وہ لڑکی/سعید ابراہیم

وہ لڑکی (افسانہ)

وہ لڑکی میرے اعصاب پہ بری طر ح چھا چکی تھی۔ ذہن سے اس کی صورت محو ہی نہیں ہوتی تھی حالانکہ مجھے ابھی تک اس کا چہرہ بہت غور سے دیکھنے کا نہ تو موقع ملا تھا اور سچ کہوں تو ہمت بھی نہیں پڑی تھی۔ مگر پھر بھی میں پورے تیقن کے ساتھ دعویٰ کرسکتا ہوں کہ اٹھائیس برس کی زندگی میں آج تک اتنا حسین چہرہ حقیقت میں تو دور کی بات، کبھی فلم میں یا ٹی وی پر بھی نہیں دیکھا تھا۔
ہم مشرق کے باسیوں کا ایک عجب مسئلہ ہے، ہم مذہبی ہوں یا دہرئیے، ہماری جینز میں پجاری بننے کی خواہش چھپی ہوتی ہے۔ جوں جوں دن گزرہے تھے میرے اندر کا پجاری واضح ہوتا جارہا تھا اور وہ لڑکی میرے لیے دیوی سمان بنتی جارہی تھی۔

وہ جس اکیڈمی میں شام کی کلاسز میں پڑھنے آتی تھی، اتفاق سے اس کا مین گیٹ ہمارے گھر کی بالکنی سے صاف دکھائی پڑتا تھا۔میرے لئے اس کے آنے اور جانے کا وقت نماز جیسی حیثیت اختیار کرگیا تھا جس کی قضا جنت کھو دینے کے مترادف تھی۔ جاتے وقت تو خیر ایک سایہ سا ہی دکھائی پڑتا جس میں خدوخال مجھے خود اپنی یادداشت کی مدد سے بھرنے پڑتے۔ مگر میں کبھی اسے حقیقت سے زیادہ خوبصورت نہ بنا پاتا۔ ہاں البتہ آمد کے وقت اس کے حسن کی خیرات کچھ نہ کچھ ضرور مل جاتی۔ اس کا رکشہ گیٹ سے چند قدم پیچھے رکتا اور وہ اپنی چادر اور کتابیں سنبھالتی اندر داخل ہو جاتی۔ بس یہی وقت ہوتاجب میں اسے اوٹ میں ہوکر یوں دیکھتا کہ اسے شک نہ پڑے کہ کوئی اسے دیکھنے کی کوشش کررہا ہے۔ ہاں ایک روز معجزہ ضرور ہوا کہ رکشے میں اس کی چادر کا کونہ پھنسنے سے وہ ڈگمگائی اور کچھ کتابیں زمین پر آرہیں۔ اس نے گھبرائے ہوئے انداز میں جلدی جلدی کتابیں سمیٹیں اور چادر سمبھالتے ہوئے معمول سے زیادہ تیز قدموں کے ساتھ گیٹ میں داخل ہوگئی۔ میرے ذہن کے کیمرے نے یہ منظر پوری تفصیلات کے ساتھ ریکارڈ کرلیااور جب بھی دماغ کو کسی ناگزیر مصروفیت سے چھٹکارہ ملتا میں اس منظر کی فلم چلادیتا اور پھر بار بار ریوائنڈ کرکے دیکھتا رہتا۔
اب مجھے ایک ہی بے چینی تھی کہ کسی طریقے سے اس کا نام اور اتہ پتہ معلوم ہوسکے۔مگر اس کا کوئی حل سجھائی نہیں دیتا تھا۔کئی بار سوچا کہ اکیڈیمی کے مالک سے راہ و رسم بڑھائی جائے، حالانکہ وہ مجھے ایک آنکھ نہیں بھاتا تھا۔وہ ٹھگنے قد کا کسرتی بدن والا گنجا شخص تھا جس کی ناک نیچے سے یوں اٹھی ہوئی تھی کہ نتھنوں کے ٹیڑھے میڑھے بال صاف دکھائی دیتے تھے اور مزید یہ کہ ناک کی پھننگ سے کچھ اوپر پچکی ہوئی ہڈی نے اسے اور بدصورت بنادیا تھا۔ناک اور ہونٹ کے اوپر والا حصہ معمول سے زیادہ چوڑا تھا جو گنجان مونچھوں سے بھرا تھا۔ظاہر ہے اس کے لیے اپنے چہرے کو پلاسٹک سرجری کے بغیر خوبصورت بنانا تو ممکن نہیں تھا سو ممکن ہے اس نے سوچا ہو کہ کیوں نہ بھاری مونچھوں کی مدد سے اسے رعب دار ہی بنالیا جائے۔ میرے اندازے سے اس کی عمر پینتالیس پچاس کے لگ بھگ ہوگی۔ یہ اندازہ میں نے اس کی خضاب زدہ مونچھوں سے لگایا تھا جو نارمل سے زیادہ سیاہ دکھائی دیتی تھیں۔ اگرچہ وہ ہمیشہ قیمتی لباس پہنے ہوتا مگر اس کی کاندھوں میں دھنسی ہوئی موٹی گردن جسے گردن ہونے کا الزام ہی دیا جاسکتا تھا، اور اس کا کسرتی بدن لباس کی اہمیت برباد کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑتے۔ یقین کیجئے اس بے ہنگم آدمی کا علم اور تعلیم سے دور کا بھی تعلق دکھائی نہیں دیتا تھا۔ ہاں البتہ وہ کسی غلہ منڈی میں آڑھت کی دوکان پر بیٹھا ہوتا تو زیادہ مناسب لگتا۔

یہ اکیڈیمی صرف لڑکیوں کے لئے مخصوص تھی۔ یہ شخص جس کا نام قدرت اللہ شیخ تھا، اب مجھے اور بھی زیادہ کریہہ بلکہ بدمعاش لگنے لگا تھا۔ ممکن ہے اکیڈیمی بنانے سے پہلے شیخ کا لفظ اس کے نام کے شروع میں لگتا ہو، یعنی شیخ قدرت اللہ۔ جیسے کہ عموماً کپڑے کے ان پڑھ دوکانداروں کے نام ہوا کرتے ہیں۔ مگر اس نے اپنے نام کو معزز بنانے کی خاطر شیخ کے لفظ کی جگہ بدل دی ہو۔ سوچتا ہوں کہ اگر وہ لڑکی جس کا میں نام جاننے کی جستجو میں ہلکان ہوا جارہا تھا، اگر اس اکیڈیمی کی سٹوڈنٹ نہ ہوتی تو شائد میرا قدرت اللہ شیخ کی کراہت انگیز شخصیت کی جانب اتنی شدت سے دھیان نہ جاتا۔میں زندگی میں پہلی بار دو شخصیات کے بارے میں ایک ہی وقت میں نفرت اور محبت کے جذبے اتنے ہائی کنٹراسٹ میں محسوس کررہاتھا۔ یہ سوچ کر میرے سینے پر سانپ لوٹتے کہ ہائے روزانہ جانے کتنی بار میری پری کا اس کریہہ دیو سے آمنا سامنا ہوتا ہوگا۔وہ اُسے سر کہہ کر بلاتی ہوگی۔ ممکن ہے وہ بہانے سے اسے اپنے آفس میں بھی بلا لیتا ہو۔جب میں ایسا سوچتا تو میرے دماغ کی رگیں پھٹنے کو آجاتیں۔ ابھی تک میں نے اپنی اعصاب شکن کیفیت کو کسی نہ کسی طرح چھپا رکھا تھا، مگر اب صبر جواب دے چلا تھا۔ سو مجھے مجبوراً اپنے دانشور دوست گیلانی کو اپنا دکھ سنانا پڑا۔

وہ میری بات سننے کے بعد حسبِ معمول مراقبے میں چلا گیا۔ کچھ دیر بعد سر اٹھایا اور دھیرے دھیرے آنکھیں کھولتا ہوا گویا ہوا۔
’’پیارے ایک ہی طریقہ ہے۔‘‘

میں نے بے چینی سے پوچھا۔

’’وہ کیا؟؟؟‘‘

بولا۔ ’’لڑکی کے گھر رشتہ بھجوادو۔‘‘

’’رشتہ بھجوا دوں؟۔۔۔ مگر مجھے تو اس کا نام تک نہیں پتہ، رشتہ کہاں بھجواؤں؟؟؟‘‘

’’یہ سب تم مجھ پہ چھوڑ دو!‘‘ وہ جیسے کسی گہرے کنوئیں سے بول رہا تھا۔ اس کے لہجے میں کرامت دکھانے والے پیروں فقیروں جیسی گھمبیر بے نیازی اور تیقن تھا۔

’’چھوڑ دیا یار، مگر یہ بتاؤ کہ رشتہ بھجوانے کے لیے اماں ابا کو کیسے راضی کروں؟‘‘ میں نے بے بسی سے پوچھا۔

پیر ایک بار پھر گمبھیر آواز میں گویا ہوا۔’’ یہ بھی ہوجائے گا۔‘‘

میں یہ سن کر بٹر بٹر اس کا مونہہ تکنے لگا۔وہ میری بے بسی میں الجھی حیرانگی سے لطف اندوز ہوتے ہوئے بولا۔

’’دیکھو اس لڑکی کا نام کائنات ہے اور یہ ساتھ والے محلے سے آتی ہے۔سپوکن انگلش کی سٹوڈنٹ ہے۔ ابا معذور ہیں۔‘‘

اس نے فر فر میرے سامنے معلومات کا خزانہ اُگل دیا۔ مجھے لگا کہ آدھا مسئلہ تو حل ہوا کہ ہوا۔ اگر یہ ظالم اتنا پہنچا ہوا ہے تو اماں ابا کو رشتے کے لیے تیار کرنا بھی اس کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہوگا۔ اب مجھے اس کے کرامتی ہونے میں ذرّا بھر شک نہیں رہ گیا تھا۔ اور پھر اس نے اماں ابا کے ہاتھ رشتہ بھجوانے کا معجزہ بھی کردکھایا۔

مگر اس کے بعد جو ہوا، اس نے مجھے امید اور خوش فہمی کے آسمان سے مایوسی کے پاتال میں لا پھینکا۔ کائنات کے گھر والوں نے اس بری طرح سے رشتے سے انکار کیا کہ جھوٹی آس امید کی بھی کوئی رمق باقی نہ چھوڑی۔ لگتا تھا پیر کی کرامت کا دائرہ صرف میرے گھر والوں کی حد تک تھا۔ میری یہ حالت ہوئی کہ جانو ہوش و خرد سے بیگانہ ہوگیا۔ سارا سارا دن بالکنی سے چپکا رہتا۔ میری یہ حالت دیکھ کراماں ابا کی بھی جان پہ بن آئی۔انہیں یہی سمجھ آئی کہ کیوں نہ میری فوراً شادی کردی جائے۔ رشتہ داروں میں چند خوبصورت لڑکیوں کی تصویریں دکھا کر مجھے مائل کرنے کے جتن کئے مگر نتیجہ وہی، ڈھاک کے تین پات۔ اب توگیلانی کو بھی میری فکر پڑگئی۔

عجیب بات ہے کہ اتنے اندوہناک نتیجے کے باوجود میرا اس کی دانشوری اور کرامت سے ایمان ختم نہیں ہوا تھا۔ مجھے یقین تھا کہ وہی ہے جو میرے اس درد کا دارو کرسکتا ہے۔ایک روز وہ آیا تو اس نے اپنی زنبیل سے میری اذیت کا عجیب و غریب حل نکال کر پیش کیا۔ کہنے لگا۔ ’’اوئے کمی (وہ کبھی کبھی مجھے کامران کی بجائے اسی مضحکہ خیز عرفیت سے بلاتا تھا اور اس کے میرے موڈ کو بدلنے کا کاگر حربہ تھا۔) سُن! تیرے مسئلے کا ایک ہی حل ہے۔۔۔‘‘
میں بیزاری سے بولا۔ ’’ہاں بتاؤ کیا حل ہے اس جہنم کا؟‘‘

’’اچھا یہ بتا کیا کبھی کسی عورت کو چھوا تم نے؟‘

’’ یہ کیا بکواس ہے یار۔۔۔ میں نے تو کبھی خواب میں بھی ایسا نہیں سوچا۔۔۔ ہم تو بس کائنات نامی دیوی کے پجاری ہیں۔۔۔ کاش وہ میری قسمت میں ہوتی ۔۔۔ کاش‘‘ ساتھ ہی میری آنکھوں سے ٹپ ٹپ تیزابی پانی پہنے لگا۔
اُس نے محبت سے مجھے گلے لگایا اور بولا۔ ’’ناں کر یار، تیری حالت دیکھ کے دل کٹتا ہے۔ اپنا نہیں تو ماں باپ کا کچھ خیال کر!۔۔۔ اچھا سُن آج شام کو سات بجے تیار رہنا۔ مجھے آج تیری بیماری کا علاج کرنا ہے۔‘‘

’’کیسا علاج؟؟؟‘‘ میرا لہجہ مایوسی کی دلدل میں کھُبا تھا۔

’’ایک دوست کو کہہ کر تیرے لئے ایک اپسرا کا انتظام کروایاہے۔ دیکھ انکار نہ کرِیں۔ بس بیماری کا نسخہ سمجھ کے استعمال کرلے۔اگر آرام نہ آیا تو میں اپنی مونچھیں صاف کرادوں گا۔‘‘ اس نے بڑے دعوے کے انداز میں اپنی محبوبہ جیسی مونچھوں پر ہاتھ پھیرا۔ میں نے اس کے جال کو توڑنے کی بڑی کوشش کی مگر ہار مانتے ہی بنی۔

شام کو نہ چاہنے کے باوجود میں اچھے انداز میں تیار ہوا اور وہ پورے سات بجے گاڑی سمیت میرے دروازے پر موجود تھا۔

میرے بیٹھتے ہی اس نے گاڑی سٹارٹ کی اور اس کے ساتھ ہی اسکی دانشورانہ گفتگو کو بھی گیئر لگ گیا۔

’’دیکھ یار یہ عشق وِشق کچھ نہیں ، سب سیکس کا الجھاوہ ہے۔ بابے فرائڈ نے ایویں بکواس نئیں کی۔یہ سالی سیکس ڈیزائر روپ بدل بدل کے ظاہر ہوتی ہے۔۔۔ کوئی بھی نارمل بندا اس سے بچ نئیں پاتا، حتیٰ کہ کھسرے بھی۔ میں نے تو انہیں بھی اس خواہش میں پاگل ہوتے دیکھا ہے۔ نچ نچ کے یار کو مناتے دیکھا ہے۔۔۔ اور یہ جو عشقِ حقیقی ہے نا، یہ بھی اسی خواہش کا ایک رُوپ ہے۔۔۔ تمہیں پتہ ہے یہ جو کئی صوفی شاعر تھے عورت سے بھاگے ہوئے، پاک محبت کے دعوے دار، اکثر امرد پسند تھے۔۔۔ وہ میر کا شعر ہے نا، اسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں، ہاہاہا یہ اسی پچھل پیری سیکس کی خواہش کا شاخسانہ تھا بھائی۔۔۔ آج جب یہ پچھل پیری تمہارے اندر سے سیال بن کے بہے گی تو تجھے عشق محبت کی ساری کہانی سمجھ آجانی۔۔۔ یہ جس سے ملنے ہم جارہے، سنا ہے کمال کی حسین لڑکی ہے۔۔۔ رقم تو میری لگ جانی ہے لیکن میرا یار اگر تندرست ہوگیا تو رقم کا کوئی غم نہیں۔‘‘ مجھے لگ رہا تھا کہ بڑے خلوص کے ساتھ میری برین واشنگ پہ تُلا ہوا تھا۔ اور سچ تو یہ ہے اس کی اس کوشش نے مجھے بھی اس حسینہ کے بارے میں متجسس کردیا تھا۔ مجھے اپنے بدن میں کایا کلپ کا احساس ہورہا تھا۔ اس نے ایک بہت خوبصورت بنگلے کے سامنے گاڑی روک کر ہارن بجایا۔ تھوڑی ہی دیر میں کسی ملازم نے دروازہ کھولا اور ہمیں بڑے احترام کے ساتھ ایک ڈرائنگ روم میں بٹھادیا۔

’’چاہو تو بھلے اس لڑکی کا نام پوچھ لینا، مگر یاد رکھنا کہ ایسی لڑکیاں کبھی اپنا اصل نام نہیں بتاتیں۔ کئی بار تو ہر گاہک کے لیے ان کا نام مختلف ہوتا ہے۔۔۔‘‘

اس نے جملہ مکمل کیا ہی تھا کہ قدرے ڈھلتی عمر کی ایک طرحدار خاتون کمرے میں داخل ہوئی اور ہم سے ہاتھ ملا کر سامنے والے صوفے پر سٹائل کے ساتھ بیٹھ کر سگریٹ سلگانے لگی۔

میرے لئے یہ سب کسی فلم کے منظر جیسا تھا اور میں گھبراہٹ اور تجسس کے بیچ جھول رہا تھا۔ ڈرائنگ روم کا اندرونی دروازہ ایک بار پھر کھلا اور ایک سمارٹ نوجوان اندر داخل ہوا۔ گیلانی اٹھ کر بڑی گرم جوشی کے ساتھ اسے ملا تو میں نے اندازہ لگایا کہ یہی وہ دوست ہوگا جس نے میرے علاج کے لیے دوا کا بندبست کیا ہے۔ گیلانی اور نجیب کے باہمی مکالمے نے میرے اندازے پر مہرِ تصدیق ثبت کردی۔

اسی دوران ایک ملازم چار بلوریں گلاس ، منرل واٹر کی ایک بوتل اور ایک طشتری میں برف کے ٹکڑے کمرے کے بیچ میں رکھی ٹیبل پہ سلیقے سے دھر گیا۔ منظر میرے لیے مزید فلمی ہوتا جارہا تھا۔ اب گھبراہٹ اور تجسس ایک دوسرے میں مدغم ہونے لگے تھے۔ مجھے مسلسل میرے وی آئی پی ہونے کا احساس دلایا جارہا تھا اور میں بھی اپنی اس نئی دریافت شدہ حیثیت کا یقین کرنے کی طرف مائل ہونے لگا تھا۔ میں نے محسوس کیا جیسے میرے اندر کئی اور طرح کے وجود بھی پنہاں تھے جو مجھ پر آج پہلی بار منکشف ہورہے تھے۔ سامنے بیٹھی خاتون کی اداؤں کی طرح اس کی باتیں بھی بڑی معنی خیز اور کسی بھی شریف آدمی کو جھینپ میں مبتلا کردینے والے اشاروں میں ملفوف تھیں۔ اسی اثناء میں ملازم غالباً وسکی کی بوتل لئے داخل ہوا اور ٹیبل پہ رکھ کر اُلٹے قدم واپس لوٹ گیا۔

’’جی تو آج جام کون بنائے گا؟‘‘

خاتون نے جن کا نام مسز فرقان تھا، ٹیڑھے ہونٹوں سے دھوئیں کا مرغولہ بناتے ہوئے پوچھا۔

جواب دینے کی بجائے سمارٹ نوجوان بڑی خوش دلی سے اٹھا اور بوتل کھولتے ہوئے بولا۔

’’یہ سعادت آج ہم حاصل کیے لیتے ہیں۔ آپکے لیے جام بنانا تو ویسے بھی ثواب کا کام ہے۔‘‘

اس پر ایک زبردست قسم کا مشترکہ قہقہہ پڑا اور شراب باری باری گلاسوں کی تہہ میں اترنے لگی۔

میرے لیے یہ زندگی کا پہلا تجربہ تھامگر اس لمحے تک تجسس گھبراہٹ کوتقریباً نیم جان کرچکا تھا۔ سمارٹ نوجوان نے جام بنائے اور سب کو گلاس تھمادئیے اور پھر چیئرز کا نعرۂ مستانہ بلند ہوا ۔ مجھے نہیں معلوم کہ پہلے دو تین گھونٹ میں نے کیسے حلق سے اتارے، مگر اس کے بعد چل سو چل۔ دوسرے پیگ کے خاتمے تک پہنچتے پہنچتے میرے اندر سے ایک کھلنڈرا اور خوش باش نوجوان برآمد ہونے لگا۔ دل چاہے کہ اونچی اونچی آواز میں کوئی گیت گاؤں جو محفل لوٹ لے۔ پاؤں تھرکنے کو بے تاب ہونے لگے۔ جب مجھ سے رہا نہ گیا تو میں نے صوفے سے اٹھ کر گلاس لہرایا اور لہک لہک کر گانا شروع کردیا۔

’’یہ جو محبت ہے، یہ ان کا ہے کام
ارے محبوب کا جو بس لیتے ہوئے نام
مرجائیں، مٹ جائیں
ہوجائیں بدنام ‘‘

مسز فرقان نے مجھے کچھ حیرت سے دیکھا اور پھر ساڑھی کا پلو لہراتی میرے گیت پر بڑی مہارت سے پرفامینس دینے لگیں۔ باقی دونوں احباب تالی سے بیٹ دینے لگے۔

یہ وہ وقت تھا جب گھبراہٹ مکمل طور پر کافور ہو چکی تھی اور اس اپسرا کے ساتھ ہونے والی ملاقات کا تجسس اپنے عروج پر تھا۔ میں نے خیال ہی خیال میں اسکے سراپے میں اپنی مرضی کے رنگ، خدوخال اور نشیب و فراز اجاگر کرلیے تھے۔ بس اب اسے دیکھنے اور چھونے کا مرحلہ باقی تھا۔ تبھی ملازم نے آکر اطلاع دی کہ مس سبینہ آئی ہیں۔ نجیب حکمیہ انداز میں بولا۔

’’انہیں فوراً اندر لاؤ بھائی۔‘‘ اور ملازم بجلی کی طرح غائب ہوگیا۔

میں نے اپنے پورے وجود کو سماعت اور بصارت میں بدلتے محسوس کیا۔دماغ میں بہت سے بے ترتیب خوابوں کے مناظر ایک دوسرے پر اوورلیپ ہونے لگے۔ دروازہ کھلا تو ۔۔۔۔ میرے مونہہ سے چیخ نکلتے نکلتے رہ گئی۔۔۔۔ چیخ کی بجائے میرے مونہہ سے نکلا۔ ’’کائنات؟؟؟ آپ کائنات ہیں ناں؟؟؟؟ ‘‘

لڑکی نے چند ثانئے مجھے حیرت، غصے اور شدید شرمندگی کے ملے جلے تاثر کے ساتھ دیکھا اور تیزی سے اندر کی جانب بھاگ گئی۔ لگا جیسے میں نے بھرے بازار میں اسے بے لباس کردیا ہو۔

اس کے بعد مجھے نہیں یاد کہ میں چیخا، چلایا، رویا، اپنے بال نوچے یا کوئی اور اوٹ پٹانگ حرکت کی ۔ جب آنکھ کھلی تو خود کو اپنے کمرے میں بستر پر پایا۔ دیکھا تو گیلانی پاس ہی کرسی پہ بیٹھا مجھے فکرمندی سے تک رہا تھا۔ وہ دھیرے سے اٹھا، میرے ماتھے پہ ہاتھ رکھا۔ صرف اتنا بولا۔ ’’ یار تمہیں کل رات کیا ہوگیا تھا؟؟؟‘‘

Advertisements
julia rana solicitors

میں اسے کیا جواب دیتا، میں نے آنکھیں موندھ لیں اور تیزابی پانی چہرے پر راستہ بنانے لگا۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply