ویاگرا کی دو گولیاں/سیّد زاہد محمود

اس کی زندگی میں وصل کی رت کم ہی آتی تھی؛ کبھی کبھار ملاپ کا چاند نکلتا تو وہ مد و جذر سے لطف اندوز ہو لیتی۔ نواب اختر کا دیا کرنے کو دل چاہتا تو ایک دو راتیں دان کر دیتے ورنہ تنہائیوں میں اس کا بدن چونے کی بھٹی کی طرح دہکتا رہتا۔ نواب اختر سر شام باہر جانے لگتے تو مہرالنساء کئی بار روکنے کی کوشش کرتی۔ وہ اپنی برائی کو اس کے سر منڈ ھ دیتے۔
”اس گھر کی عورتیں اسرار عشق سے واقف نہیں، یہ جوانی کے حال زار سے آگاہ ہی نہیں، ان کے پاس مردانگی کے درد نہاں کا کوئی علاج نہیں۔”
اسے شادی کے پہلے دن ہی دو عجیب ہدایات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ دونوں ہی اس کی سمجھ سے بالا تھیں۔
پہلی بات نواب زادہ اختر علی شاہ نے کی تھی۔
”تم پڑھی لکھی ہو۔ پہلے تو میرے پلے ان پڑھ باندھی گئی تھی۔ وہ نواب زادی تھی لیکن حویلیوں کے ادب آداب سے بالکل ناواقف۔ تقسیم کے بعد جاگیریں تو گئی ہی تھیں خاندان اپنی پہچان بھی بھول گئے۔ تم نواب واجد علی شاہ کی کتاب ‘پری خانہ’ پڑھ لو، تمہیں نواب خاندان کے مردوں کی ضروریات اور خواہشات کا پتا چل جائے گا۔”
دوسرا مشورہ گھر کی پرانی ملازمہ چھنو کا تھا
”کسی طریقے سے نواب زادہ کو ملازم خاص گونی ‘حرام کے جنے’ سے دور کر دو۔”
شروع شروع میں دونوں میں محبت کا وہ ارتباط رہا جس کا اس نے سوچا بھی نہیں تھا۔ اسے نواب زادہ میں کوئی برائی نظر نہیں آئی۔ بس عمر زیادہ تھی لیکن وہ اس کی زلف گرہ گیر کا ایسا اسیر ہوا کہ کاروبار اور زمینیں بھی بھول گیا۔ سیاست بھی ان دنوں ٹھنڈی ہی تھی۔ حلقہ میں کبھی کبھی چکر لگانے چلا جاتا تو سورج ڈھلنے سے پہلے ہی واپس آ جاتا۔ پینا پلانا تو نوابوں کا شوق ہوتا ہے، یہ قابل قبول تھا۔ تھوڑی بہت پی لیتا تو مزید مست ہوجاتا۔
دو چار ماہ گذرے تو بوڑھی عورتوں کی باتیں سمجھ آنا شروع ہوئیں۔ چھنو اس کی ہم راز بن چکی تھی۔
”بٹیا، مرد ساون بھادوں کے بادلوں کی طرح ہوتے ہیں۔ شروع شروع میں خوب برستے ہیں۔”
وہ حیرانگی سے اس کی طرف دیکھ رہی تھی۔
چھنو چالیس کے پیٹے میں تھی۔ گندمی رنگ، سڈول جسم، آنکھوں میں ہمیشہ شرارت آمیز شوخی چھائی رہتی تھی۔ بڑی طرح دار اور خوش مزاج عورت تھی۔
”کیا کہنا چاہتی ہو؟”
”سمجھا رہی ہوں۔ سوکھے کا موسم آتا ہے تو آسمان آگ برسانے لگتا ہے۔ مرد پت جھڑ کے سوکھے پیڑ بن جاتے ہیں۔ کبھی گھٹائیں امڈتی ہیں تو عورت کی انکھیوں میں بدرا جگہ بنا لیتا ہے۔ پھر عورت کو ہی حیلے بہانے تراشنے پڑتے ہیں۔”
چھنو نے ساری جوانی اسی حویلی میں بتائی تھی۔ ازدواجی گٹھ بندھن میں نہیں بندھی تھی لیکن صاحب اسرار تھی اور بھوگ بلاس کے سارے رموز سے واقف بھی۔ چھنو جب شب زفاف کی صبح کو سٹھورے کے ساتھ پان کے مرکب عرق کا شیشہ اس کے پینے کے واسطے لائی تھی تو اس وقت اس کو کہنی مار کر کہا تھا
” بٹیا، سارا پی لو! تمہیں اس کی بہت ضرورت ہے۔ کچھ دنوں کے بعد یہ حلق سے نیچے نہیں اترا کرے گا۔”
چھنو اسے وہ بات یاد دلا کر کہنے لگی ”نواب صاحب کی پہلی بیوی بھی بنا سیاں کے سیج سجائے بیٹھی رہتی تھی۔ وہ پیاسی مر گئی۔ جوانی کی پیاس تو تنبول کے پیالے چڑھانے سے بھی نہیں بجھتی، کبھی کبھار ملنے والے دو گھونٹ اسے کیا کم کریں گے؟ وہ تو اسے مزید بڑھکاتے ہیں۔”
چھنو کی ساری باتیں سچ تھیں۔
مہرالنساء کا ذہن بھٹک رہا تھا۔ اسے چھنو ہی کوئی راستہ دکھا سکتی تھی۔
”بتاؤ، پھر میں کیا کروں؟”
” یہ گونی،حرام کا جنا، تمہارے خصم کی راکھیل بنا ہوا ہے اس سے جان چھڑاؤ۔”
”وہ ان کے ساتھ سائے کی طرح جڑا رہتا ہے۔ نواب صاحب کھانا بھی اکثر اسی کے ہاتھ کا پکا کھاتے ہیں۔”
”بٹیا! وہی ساری برائی کی جڑ ہے۔ میں نے تمہیں پہلے دن ہی سمجھایا تھا کہ اس کو لگام ڈالو۔”
وہ دریائے تفکر میں ڈوب کر اپنا ہاتھ دانتوں سے کاٹنے لگی۔
“کیسے؟”
“میں کیا بتا سکتی ہوں؟”
“تم کل اسے میرے پاس بلا کر لانا۔”
“وہ حرامی مرغی خانے میں پڑا رہتا ہے۔ اس کے پاس کون جائے؟ کھڑے کھڑے آنکھوں کے بالشتوں سے اونچ نیچ ماپنا شروع کر دیتا ہے۔ اصیل مرغوں کے درمیان اصیل گھوڑا بنا پھرتا ہے۔ حرکتوں سے لگتا ہے وہ انہیں نوابوں میں سے کسی کا نطفہ ہے۔”
اگلے دن وہ اس کے سامنے نظریں جھکائے بیٹھا تھا۔
“جی، بی بی جی!”
وہ اس سے باتیں کرتی رہی۔ نواب زادہ کی پسند ناپسند کے بارے میں پوچھتی رہی۔ وہ واقعی بہت حرامی تھا۔ پکڑائی ہی نہیں دیتا ہے۔ اس کی کسی بات کا سر تھا، نہ پاؤں۔ کھوچل، جھلا ہونے کی اداکاری کرتا رہا۔
مہرالنساء نے واجد علی خاں کی پری خانہ بھی منگوا لی۔ عجیب و غریب کہانیاں تھیں۔ پوری کتاب میں نواب ناچ گانے، پریوں اور بیگمات کے ناز و اغماض میں کھویا نظر آتا ہے۔ جو جو حاملہ ہوتی جاتی اسے پردے میں بٹھا دیتا، اس کی اپنی رنگ رلیاں جاری رہتیں۔
اب بات کچھ حد تک سمجھ آگئی تھی۔
اگلے دن چھنو اس کی ٹانگیں دباتی ہوئی پھر راز و نیاز کر رہی تھی۔
”ہائے ہائے یہ سڈول پنڈلیاں، یہ رانیں۔”
“خبردار! اوپر ہی بھاگتی جاتی ہو۔ صرف پنڈلیاں دباؤ۔”
”بٹیا ! تمہاری رگوں میں اینٹھن ہے کہو تو مالش کردوں۔”
ساتھ ہی بھاگ کر گرم تیل پکڑ لائی اور شروع ہوگئی۔
“تم مساج کی بہت ماہر لگتی ہو۔”
“ایک یہی ہنر تو حویلی میں کام آتا ہے۔”
“کس کس پر آزما چکی ہو؟”
چھنو نے سنی ان سنی کر کے اپنی بات جاری رکھی۔
“جسے یہ کام آتا ہے وہ بھوکا نہیں مرتا۔” آنکھیں مٹکاتی ہوئی بولی۔
مہرالنسا کے ذہن میں پری خانہ کی کہانیاں گھوم رہی تھیں۔ وہ سوچتے جا رہی تھی اور چھنو زور زور سے رگڑا جاری رکھے ہوئے تھی۔
“تو کسی دن اپنا یہ فن اس حرام زادے پر بھی آزما کر دکھاؤ۔”
چھنو کے ہاتھ یک دم رک گئے۔ تھوڑی دیر اس کی طرف دیکھتی رہی۔ مہرو نے زور سے ایک دھپا اس کی کمر پر لگایا تو چھنو پھر شروع ہوگئی۔
“وہ حرامی تو صرف ایک اشارے پر میرے پاؤں چاٹنے لگے گا۔ آپ کے لیے یہ بھی کر گذروں گی۔”
کچھ دیر خاموش رہی۔
“کل ہی وہ آپ کے قدموں میں پڑا کتے کی طرح دم ہلا رہا ہوگا۔ اس کے پیٹ سے سارے راز یوں نکلیں گے جیسے اس کی چاتر ماں نے حرامی کو کسی دائی کی اعانت کے بغیر، بنا دردیں لیے، شتابی جنا تھا۔ ”
چھنو نے گھاٹ گھاٹ کا پانی پیا تھا۔ بڑے آرام سے بات الٹا دی۔
اسی وقت پاس سے ایک ملازمہ گذری۔
مہرو نے اس کی طرف دیکھا تو چھنو بولی۔
”بٹیا اس بت طناز کودیکھو۔ اس کی دادی جوناگڑھ کے محلات میں خدمت گذاری کرتی رہی ہے۔ دیکھیں! عجب ناز و انداز سے چلتی ہے۔ کنیزیں ختم ہو گئی ہیں لیکن عادات تو نسل در نسل ساتھ نبھاتی ہیں۔”
”سکھ بدن، ادھر آؤ۔” مہرالنساء نے اسے بلایا
”میرا سر دبانا۔ ”
”میں تیل لگا دوں؟” چھنو کہنے لگی۔
”نہیں۔ تم تھک گئی ہوگی۔ جاؤ! آرام کرو، کب سے مالش کر رہی ہو۔ ہاں! تم اس کے ساتھ ایک دو اور لڑکیوں کو بھی یہ کام سکھا دو۔”
***
اگلے دن ہی گونی حرام کا جنا اپنی بک بک سنا رہا تھا۔ وہ سنتی اور سوچتی جا رہی تھی۔ اس کا دماغ نواب واجد علی شاہ کی’ پری خانہ’ میں الجھا ہوا تھا۔ کنیزوں اور داسیوں کی کہانیاں۔ بیگمات کا جلاپے کے مارے جل کر کباب ہو جانا اور آتش رشک کا بھڑکنا۔ بادشاہوں کی موجیں، بیگمات کا مشکلات کا حل ڈھونڈنا۔
نوابی تو چلی گئی تھی عادات چھوڑ گئی تھی۔
اگلی صبح وہ نواب زادہ اختر کے سامنے پورے اعتماد کے ساتھ کھڑی تھی۔
”مجھے ڈھول باجوں کے ساتھ بیاہ کر لا یا گیا ہے۔ میں خاندانی عورت ہوں۔ آپ کی بتائی کتاب پڑھ چکی ہوں۔ نواب خاندان کے آخری چشم و چراغ کی امیدوں پر پوری اتروں گی۔”
”مجھے تم سے یہی امید تھی۔”
”آپ میرے ہیں، میرے ہی رہیں گے۔ ہاتھی پھرے گاؤں گاؤں، جس کا ہاتھ اس کا ناؤں۔”
”واہ! خوش کر دیا۔”
”میری جاں آپ پر تصدق۔ اس لونڈی کو خدمت کا موقع دیں۔”
وہ خوش ہو رہا تھا کہ اس کی بیگم جان گئی ہے اس کو خوش رکھے بغیر کسی کا بھی خوش و خرم زندگی گذارنا محال ہے۔
”آپ حکم فرمائیں۔ نواب واجد علی خاں کی محلات کی طرح میں بھی وعدہ کرتی ہوں کہ آپ کا جس پر بھی دل آئے اس سے عشق کیجئے، میں ہرگز مزاحم نہ ہوں گی بلکہ آپ کی رازدار رہوں گی۔”
”کیا خدمت کر سکتی ہوں؟”
”آپ حکم فرمائیں آپ کی پسند کے مطابق بہت کچھ پیش کیا جا سکتا ہے۔ اب دور بھی بدل گیا ہے بازاروں کی خجل خواری سے بہتر ہے کہ آپ کا ستارہ اقبال اسی حویلی میں جلوہ افروز ہو۔”
***
راہداریوں کی تزئین و آرائش کے لیے خاص اہتمام کیا گیا تھا۔ فرشوں پر گدگدے سرخ قالین بچھائے گئے تھے۔ چھت پر لٹکتے فانوس معشوق اصلی کی تصویر کی مانند روشن تھے۔ حویلی کے اس حصے کو خصوصی طور مکلف و آراستہ کیا گیا تھا۔ کمرے کو بھی کسی نو عروس کی طرح سجایا گیا تھا۔
کمرے سے متصل طعام خانے کے بیچوں بیچ نفیس شیشے کی میز بچھائی گئی تھی۔ جس پر شیشے، پتھر اور سونے چاندی کے برتنوں میں طرح طرح کے کھانے پروسے گئے تھے۔ میز کے مرکز میں پڑی سونے کی رکابی میں موجود مرغ مسلم کی اشتہا انگیز خوشبو روح کو اسیر کر رہی تھی۔ اس کے پاس موجود آبگینہ مے سے صہبائے ارغوان چھلک رہی تھی۔ میز کے چاروں کونوں میں ریشمی ظروف اور گلدانوں میں جوان ہونٹوں کی پنکھڑیوں کے ہم رنگ گلاب، نازک و ملائم گیندے، مثل آفتاب و مہتاب چمکتے زرد و سفید رنگ کے گل داودی اور جنسی اشتہا کو بڑھکانے والے اسطخودوس کی اودی اودی ٹہنیوں کے درمیان چمبیلی کے پھول سجا کر عاشق کی گود میں محبوب کو بٹھا دیا گیا تھا۔ پورا طعام خانہ رشک ارم تھا۔
میز کے ایک کونے میں دو جواہر نگار اور مرصع کرسیاں بچھائی گئی تھیں۔ اس مہتاب اغذیہ کے اطراف گل رخ پریاں اور کنیزیں ہالہ بنائے کھڑی تھیں۔
نواب زادہ اندر داخل ہوا تو ایک سیمی تن، سرو چمن ملازمہ عرق گلاب سے بھرا پیالہ جس میں پھولوں کی پتیاں اور لیموں کی کاشیں تیر رہی تھیں، اٹھا لائی۔
نواب زادے نے ہاتھ دھوئے تو ایک اور حور بدن، گل پیرہن کنیز نے اپنا معطر دوپٹہ پیش کیا۔ اس نے ہاتھ صاف کیے تو کنیز نے وہ دوپٹہ چوم کر اپنی صراحی دار گردن اور تجمل حسن کی غمازی کرتے سینے کے ابھار پر سجا لیا۔ مہرالنساء نے خود بھی اودے اطلس کا پاجامہ اور سرخ رنگ کا دیدہ زیب ریشمی انگرکھا پہن رکھا تھا۔ زریں دوپٹہ پیچ دار زلفوں کے پیچھے چھپتا ہوا کندھے پر پڑا ہوا تھا۔ رنگ کندن کی مثل چمک رہا تھا۔ وہ عشوہ و ناز اور شوخی و طرازی میں ایک دنیا کو اپنے دام تزویر میں صید کیے ہوئے تھی۔
”میرے آقا ! صہبائے کہن کے جام حاضر ہیں ۔” ہلاکت آفرین زہر پلانے کو تیار آنکھیں مٹکاتی ہوئی بولی۔
”مرغ مسلم بھی خصوصی طور پر آپ کے لیے تیار کیا گیا ہے اسے تناول فرمائیے۔” نشتر زنی کرتی لمبی پلکیں جھپکاتی ہوئی گویا ہوئی۔
***
کھانے سے فارغ ہو کر نواب زادہ بستر پر گر گیا۔ ایک شوخ، عشوہ پرداز و دلنواز خادمہ گرم پانی کا تسلہ لے آئی۔ انگوچھے کو اس میں ڈبو کر نچوڑا۔ پاپوش اتار کر برہنہ پاؤں کو صاف کیا۔ نیا تولیہ لیا، پنڈلیوں کی بھی ٹکور کی اور دابنے بیٹھ گئی۔ ایک اور ملازمہ جس کے ہاتھ برق تپاں کی مثال تھے جھک کر اس کے سر اور کندھے کو سہلانے لگی۔ اس کے گیسوے دراز جن کی سیاہی رشک دہ شب دیجور تھی، نواب اختر کے منہ اور سینے سے ٹکرا رہے تھے۔ وہ جھک کر اس کا بوسہ لینے سے بھی نہیں کتراتی تھی۔ یہ ٹہل سیوا جاری تھی اور مہرالنساء ہلکا سا میوزک آن کر کے اس کے پاس آ کر بیٹھ گئی۔ نواب پر آتشیں سیال اور اصیل مرغ کی گرمی کا جادو اثر کر رہا تھا۔ جس نے آگ بھڑکائی تھی وہ پرسکون، لطف اندوز ہو رہی تھی۔ جب دیکھا کہ اس ہنگامہ نشاط میں نواب تیر عشق سے گھائل ہو کر تڑپنے لگا ہے تو کہنے لگی
”میں زندگی بھر اسی طرح آپ کی تابع فرمان رہوں گی۔ حکم فرمائیں آج کس کو شرف صحبت بخشیں گے؟”
نواب میں ضبط کا یارا نہیں تھا۔
”تم اورصرف تم۔ کیونکہ تمہارے بنا خواب و خور حرام ہے۔”
***
آواز مرغ اور اللہ اکبر کا غلغلہ بیدار بلند ہوا۔ نواب کے خراٹے صدائے نوبت کی طرح شور مچا رہے تھے۔ وہ اس کے پہلو سے جدا ہوئی تو بھی پورے ماحول میں کوئی ہل جل نہ ہوئی۔ اس نے دونوں ہاتھ بلند کرکے انگڑائی لی۔ زیر لب مسکرائی
”جنسی بھوک کے دریا میں نواب غوطے کھائے گا۔ اس کے پیدا کیے ہوئے منجدھار میں میں نہیں، وہ ڈوبے گا۔ اس کے ہتھیار اس پر ہی آزمائے جائیں گے۔ گونی حرام کا جنا اب ایک نہیں دو گولیاں ویاگرا کھلا کر اصیل مرغ ذبح کیا کرے گا۔ میں دیکھوں گی اسے کھا کر نواب میرے کمرے کی چوکھٹ کیسے پار کرے گا؟”
دن چڑھے وہ دالان میں کھڑی آواز دے رہی تھی۔
”چھنو کو بلاؤ۔ آج نواب زادے کا مساج کس لڑکی نے کرنا ہے؟”

Facebook Comments

Syed Mohammad Zahid
Dr Syed Mohammad Zahid is an Urdu columnist, blogger, and fiction writer. Most of his work focuses on current issues, the politics of religion, sex, and power. He is a practicing medical doctor.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply