی) کہ ابھی نندن کیسے پکڑا گیا؟ وہ پاکستانی علاقے میں گرا۔ کشمیریوں نے فوراًًً  اسے پہچان لیا تھا۔   اس نے جب پوچھا کہ میں کہاں ہوں تو انھوں نے کہا انڈیا اور اسے قابو کرنے کی کوشش کی۔ بات کھلنے پر پائلٹ نے پستول دکھا کر انکو ڈرایا اور فورا ًًً اپنے کاغذ ضائع کرنے کی کوشش کی۔ اب ہمارے “مبینہ” پائلٹ کے پاس نہ تو پستول تھی، نہ زبان، نہ کاغذ اور نہ  وردی، سو کشمیریوں نے مار مار کر مار دیا؟ کیا کرتے ہو “پانڈے نما جی”۔

تیسرا، اب موبائل کا دور ہے۔ ابھی نندن گرا، لوگوں نے مارنا شروع کر دیا اور ویڈیوز بنا لیں۔ وہی ویڈیوز دھڑا دھڑ سوشل میڈیا پہ اپلوڈ کرنا شروع کر دیں۔ شاید اگر یہ نہ ہوتا تو پائلٹ پکڑا گیا ہے کا اعتراف حکومت اتنی جلدی نہ  کرتی۔ مگر “مبینہ پائلٹ” کے گرنے، اسکے جہاز، اسکو مار نے کی وڈیو کسی نے نہ نائی؟ کیمروں میں پانی پڑ گیا ہو گا، ہے نا؟

افسوس تعصب اور نفرت ہمیں اندھا کر دیتی ہے۔ اور ہم حقیقت کے نام پہ فسانے بیچنے لگتے ہیں۔ جنگوں میں جہاز بھی گرتے ہیں اور فوجی بھی شہید ہوتے ہیں۔ اسکو چھپانے کی کوئی وجہ سمجھ نہیں آتی۔ الٹا ہم تو کوئی سچی جھوٹی کہانی منسوب کر کے “شہید شہزاد الدین “ کو ہیرو بنا لیتے اور قوم میں “جنگی جذبہ” تیز کرنے کا کام لیتے۔ افسوس ہماری فوج “دانشور نہ  نکلی”۔

Advertisements
julia rana solicitors

ویسے مزے کی بات ہے کہ دو ہی ہفتے قبل انگلینڈ ہائی کورٹ بہت غصے میں تھی کیونکہ “سچ پرست، حق کے مجاہد دانشور”، جو کسی لا فرم میں کلرک تھے، جعل سازی فرماتے تھے۔ ہائی کورٹ کو اس بات پہ بہت تشویش تھی کہ ایک بندہ جو وکیل نہیں ہے وہ قانونی مشورے کیسے دے رہا تھا (یہاں وکیل کے علاوہ قانونی مشورہ دینے والے کو جعلی وکیل اور مجرم مانا جاتا ہے) ہائی کورٹ نے ایس آر اے جو وکلا کی ریگولیٹ ہے اور کریمنل ڈیپارٹمنٹ کو معاملے کی مزید تحقیق کا کہا ہے۔ شاید اب کریمنل کارروائی ہو اور جلد ہی جناب کی وجہ سے ایک لا فرم بند ہونے لگی ہے نارتھ لندن کی۔ اور کلائنٹ بیچارہ کیس ہار گیا۔ جانتے ہیں مظلوم کلائنٹ کون تھا؟ ایک انڈین۔
حقیقت واقعی فکشن سے بہت مختلف ہوتی ہے۔

Facebook Comments

انعام رانا
انعام رانا کو خواب دیکھنے کی عادت اور مکالمہ انعام کے خواب کی تعبیر ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply