سلطان جمیل نسیم صاحب، نظرمیں گہرائی، لہجے میں ٹھیراؤ،طبیعت میں شائستگی،سلوک میں وضع داری، حلم اور محبت۔ بڑے نستعلیق قسم کے بزرگ تھے اور یہ نستعلیقیت ان کی پوری شخصیت کا حصّہ تھی جو سادگی اور رنگینی کی تہذیب سے آراستہ تھی۔ان سے گفتگو میں جو لطف آتا تھا، وہ توخیر اب یادوں کا رس ہےہی مگر ان کی گفتگو کا انداز مجھے یہ بھی یاد دلاتا رہتا ہے کہ ہم کہاں کہاں اپنے معاملات کی اور اپنے رویوں کی اصلاح کر سکتے ہیں۔ گفتگو کے دوران ان کا جو خفیف مسکراہٹ کا خاموش دورانیہ ہوتا تھا، وہ انہی کا خاصہ تھا۔ یوں لگتا تھا کہ جیسے آنکھوں سے، ہونٹوں سے، چہرے سے، یہاں تک کہ مسکراہٹ سے بھی سوچنے کا کام لے رہے ہوں۔ بلکہ یہ کہنا بھی غلط نہیں ہوگا کہ گویا آنکھوں، چہرے اور مسکراہٹ،سبھی سے بولنے کا کام بھی لے رہے ہوں۔
افسانہ تو سلطان جمیل نسیم صاحب کی پہچان ہے ہی مگر ان کی آواز اور الفاظ کی ادائیگی کی بھی کیا بات۔ ان کی صداکاری کا تو ایک زمانہ معترف ہے۔ ان کی بھاری اور گہری آواز نے مجھےبھی ہمیشہ مسحور اور محظوظ کیا۔ خود انھوں نے مجھ سے بارہا شبنم رومانی صاحب کی کتاب ’’جزیرہ‘‘ کی تقریبِ رونمائی کا ذکر کیا جس کی نظامت انھوں نے کی تھی۔ذرا سوچیے کہ ایک ناظم جس کے پاس کہنے کو بھی بہت کچھ ہو، زبان پر گرفت بھی ہو، علم بھی، تربیت بھی اوران سب کے ساتھ دلپزیر آواز بھی، تو نظامت کیسی ہوتی ہوگی۔ میں خود کو بھی اس ’’ذرا سوچیے‘‘ میں شامل کرتا ہوں کیونکہ میری بدقسمتی کہ کبھی ان کی نظامت سے لطف اندوز ہونے کا موقع نہیں مل سکا مگر اس بات کا خیال اکثر آتا ہے کہ وہ یقیناً بہت اچھےناظم رہے ہوں گے۔
جب میں پچھلی بار کراچی گیا تو وہ کینیڈا سے کراچی جا چکے تھے۔ غیرمعیّنہ مدّت کے لیے۔ مجھے لازماً ان کی قدم بوسی کے لیے جانا تھا، سو حاضری دی۔ یہ میری ان سے آخری ملاقات تھی۔ وہ ہمیشہ کی طرح اس محبت سے ملے کہ ان کے پاس سے اٹھنے کو جی نہ چاہے۔ سفید رنگ کے ہلکے سےکُرتے اور تہبند میں ملبوس، سادگی کا وہی عالم تھا۔اُس دن انھوں نے اپنی اگلی کتاب کے حوالے سے کچھ باتیں کیں، اگر میں غلطی پر نہیں ہوں تو شاید وہ کتاب چھپ نہیں سکی، غالباً ان کی بیماری کی وجہ سے جو بعد میں شدّت اختیار کرتی گئی۔ ایک بار عید پہ انھوں نے پاکستان سے مجھے فون کیا، میرے لیےنہایت خوشی اور عزّت کی بات تھی۔ کہنے لگے بات کرنے کو جی چاہ رہا تھا سو فون کر لیا۔ افسوس کہ میں نے اس کے بعد ان سے جب بھی بات کرنا چاہی، تو یا ہمارے ستارے یعنی فون نہ ملا یا فون مل گیا تو اتفاق سے وہ اس وقت نہ مل سکے اور ان سے بات نہ ہو سکی، یعنی میں ہمیشہ کے لیے ان کو وہ آخری سلام کرنے سے محروم رہ گیا۔
سلطان جمیل نسیم صاحب سے اکیلےمیں گفتگو ہوتی تو بہت سی باتیں کھل کے کرتے تھے، کوئی لگی لپٹی نہیں رکھتے تھے، جو جیسا لگا کہہ دیا۔وہ قدروں کی پاسداری کے لیے فکرمند تھے لہٰذاان سے جب بھی بلا تکلّف گفتگو ہوتی، وہ موجودہ دور کی شورش اور نسلِ نو کی آنکھوں پہ مذہب کے نام پہ اپنے اپنے رنگوں کی زبردستی چڑھائی پٹیوں کے بارے میں تشویش ظاہر کرنے سے نہ چوکتے۔البتہ اپنی تمام تر وضع داری کے ساتھ، وہ اس تشویش کا اظہار بھی اپنے مخصوص دھیمے لہجے میں ہی کرتے تھے۔ادب کے نام پہ ہمارے اطراف جو سطحیّت، چمک دمک، مسخرہ پن اور تماشوں کا دور دورہ ہے، وہ اس سےنالاں تھے اور ایسی محفلوں، ان میں کی گئی باتوں اورشعبدے بازیوں پر اپنی ناپسندیدگی اور بیزار ی کا اظہار بھی نجی گفتگو میں خاصی کھل کے کرتے تھے۔ البتہ محفل میں کسی بحث میں پڑے بغیر اپنی بات مختصراً کہ دیتے تھے تاکہ جسے احساس دلانا مقصود ہو، اس تک بات پہنچ جائے۔ اس کی وجہ شاید یہی تھی کہ مجلس کے آداب اور وہ تہذیب جو ان کی ذات کا حصّہ تھی، کسی کی دل آزاری اور بے سود تلخ نوائی کا ساتھ نہیں دے سکتی تھی۔ آخری زمانے میں اُن کو دیکھ کر انکے والد صبا اکبرآبادی صاحب کا بہت خیال آتا تھا کیونکہ اُس زمانےمیں سلطان صاحب میں صبا صاحب کی خاصی شباہت ملنے لگی تھی۔
حق مغفرت کرے۔ ’’شکستہ قلعے کا ایک اور فوجی‘‘ قلعہ کی بنیادوں کا جزو ہوگیا۔ لیکن یہ جو محبت والے لوگ ہوتے ہیں، یہ ہمیشہ دل میں مکین ہوتے ہیں۔سو اس میں کوئی شک نہیں کہ سلطان جمیل نسیم صاحب اپنی خوش نوائی، دھیمے لہجے اور گہری باتوں کے ساتھ ہمیشہ ہمیں اپنے دلوں میں سنائی دیتے رہیں گے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں