آزادی کا کتبہ /خنساء سعید

آج وادی میں لگے کرفیو کا پچیسواں روز تھا، چودھویں کا چاند اپنی پوری آب و تاب سے چمک رہا تھا، اپنی ٹھنڈی میٹھی روشنی کی مہربان کرنیں ہر اندھیر کوٹھڑی کے قیدی کو دان کر رہا تھا۔کرفیو نے روشنی سے جگمگاتے گھروں کو اندھیر کوٹھڑیاں بنا دیا تھا، اور گھروں کے مکین قیدی بن کر رہ گئے تھے۔
قیدیوں کی کوٹھڑیوں میں اندھیرے کا راج کرتا تھا اور رات تو گویا کوئی قبر کا سماں پیش کرتی ،ایسا جان لیوا اندھیرا ہوتا کہ ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہ  دیتا۔

ہر ایک کوٹھڑی کے قیدی کو بھوک پیاس خوف و ہراس نے نڈھال کر رکھا تھا، باہر گلیوں اور سڑکوں پر بھاری بوٹوں کی دھمک قیدیوں کے دل و دماغ کو لرزا دیتی وہ سانس بھی آہستہ لیتے کہ کہیں کسی درندے کو اس کی آواز نہ  پہنچ جائے۔ یہاں عجیب قسم کے درندوں کا راج تھا جو انسانوں کو نگلنے کے لیے دانتوں اور پنجوں کا استعمال نہیں کرتے تھے بلکہ رائفلوں، بندوقوں اور بموں سے انسانوں پر وار کرتے تھے۔

رات کے آخری پہر ایک کوٹھڑی سے سسکیوں کی آوازیں آہستہ آہستہ بلند ہوتی جارہی تھیں، ماں باپ ان معصوم سسکیوں کو روکنے کے لیے منہ پر ہاتھ رکھ رہے تھے پھر بھی آواز نا دب رہی تھی۔
” بھوک لگی ہے،
بابا ہمیں بھوک لگی ہے۔” بچے نقاہت بھری آواز سے کہہ رہے تھے۔
بچو! میرے بچو خدا کا واسطہ ہے چپ کر جاؤ ورنہ درندے آ جائیں گے اور ہم سب کو کھا جائیں گے۔
مگر اب بچوں کی ہمت جواب دے رہی تھی وہ بھوک سے تڑپ رہے تھے اُن کی سانسیں اُکھڑنے لگی تھیں۔ ماں باپ سے بچوں کی یہ حالات دیکھی نہیں جا رہی تھی آخر باپ اُٹھا اور اپنی جان کی پروا کیے بغیر دبے پاؤں دروازے کی جانب بڑھنے لگا۔

وادی میں لگے کرفیو کی وجہ سے تقریباً ہر گھر سے راشن ختم ہو چکا تھا لوگ بھوک پیاس سے تڑپ رہے تھے، باہر مارکیٹیں بند، سکول بند، ہسپتال بند، جنرل سٹور ہر چیز بند تھی۔ رَاکھشس ہر وقت ہاتھوں میں رائفلیں پکڑے موت کا سایہ بن کر وادی میں گھومتے رہتے تھے۔

ہلکی سی چرچراہٹ سے دروازہ کھلا، اُس نے تھوڑی سی گردن نکال کر باہر دیکھا وہاں کوئی درندہ نہیں کھڑا تھا۔ وہ جلدی سے دوڑتا ہوا اپنی گلی سے نکل کر دوسری گلی میں گیا جہاں اُس کے بھائی کا گھر تھا کہ شاید وہاں اس کو کھانے کے لیے کچھ مل جائے۔

اُس نے دروازہ کھٹکھٹانے کے لیے ابھی ہاتھ بڑھایا ہی تھا کہ ایک رائفل اُس کے سر پر رکھ دی گئی۔
“کیوں آئے ہو تم باہر، کیا تم زندہ نہیں رہنا چاہتے۔” رائفل رکھنے والے درندے نے درشتی سے سوال کیا۔
“میرے بچے بھوک سے موت کے کنارے کھڑے ہیں اُن کے لیے راشن کی تلاش میں نکلا ہوں سامنے سے بہادری سے جواب آیا”
قیدی کی بہادری دیکھ کر درندے کا خون تلملا اُٹھا، رائفل اُس کے سر پر ہنوز تانے کہنے لگا،
” چپ چاپ میرے آگے آگے اپنے گھر کی طرف چلتے جاؤ”

وہ مزاحمت کرنا چاہتا تھا مگر پھر خاموشی سے اُس کے آگے آگے چلنے لگا، گھر میں داخل ہوتے رائفل والے درندے کو دیکھ کر اُس کے بیوی بچوں کی حالت غیر ہونے لگی،
بچے ڈر کر ماں سے چمٹ گئے درندے نے گھر میں داخل ہوتے ہی بچوں کو ماں سے الگ کیا اور دھاڑتے ہوئے کہنے لگا۔۔
“ان کے لیے تم نے مجھے آنکھیں دکھائیں تھیں، ان کے لیے تم راشن ڈھونڈنے نکلے تھے دیکھو اب تمہاری آنکھوں کے سامنے تمہارے بچوں کو تمہاری بہادری کی سزا ملے گی یہ کہتے ہی اُس نے رائفل سے اُس کی بیٹیوں کو بھون ڈالا، وہ اپنی بچیوں کو مرتے دیکھ کر پاگل ہو گیا ،وہ درندے کو گلے سے پکڑ کر گالیاں دینے لگا اُس کے منہ پر تھوکنے لگا، درندہ مزید طیش میں آ گیا اُس نے اُس کے سر میں بھی رائفل کی گولیاں اُتار دیں اُس کی بیوی یہ سارا منظر دیکھ کر بے ہوش ہو چکی تھی  اور بیٹا ایک کونے میں سکتے کے عالم میں بیٹھا یہ سب دیکھ رہا تھا، درندہ اب اُس کے بیٹے کی جانب بڑھنے لگا، بچے کو  منہ سے پکڑ کر اُسے اپنے مقابل کھڑا کر کے آنکھوں میں نفرت کے الاؤ روشن کیے پوچھنے لگا،
بتاؤ تم کیا چاہتے ہو مرنا چاہتے ہو، یا کچھ کھانا چاہتے ہو۔۔
بچے نے بہادری سے اُس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا
“آزادی”
آزادی چاہتے ہیں ہم، سنا تم نے
یہ سن کر وہ بہت حیران ہوا کچھ لمحے سوچنے کے بعد بچے کو اُٹھا کر اپنے ساتھ لے گیا۔۔وادی میں گولیوں کی تڑتراہٹ سن کر سب نے یک لخت کہا، آج پھر کسی کی مزاحمت خون میں نہا گئی۔

جب ماں کو ہوش آیا تو اُس نے دیکھا وہاں خون میں لت پت تین لاشیں پڑی ہیں دو اُس کی بیٹیاں اور ایک اُس کا شوہر مگر اُس کا بیٹا، وہ تو کہیں بھی نہیں تھا اُس نے اپنے ذہن پر زور ڈالا تو اُسے  کچھ دیر  پہلے  کا سانحہ یاد آنے لگا، اُس کی بیٹیوں اور شوہر کو اُس کی آنکھوں کے سامنے مارا گیا تھا، اُس کا بیٹا غائب تھا وہ اُٹھی اور گھر کا ایک ایک کونہ دیکھ لیا بیٹا زندہ اور مردہ کسی بھی حالت میں پورے گھر میں نہیں تھا وہ بیٹے کو آوازیں لگاتی ہوئی گھر سے باہر بھاگنا چاہتی تھی مگر دروازہ باہر سے لاک کر دیا گیا تھا۔

کرفیو میں لاشوں کو اٹھانے اور دفنانے والا کوئی نہیں تھا، لاشیں اُس کی آنکھوں کے سامنے پڑی رہیں ، بیٹے کے شاید ٹکڑے کر کے باہر کہیں پھینک دیے گئے تھے، وہ مر جانا چاہتی تھی مگر موت بھی اُسے اپنی مہربان آغوش میں نہیں لے رہی تھی۔

وقت گزرتا گیا وادی سے کرفیو ختم ہوا، کئی محاصرے ٹوٹے، آزادی کے نام پر لاکھوں جانیں قربان ہو گئیں، ماں بہنوں بیٹیوں نے اپنی جانیں اپنی عصمتیں لٹا دیں، نوجوانوں کے خون سے کوہساروں  کے دامن رنگین ہوئے مگر وادی کشمیر کو اُس کی آزادی کا سورج دیکھنا نصیب نہ  ہوا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

دس سال کا عرصہ گزر گیا، اُس نے اپنی زندگی کے یہ دس سال نیم پاگل حالت میں گزارے وہ اپنے بیٹے کو کبھی خون سے رنگین، کبھی سسکیوں آہوں کراہوں سے بلکتی روتی اور کبھی چیتھڑوں سے لپٹی سڑکوں پر ڈھونڈتی رہتی مگر وہ کہیں نہ  ملتا، آخر وہ اپنے گھر کے ایک کمرے میں آ کر دبک کر بیٹھ جاتی ، آس پڑوس کے لوگوں سے کبھی بات نہ  کرتی، وہ ہنسنا بھول چکی تھی ویران آنکھوں سے بس اپنے بیٹے کی راہ تکتی رہتی دن میں کئی بار دروازہ کھول کر دیکھتی کہ شاید اُس کا بیٹا لوٹ آیا ہے اور دروازے پر دستک دے رہا ہے
مگر ہر بار نا اُمید واپس لوٹتی۔
آج دس سال کے بعد اُس کی ہمسائی نے اُسے ہنستے دیکھا، اُسے لگا کہ شاید اُس کا بیٹا لوٹ آیا ہے، دیوار پر سے آواز لگا کر پوچھنے لگی۔۔
نوشابہ، حیرت سے ہو، آج بڑی مطمئن سی نظر آ رہی ہو، کیا قاسم لوٹ آیا ہے؟؟
یہ سن کر وہ بھاگتی ہوئی دیوار کے پاس آکر اپنی چمکتی ہوئی آنکھوں سے کہنے لگی۔۔
“ہاں ہاں یہ ہی سمجھو،
میرے قاسم میرے بہادر بیٹے کی قبر مل گئی ہے یہ کہہ کر اُس نے ایک قہقہہ لگایا۔۔۔اُس ہمسائی کو اٗس کا قہقہہ بڑا خوفناک محسوس ہوا۔۔۔
تمہیں پتہ ہے میں نے اُس کے لیے ایک کتبہ بھی تیار کروا لیا ہے،تم یہیں رُکو میں تمہیں لاکر دکھاتی ہوں یہ کہہ کر وہ بھاگتی ہوئی اپنے کمرے میں گئی اور کتبہ اُٹھا لائی۔۔۔
یہ دیکھو یہ رہا کتبہ، اور اس کے اوپر دیکھو ذرا میں نے کیا لکھوایا ہے۔؟
” آزادی”۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply