میرے اس دور کا ایک کردار ربانی چچا بھی تھے۔ یہ ریلوے میں گارڈ تھے، جسمانی طور پر نہایت نحیف پر روحانی طور پر بہت قوی۔ خالتہ پاجامہ پر قمیص پہنتے اور بے تحاشہ چائے اور سگریٹ پیا کرتے تھے۔ وہ کہیں بہت دور سے آیا کرتے تھے اور محلے میں سب کی خیر خبر لیتے اور تسلی دلاسے سے نوازنے کے ساتھ ساتھ وظائف بھی بتایا کرتے۔ ان کا دم بہت غنیمت تھا، جیسے ڈوبتے کو تنکے کا سہارا۔
ان دنوں کے ڈوبتے سورج میں شفق کی سرخی خون آلودہ ہوا کرتی تھی گویا آسمانوں میں مشرقی پاکستان کا نوشتہ تحریر کر رہی ہو۔ رات ہوتے ہی کتوں کے رونے کی آوازوں سے عجیب سی یاسیت اور نحوست چھا جاتی۔ اجناس کی شدید قلت، رات کا کرفیو، دہشت، خوف، سردی اور تاریکی انسانی سائیکی پر بھرپور طریقے سے حملہ آور ہو چکی تھی۔ بلآخر وہ منحوس ساعت آ گئی جس کی یاد آج بھی دل پر خراش ڈالتی ہے۔ ہم سب حبیب اللہ چچا کے گھر تھے اور وہی باہر سے یہ دل فگار خبر لائے کہ سرنڈر۔
یعنی “اتما سمرپن” ہوگیا ہے اور شام میں جرنل نیازی رمنا پارک میں باقاعدہ ایک تقریب میں اپنا ریوالور دشمن کے حوالے کر دیں گے اور ان کے تمغے اور پیٹی بھی بھرے مجمعے کے سامنے اتار لی جائے گی۔ ہائے ہزیمت سی ہزیمت۔ یہ خبر سنتے ہی چچی بلک بلک کر رونے لگیں، چچی سینتالیس میں انڈیا سے اپنے سارے عزیزوں کو گنوا کر پاکستان پہنچیں تھیں اور اس وطن کی محبت میں انہوں نے آگ اور خون کا دریا عبور کیا تھا۔ گھر میں ہر شخص اداس اور بکھرا ہوا تھا اور اس شام میں بھی باوجود بچہ ہونے کے بہت رویا، بے حساب رویا۔
سقوط کی خبر پھیلتے ہی چاٹگام کے وہ علاقے جہاں بہاری قلیل تعداد میں تھے راتوں رات اپنے کنبے کے ساتھ پیدل ہی سردار بہادر اسکول کی جانب بھاگ بھاگ کر آنے لگے، راہ میں بلوائیوں کے ہاتھوں کئی لوگ شہید اور زخمی ہوئے اور لاتعداد لڑکیاں لا پتہ ہوئیں۔
سترہ دسمبر کی سہ پہر جیپ میں ایک پاکستانی فوجی افسر کے ساتھ ایک بھارتی افسر آیا اور اس نے میگا فون پر اعلان کرکے سب کو سردار بہادر اسکول کے سامنے والے میدان میں جمع ہونے کا حکم دیا۔ اس نے سقوط کا بتاتے ہوئے، ہم لوگوں کو تحمل اختیار کرنے کا کہا اور کہنے لگا کہ بہاری اکثریتی علاقوں کے تمام داخلی دروازے پر انڈین آرمی کی بہار ریجمنٹ کے سپاہی تعینات ہیں۔ آپ پریشان نہ ہوں، ہم آپ کی مقدور بھر حفاظت کریں گے۔
اللہ اللہ رے بدنصیبی “جو اماں ملی تو کہاں ملی۔ ”
انڈین آرمی نے وائرلیس کالونی کے وائرلیس آفس کو اپنا عارضی ہیڈ کواٹر بنایا اور یہ وہاں مارچ انیس سو بہتر تک رہی اور پاکستانیوں کی حفاظت کی ذمہ داری اپنے قول کے مطابق احسن طریقے سے نبھائی۔ بھارتی فوج کے واپس جانے کے بعد پاکستانیوں کی جو عارضی پناہ تھی وہ جاتی رہی کہ اب حفاظت بنگلہ دیش آرمی اور پولیس کی ذمہ داری تھی۔ ان کی موجودگی میں وہ بربریت کا طوفان اٹھا کہ الامان الاماں کیوں کہ انہوں نے شرپسندوں کو بہاریوں کے خلاف لائسنس ٹو کِل جاری کر دیا تھا۔
انیس سو بہتر کے جنوری میں سردار بہادر اسکول میں ریڈ کراس کا دفتر قائم ہوگیا۔ وہاں ریڈ کراس کا پرچم لہراتا اور وہ زمین کا ٹکڑا مانو خطئہ امن تھا۔ دیکھتے ہی دیکھتے اسکول اور اس سے متصل گراؤنڈ میں سب خاندانوں کو آٹھ بائی آٹھ کا جھونپڑا الاٹ ہوگیا اور فی کس تین سیر گندم کی راشن بندی بھی، جو جسم و جان کا رشتہ جوڑے رکھنے میں معاون تھی۔ اکثر راتوں کو کیمپ سے لڑکے بالٹی اور بڑی دیگ لے کر نکلتے اور گھر گھر دستک دیتے۔ جس سے جو بن پڑتا ان کی بالٹی میں ڈال دیتا کہ وہ بڑے بےکس اور مجبور دن تھے۔
اب کثرت سے ایسٹ پاکستان سول آرمڈ فورسز کے زخمی جوان بھی کیمپ پہنچنا شروع ہو گئے تھے، جنہیں کیمپ میں ہی آدھی ادھوری طبی امداد فراہم کی جاتی۔ کئی البدر اور الشمس کے رضاکار راستے میں ہی باغیوں کے ہتھے چڑھ کر شہادت کے رتبے پر فائز ہوئے۔ یہ پاکستان کے وہ گم نام سرفروش ہیں جن کے ناموں کا اندارج پاکستان میں کہیں بھی نہیں۔ انسانی جبلت بھی عجیب و غریب ہے کہ اس دور نا خوشگوار میں ایک نیا طبقہ وجود میں آیا۔
“دلال طبقہ” یہ بھاری قیمت کے عوض مجبور اور بے کس لوگوں کو برما پہنچاتے اور وہاں سے پاکستان ایمبیسی ان لوگوں کو پاکستان روانہ کرتی۔ اس کاروبار میں کئی لوگ راتوں رات لکھ پتی بن گئے۔ کچھ بد ترین اور بد خصلت لوگ مخبر بن گئے۔ لوگوں پر پاکستانی حکومت سے تعاون کا الزام لگا کر ان کے خلاف ایف آئی آر کٹنے لگی۔ اس آڑ میں پرانی دشمنیاں بھی نکالی گئیں اور اس بہانے مجبور لوگوں سے ان کی جائیدادوں کے کاغذات بھی قبضے میں لیے گئے۔
ایک لوٹ کا بازار گرم تھا اور اس کاروبار میں پولیس اور مکتی باہنی کی چاندی ہی چاندی تھی۔ سب سے خطرناک مخبروں کا وہ ٹولا تھا جو جوان اور خوبصورت لڑکیوں کی مخبری کرتا تھا۔ جس گھر میں جوان اور خوبصورت لڑکیاں ہوتی وہ گھر نشان زدہ ہوتا اور وہاں چھاپا پڑتا اور لڑکیاں غائب کر دی جاتیں۔ پولیس اور آرمی والے اسلحے کی تلاش کے بہانے گھروں پر چھاپا مارتے اور جو کچھ پسند آتا لے جاتے، چاہے وہ چیز ہو یا عورتیں۔
میرے والد اشرف علی خان کو بھی پولیس دو دفعہ پکڑ کر لے گئی اور میری دادی روتی پیٹتی، قرضہ بینا کرکے والد کو چھڑا کر واپس گھر لائیں۔ مکتی باہنی کا ایک رکن تھا سلام کالا۔ اسے لوگوں کو اذیت دے کر مارنے میں بڑا شہرہ حاصل تھا۔ اس کا من پسند طریقہ یہ تھا کہ وہ نوجوانوں کی ایک ٹانگ درخت سے اور دوسری اپنی جیپ کے بمپر سے باندھ دیتا اور پھر پوری رفتار سے جیپ چلا دیتا۔ بد نصیب انسان کا بدن دو ٹکڑوں میں تقسیم ہو کر بےکسی سے پھڑکتا رہتا۔ جب اذیت کا دورانیہ بڑھانا چاہتا تو یہی عمل آہستہ آہستہ اور بار بار دہراتا۔ انسان شاید دو انتہاؤں، رحمانیت و سفاکیت کا مجموعہ اور انسانی سائیکی عجیب گورکھ دھندہ۔
انیس سو بہتر کا پورا سال اسی بربریت میں گزرا۔ ہم لوگ بچتے بچاتے قسطوں میں پاکستان آئے اور یہاں نئے سرے زندگی شروع کی۔ کچھ عرصہ عزیزوں، رشتہ داروں کے گھر رہے پھر کرائے کے گھر کا بندوست ہوا اور ہم لوگوں کی تعلیم کا سلسلہ دوبارہ شروع ہوا۔ ان سب اکھاڑ پچھاڑ میں اماں شاید بہت تھک چکی تھیں کہ انہیں ہڈیوں کا روگ لگ گیا اور وہ محض چالیس سال کی عمر میں ہم سب کو بلکتا چھوڑ گئیں۔ اماں کے جانے سے ابا جان بالکل ٹوٹ گئے کہ ان دونوں کا رشتہ بڑا اٹوٹ تھا۔
میں نے ابا جان کا بازو بننے کی بھرپور کوشش کی اور اپنی پڑھائی کے ساتھ ساتھ چھوٹی موٹی نوکری بھی کرتا رہا۔ گھر میں بہنوں کو بہلانے کا جتن بھی کرتا اور الحمدللہ میں اس میں خاصی حد تک کامیاب بھی رہا۔ میں نے ٹیکسٹائل انجینئرنگ کی اور کچھ عرصے نوکری کرنے کے بعد اللہ کا نام لیکر اپنا ایکسپورٹ کا بزنس شروع کیا اور اللہ تعالیٰ نے بےحساب کامیابی عطا کی۔ بہنیں اپنے اپنے گھر کی ہوئیں، میرا بھی گھر بس گیا اور اب میں ہی اپنے کنبے کا بڑا ہوں کہ ابا جان زیادہ عرصہ اماں سے دوری برداشت نہیں کر سکے۔
ساری زندگی نرم گرم حالات کا سامنا رہا مگر اللہ تعالیٰ پہ کامل توکل نے زندگی آسان رکھی اور یہ قیمتی سبق بھی سکھایا کہ دولت، شہرت، صلاحیت اور اپنے لوگ، حتیٰ کہ اپنا جسم بھی اپنا نہیں بس ہر ذی روح اس کے کن کا محتاج ہے۔ وہ مہربان تو آپ کے سارے کام اور راستے آسان۔
ارے فجر کی آذانیں ہونے لگیں ہیں۔
ساری رات اپنے ماضی میں بتا کر میں وآپس زمانہ حال میں لوٹ آیا۔
میں حاضر میرے مالک، میں حاضر۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں