افسانہ    ( صفحہ نمبر 5 )

سٹرابری/تحریر ؛ربیعہ سلیم مرزا

سمیرا کہنے لگی “مردوں کے پاس ایک کہانی کو چھپانے کیلئے کتنی کہانیاں ہوتی ہیں ۔اور ہم عورتوں کے پاس ہزار درد چھپانے کا بس ایک ٹوٹکا ۔ ” اینویں ۔۔امی یادآگئی تھیں ” میں سمیرا کی بات سُن کر←  مزید پڑھیے

ہمت کا استعارہ /خنساء سعید

زنداں میں اوندھے منہ پڑی ایک آزاد منش چڑیا درد کا استعارہ بنی ہوئی تھی ۔ اُس کے تندرست و توانا پروں میں طاقت پرواز تو تھی مگر فضائیں اُس کے مخالف کر دی گئی تھیں۔ایک لمبی اُڑان بھرنے کی←  مزید پڑھیے

بہت ان کے نقشِ قدم یاد آئے(دوم،آخری حصّہ )/علامہ اعجاز فرخ

میں ان کے گھر تو نہیں گیا مگر ہر ہفتہ میس میں ملاقات ہو جاتی۔ ہفتے کی ایک شام، میں میس کے لان کے ایک پرسکون گوشے میں کرسی ڈالے بیٹھا تھا۔ اچانک کسی نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھ←  مزید پڑھیے

ایک دوست کی آپ بیتی/آتما سمرپن-3،آخری قسط/شاہین کمال

میرے اس دور کا ایک کردار ربانی چچا بھی تھے۔ یہ ریلوے میں گارڈ تھے، جسمانی طور پر نہایت نحیف پر روحانی طور پر بہت قوی۔ خالتہ پاجامہ پر قمیص پہنتے اور بے تحاشہ چائے اور سگریٹ پیا کرتے تھے۔←  مزید پڑھیے

بہت ان کے نقشِ قدم یاد آئے(حصّہ اوّل)/علامہ اعجاز فرخ

12/ دسمبر 2022 کو مجھے دہلی جانا تھا۔ صبح دس بجے کی پرواز تھی۔ٹیلیفون پر صبح پانچ بجے کا الارم لگا دیا تھا لیکن رات میں پوری طرح سو نہیں پایا۔ کچھ بے کلی سی تھی۔ جاگا تو محسوس ہوا←  مزید پڑھیے

گاؤں سے شہر دیکھنے آئی لڑکی/مسلم انصاری

مجھے یاد پڑتا ہے اپنے ایک اور سفر سے جب میں مشرقی پاکستان کے کسی گاؤں سے شہر کے گھر لوٹا کمرے کے دروازے پہ لگا تالہ زنگ پکڑ چکا تھا انہی دنوں جب میں موجود نہیں تھا محلّے دار←  مزید پڑھیے

ایک دوست کی آپ بیتی/آتما سمرپن-2 /شاہین کمال

نواب صاحب بلاشبہ ہیرو آف ٹائیگر پاس تھے۔ اس ریسکیو آپریشن کا سہرا، نیوی کے کمانڈر اسلم اور بیس بلوچ رجمنٹ کے کپتان حفیظ کے سر جاتا ہے، جنہوں نے کئی گھنٹوں  کی  جدوجہد کے بعد ڈھاکہ ہیڈ کوارٹر سے←  مزید پڑھیے

وہ لڑکی/سعید ابراہیم

وہ لڑکی (افسانہ) وہ لڑکی میرے اعصاب پہ بری طر ح چھا چکی تھی۔ ذہن سے اس کی صورت محو ہی نہیں ہوتی تھی حالانکہ مجھے ابھی تک اس کا چہرہ بہت غور سے دیکھنے کا نہ تو موقع ملا←  مزید پڑھیے

ایک دوست کی آپ بیتی/آتما سمرپن-قسط1/شاہین کمال

برسات مجھے بہت پسند ہے پر سردیوں کی بارش میں اداسی بہت۔ بحیثیت مجموعی مجھے دسمبر ہی بہت اداس کرتا ہے۔ آدھی رات گزر چکی ہے اور صبح کا اجالا چاند کی آدھی مسافت طے کرنے کا منتظر۔ میں بند←  مزید پڑھیے

وہ آکاس سے تارے چرا لایا/سیّد محمد زاہد

طلوع و غروب آفتاب کے ارغوانی مناظر میں سوریا دیوتا کا مندر ایک خونیں کیفیت میں نظر آتا تھا۔ پروہت دونوں وقت دیوتا کے سامنے ملول و غمگین بیٹھا رہتا۔ سوریا کی یہی خونیں رنگت اکلوتی بیٹی کی آنکھوں میں←  مزید پڑھیے

دائرہ/خنسا سعید

اُس کی بے رنگ زندگی میں کوئی رنگینیاں باقی نہیں بچی تھیں. زندگی اُس سے روٹھ کر ایک کونے میں دبکی بیٹھی ہوئی تھی. وہ اُس کو منانے کی کوشش کرتا مگر بے سود۔۔ اب تو اُس کے خواب بھی←  مزید پڑھیے

پانی میں ستی/سیّد محمد زاہد

اسے انگ انگ کو صاف کرنا تھا، رواں رواں  دھونا تھا۔ ہر بن مو سے پھوٹتے پگھلتی جوانی کے عرق کو بھی پونچھنا تھا۔ بدن پر موجود دو دہائیوں کی میل پانی سے دُھلنا ناممکن تھی۔ گرچہ بوڑھی ماں دور←  مزید پڑھیے

ٹٹو/ عامر حسینی

وہ چنگ چی موٹر سائیکل رکشے سے جانب جنوب دو رویہ سڑک چک شہانہ روڈ کے بائیں طرف اُتر جاتا ہے۔ سائیڈ والی جیب سے وہ پرانا سا پرس نکالتا ہے اور سو روپے کا ایک نوٹ رکشے والے کو←  مزید پڑھیے

دوسرے کا حمل/سیّد محمد زاہد

سزا گرچہ یہ ہمارے شعبہ کا قاعدہ ہے کہ خوش پوشی اور قرینہ و سلیقہ سے زندگی گزاری جائے لیکن میری طبیعت اس سے رغبت نہیں رکھتی۔ میں درویش خصلت تو نہیں لیکن سادہ مزاج ضرور ہوں، جہاں اور جیسا←  مزید پڑھیے

نقرئی لومڑی/سیّد محمد زاہد

”کیا عجب عنوان ہے! بڑی عمر کی عورت اپنی اپیل کھو نہیں دیتی؛ 71 سالہ زینت امان نوجوانوں میں کیوں مقبول ہو رہی ہے؟” ”نقرئی لومڑی Silver Vixen اپنے چاندی کے بالوں کی جھالر لٹکائے اس عمر میں جب انسٹاگرام←  مزید پڑھیے

گمانِ محبت(2)-جمیل آصف

مڈل کلاس طبقے سے تعلق رکھتی سوسائٹی میں ابھی تک اعلیٰ  اخلاقی اقدار باقی تھیں۔ یہی وجہ ہے عرصے سے قیام پذیر خاندان ایک دوسرے کے دکھ سکھ کے ساتھی، ہر اونچ نیچ میں دست بازو بنے رہتے تھے رشتوں←  مزید پڑھیے

اجنبی چہروں کی دھول/ڈاکٹر حفیظ الحسن

ترکی کے شہر استنبول میں جمعے کی نماز کے بعد وہ سلطان احمت مسجد کے مرکزی دروازے سے سیڑھیاں اُترتے باہر نکلا۔ سامنے ٹرام چل رہی تھی۔ یہ ٹرام استبنول کے ایمینونو بِرج سے گزر کر آگے جاتی، ٹرام معمار←  مزید پڑھیے

گمانِ محبت(1)-جمیل آصف

تیز قدموں سے چلتا یونیورسٹی کے  کوریڈور میں  وہ بس اپنے آرٹیکل کے لیے کچھ مواد کے حصول کے لیے لائبریری کی طرف جا رہا تھا۔۔۔ “خطاب میری بات سننا” عظیم نے اسے پکارا اپنی ازلی جلد بازی اور اپنے←  مزید پڑھیے

ویاگرا کی دو گولیاں/سیّد زاہد محمود

اس کی زندگی میں وصل کی رت کم ہی آتی تھی؛ کبھی کبھار ملاپ کا چاند نکلتا تو وہ مد و جذر سے لطف اندوز ہو لیتی۔ نواب اختر کا دیا کرنے کو دل چاہتا تو ایک دو راتیں دان←  مزید پڑھیے

آزادی کا کتبہ /خنساء سعید

آج وادی میں لگے کرفیو کا پچیسواں روز تھا، چودھویں کا چاند اپنی پوری آب و تاب سے چمک رہا تھا، اپنی ٹھنڈی میٹھی روشنی کی مہربان کرنیں ہر اندھیر کوٹھڑی کے قیدی کو دان کر رہا تھا۔کرفیو نے روشنی←  مزید پڑھیے