بہت ان کے نقشِ قدم یاد آئے(دوم،آخری حصّہ )/علامہ اعجاز فرخ

میں ان کے گھر تو نہیں گیا مگر ہر ہفتہ میس میں ملاقات ہو جاتی۔ ہفتے کی ایک شام، میں میس کے لان کے ایک پرسکون گوشے میں کرسی ڈالے بیٹھا تھا۔ اچانک کسی نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا۔
”ہیلو ینگ پائیلٹ۔ تم یہاں اکیلے بیٹھے کیا کر رہے ہو۔؟“
گیریسن انجینئر اپنے خاندان کے ساتھ میرے پیچھے تھا۔ ”گُڈ ایوننگ سر۔ “,” گُڈ ایوننگ۔“
”کیپٹن پال بتلا رہا تھا۔ تم فلائیٹ بہت اچھی کرتے ہو۔ ایک مشاق پائیلٹ کی طرح۔ لیکن عام زندگی میں بہت سادہ ہو۔ ڈرنک نہیں لیتے۔ تاش نہیں کھیلتے۔ تنبولا میں حصہ نہیں لیتے۔ بس، لان میں بیٹھے رہتے ہو۔“پھر اپنی بیوی کی طرف اشارہ کر کے کہا۔”یہ تمہاری بڑی تعریف کر رہی تھی۔ کشمیری برہمن ہے۔ یہ تو بس سبزیاں ہی بناتی ہے۔ پالک پنیر، مٹر پنیر، پنیر بٹر، پنیر مصالحہ، گوبھی کے پراٹھے، آلو چھولے۔ میں ٹھہرا ٹھیٹھ پنجابی۔ بھنا ہوا پہاڑی مرغا نہ ہو تو میرے حلق سے نوالہ نہیں اترتا۔ آج اردلی کو بھیج کر توی ندی کی تازہ مچھلی منگوایٰ ہے۔ میری بیٹی نے فش کٹلٹ بنائی ہے۔ بڑے چٹخارے دار ہے۔ کہہ رہی تھی ریل کے ریستوران میں کھائی تھی۔ تمہیں بہت پسند ہے۔ سو لیتی آئی ہے۔ لو کھاؤ۔ موج کرو۔ موج کے دن ہیں۔“
ایک ہی سانس میں وہ سب کچھ کہہ کر مڑا۔ اور یہ کہہ کر چلدیا کہ بھائی میری شام ہو گئی۔ میرے ساتھی ادھر میرا انتظار کر رہے ہوں گے۔ میں اس کی خوش مزاجی پر مسکرا اٹھا۔
وہ میرے روبرو بیٹھ گئی۔ میں نے پوچھا”تم ساحر لدھیانوی کو جانتی ہو۔؟“اس نے اثبات میں سر ہلاتے ہوئے کہا”ہاں! میں انہیں پڑھ چکی ہوں۔ فلموں میں گیت بھی سنے ہیں۔ خوبصورت لہجے کے شاعر ہیں۔ انہیں پڑھ کر ایسا لگتا ہے جیسے ان کے اندر کوئی چیز ٹوٹ گئی ہے اور وہ بڑے تحمل سے اس درد کو سنبھال رہے ہیں۔“
”بڑا خوبصورت تجزیہ ہے تمہارا۔“
”ان کی کوئی نظم سنو گی؟“
”ہاں، ضرور۔ آپ کو یاد ہے؟“
میں نے ساحر کی نظم ”پرچھائیاں“چھیڑ دی۔ وہ ہتھیلی پر چہرہ سجائے سنتی رہی۔ آہستہ آہستہ اس کی نگاہیں نیم وا ہو گئیں۔ وہ کہیں کھو سی گئی تھی۔ بے خیالی میں اپنے پیر کے دہنے انگوٹھے سے ہلکے ہلکے مٹی کریدتی رہی۔ وارفتگی اور محویت نے اسے کسی اور ہی عالم میں پہنچا دیا تھا۔ آخری بند پر پہنچ کر جب میں نے کہا:
گزشتہ جنگ میں گھر ہی جلے، مگر اس بار۔ عجب نہیں کہ یہ تنہائیاں بھی جل جائیں۔“
آخری دو مصرعے پڑھنے سے پہلے اس نے اپنا ہاتھ میرے منہ پر رکھ دیا۔ میں خاموش ہو گیا۔ دونوں دیر تک خاموش رہے۔ اپنے آپ میں گم۔ ماحول سے بے خبر۔ اس نے خاموشی کو توڑتے ہوئے پوچھا۔”کل آپ کی کونسی فلائیٹ ہے۔ دن کی یا رات کی؟۔“ میں نے کہا ”صبح کی۔ دوپہر تک واپس آ جاؤں گا۔“
”مجھے کہیں باہر لے چلو۔ اپنی جیپ لے کر 6 بجے تک آ جانا۔ میں تیار رہوں گی۔“
”کہاں چلو گی؟“”ڈلہوزی اسکوائر۔“
اس نے کہا۔”نہیں، وہ بہت دور ہے۔“
”شام کو وہاں بھیڑ بڑھ جاتی ہے۔“
”پھر کہاں؟“
اس نے کہا۔ ”ریلوے اسٹیشن۔ وہاں کوئی نہیں ہوتا۔ جو گاڑی صبح آتی ہے وہ چار بجے شام جا چکی ہوگی۔ خاموشی ہوگی اور ہم ہوں گے۔ شام ڈھلنے لگے گی تو لوٹ آئیں گے۔“
دوسرے دن میں وقت سے کچھ پہلے اس کے گھر پہنچا۔ وہ ہلکی نیلی قمیص اور گھیر دار شلوار میں ملبوس تھی۔ دوپٹہ صرف داہنے کندھے پر ڈال رکھا تھا۔ بائیں طرف گھنے سنہری بالوں کی چوٹی نے دوپٹے کی کمی پوری کر دی تھی۔ کمبخت کو خبر تھی کہاں تک چھپانا ہے، کہاں سے جھلکنا ہے۔ دھلی دھلی سی میک اپ سے بے نیاز چہرہ۔ بڑی بڑی غلافی آنکھیں۔ گھنی پلکیں۔ ابروئے خمدار، چہرہ کیا تھا۔ شبنم نے بھر دیئے تھے کٹورے گلاب کے۔ میں نے سوچا کہدوں، حسنِ کشمیر جب قوت پنجاب کو شکست دینے پر تلا ہوتا ہے تو یہی تیور ہوتے ہیں۔ لیکن اس کی ماں آ گئیں۔ کہنے لگیں ”اے بیٹا! تم نے بڑی راہ دکھلائی۔ اس کے پاپا بھی پوچھتے رہتے ہیں۔ تم نے تو میری آنکھیں طاق پر رکھ دیں۔“ میں نے کہا”میں ضرور آتا۔ بھلا آپ نے مجھے یاد کیا اور میں نہ آؤں۔ مگر انہوں نے منع کر دیا تھا۔ کہہ رہی تھیں، تم آؤ گے تو ممی مونگ کے پکوڑے، پنیر تکہ، مٹھائیاں، آلو چھولے کی چاٹ کھلائیں گے۔ تم تعریف کرو گے۔ دوبارہ آؤ گے، بار بار آؤ گے، ممی مجھ سے کہیں گی اے لڑکی! اس کے لیے فش کٹلٹ بنا دینا۔ ساتھ میں تھوڑا سا سویڈش سلاد اور سیاہ زیتون بھی ہو۔ نہ بابا۔ مجھ سے اتنا سب کچھ نہیں ہوگا۔ انہوں نے ہاتھ جوڑ لیے۔“ممی نے قہر آلود نظروں سے بیٹی کو دیکھا۔ وہ بیٹھی مسکرا رہی تھی۔ آٹھ کر کہنے لگی”اب چلو بھی۔ میں سب بنا کر کھلا دوں گی۔ شام ہوئی جا رہی ہے۔“
کھلی جیپ تھی۔ راستے میں ہوا اس کے بالوں کو چھیڑ رہی تھی۔ سنہری لٹ کبھی ماتھے کو چومتی، کبھی رخسار پر جھول جاتی۔ میں نے کہا”تم نے اپنی ماں کو بتلایا نہیں کہ تم کہاں جا رہی ہو۔ تمہارے پاپا بھی آفس سے لوٹیں کے تو تمہیں پوچھیں گے۔“
”ممی سنبھال لیں گی۔ وہ تو یوں بھی تم پر فریفتہ ہیں۔ اور پاپا کی نظر میں تم بہت شریف لڑکے ہو۔ یاد نہیں اس دن میس میں کیسے تمہارا قصیدہ پڑھ رہے تھے”۔
اور تمہاری نظر میں؟“میں نے چھیڑتے ہوئے پوچھا۔
وہ ہنس پڑی۔ ”میری نظر میں تم واجبی واجبی شریف ہو۔ بہت زیادہ شریف ہوتے تو میں پاس بھی نہیں پھٹکتی۔“
”اس مختصر سے وقت میں ہم جتنی مرتبہ بھی ملے ہیں، پورے خلوص سے ملے ہیں۔ ممی نے کئی مرتبہ گھر بلایا لیکن تم دوڑے دوڑے نہیں چلے آئے۔ کبھی میری تعریف نہیں کی۔ کوئی اظہار نہیں۔ کوئی وعدہ نہیں، کوئی خواب نہیں۔ کوئی رنگ نہیں۔تمہاری محتاط نگاہی نے اپنی آنکھوں کو حد سے گزرنے کی اجازت نہیں دی۔ میں نے ایک لمحہ کے لیے اس سرد مہری کو آنا کی کہر میں لپیٹے ہوئے مرد سے تعبیر کیا۔ لیکن مجھے اپنے خیال کی تردید کرنی پڑی کہ تم نے میرے پندار کا اور اپنے وقار کا خیال رکھا لیکن آج۔۔۔“ یہ کہہ کر وہ چپ ہو گئی۔
ریلوے اسٹیشن واقعی سنسان تھا لیکن ٹی اسٹال کھلی تھی۔ دو کپ کافی کا آرڈر دے کر میں ایک بنچ کی طرف بڑھ گیا۔ بنچ کی پشت پر کرنچ کا پیڑ تھا۔ بڑی بڑی شاخیں بنچ پر سایہ کئے ہوئے تھیں۔ بیرا کافی لے آیا۔ ہر طرف گہری خاموشی تھی۔ نہ کوئی چاپ، نہ سنچل، نہ آہٹ، اس نے کہا: ”یہ سناٹے کا شنکھ سن رہے ہو۔ ڈھلتی شام کے ساتھ یہ گیت میں بدل جائے گا۔“ وہ اٹھ کھڑی ہوئی۔ پیڑ کے تنے پر ہاتھ پھیرتی رہی۔ پھر بیگ سے ناخن تراش کے درمیان سے چھوٹا ساچاقو نکال کر اس کی چھال چھیلنے لگی۔ میں کھڑا دیکھ رہا تھا۔ وہ کوئی نقش تراش رہی تھی۔ آگے کو پڑی ہوئی چوٹی کچھ اور ڈھیلی ہو چکی تھی۔ سنہری بالوں نے آدھے چہرے کو ڈھک لیا تھا اور ڈھلتی شام میں آدھا چہرہ روشن روشن دکھائی دے رہا تھا۔ میری سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ چاند بادلوں کی اوٹ سے نکلا چاہتا ہے یا شام چاندنی کی ردا اوڑھا چاہتی ہے۔ محویت کے عالم میں معصومیت نے مقابل کی انگشت تراشی کے سامان فراہم کر رکھے تھے۔ میں قریب پہنچا تو اس نے آہٹ پاکر اپنی ہتھیلی نقش پر رکھ دی۔ میں نے نرمی سے ہاتھ پر ہاتھ رکھ دیا۔ ایسے لگا میری مٹھی میں ڈھیر سارا ریشم سمٹ آیا ہو۔ اپنے نام کے پہلے حرف سے میرے نام کا حرف جوڑ کر اس نے نقش تراش دیا تھا۔ پلکیں جھکی ہوئی تھیں، ہونٹ کپکپا رہے تھے۔ اس نے ٹھیک ہی کہا تھا۔ ڈھلتی شام کے ساتھ ستار، سارنگی، وائیلن، بانسری کے سر کے ساتھ ہوا ہلکے سروں میں کوئی گیت گا رہی تھی۔ اس کا ہاتھ میرے ہاتھ میں تھا۔ اس نے انگلیاں میری انگلیوں میں ڈال کر مضبوطی سے تھام لیں۔ دیر تک ہم یونہی کھڑے رہے۔ پھر ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے باہر نکل آئے۔
اپریل1965،سرحدی جھڑپوں کی خبریں آنے لگیں۔ پروازوں کی مشقیں تیز ہوگئیں۔ حکم آیا، افرادِ خاندان کو محفوظ شہروں میں روانہ کر دیا جائے۔ فلائیٹ سے واپس آتے ہی میں اس کے گھر پہنچا۔ گریسن انجینیئر گھر پر نہیں تھا۔ ماں مجھے دروازے ہی پر مل گئی۔ میں نے نمسکار کر کے پاؤں چھونے چاہے تو سینے سے لگا لیا۔ کوکھ دوسرے کی سہی، مامتا تو اپنی ہے۔ لمبی عمر پاؤ، دیش میں نام ہو۔ بھگوان تمہاری رکشا کرے۔ یہ کہتے کہتے اس کی آنکھیں بھیگ گئیں۔ میری نظروں کو ادھر ادھر ڈھونڈتا دیکھ کر کہا ”ابھی بھیجتی ہوں۔ صبح سے اپنے کمرے میں ہے۔ ہم لوگ پرسوں یہاں سے نکل رہے ہیں۔“ میری آواز سن کر وہ خود باہرنکل آئی۔ آنکھیں سرخ تھیں، بوجھل بھی۔ ہمیشہ کی ہنس مکھ کو اداس دیکھ کر پوچھا
”کیا ہوا؟۔ خیریت تو ہے۔“ کوئی جواب نہ ملا۔”ابھی آئی“ کہہ کر اٹھی۔ ماں نے چائے لا کر رکھ دی۔ آہستہ سے کہا
”اسے سمجھا ؤ۔ ضد کر رہی ہے، میں یہیں رہوں گی، پاپا کے پاس۔اپنے باپ کو بہت چاہتی ہے۔“کپڑے تبدیل کر کے باہر نکل آئی۔ سرخ قمیص، چوڑٰ ی دار پاجامہ، بہت ہلکے گلابی رنگ کے جارجیٹ کی اوڑھنی، شام دھواں دھواں ہو یا حسن اداس اداس، دونوں بہت اچھے لگتے ہیں۔ کہنے لگی ”مجھے کینٹین لے چلو۔ کچھ چیزیں خریدنی ہیں۔“ ماں سے مخاطب ہو کر کہا”ماں! میں ابھی لوٹ کرآتی ہوں۔ یہ کھانا یہیں کھائیں گے۔ آ کر بنا لوں گی۔“
میں نے جیپ اسٹارٹ کی تو گیر لیور پر میرے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر کہا”مجھے ریلوے اسٹیشن لے چلو۔ صرف ایک بار۔ مجھے تم سے کچھ کہنا ہے۔“ یہ کہتے کہتے کچھ روہانسی سی ہو گئی۔ میں نے کہا ”میں سمجھ رہا ہوں۔ صرف تھوڑے دن کی بات ہے۔ ایمرجنسی ہے۔ تم لوٹ کر جلد ہی آؤ گی۔“ میں یہ کہہ تو رہا تھا لیکن اس سے آنکھ نہیں ملا پا رہا تھا۔ کہیں وہ میرے دل کا چور پکڑ نہ لے۔ اس نے میرے ہاتھ پر اپنی گرفت مضبوط کر دی۔ خیال آیا، کیا مخلوق خلق کی صناعِ ازل نے۔ سامنے ہو تودکھائی نہیں دیتی اور اوجھل ہو جائے تو کوئی چیز سجھائی نہ دے۔
ریلوے اسٹیشن ہمیشہ کی طرح سنسان تھا۔ شام کو روانہ ہونے والی گاڑی سائیڈ لائن پر کھڑی تھی۔ اسٹیم انجن مال گودام کے پہلو میں اپنے رختِ سفر کے انتظار میں تھا۔ وہ قدرے تیز قدموں سے میرے ساتھ چل رہی تھی۔ ٹی اسٹال پر رک کر میں نے چائے کو پوچھا تو انکار میں سر ہلاتے ہوئے آگے بڑھ گئی۔ جیسے اسے کسی کام کی جلدی ہو۔ کرنچ کے پیڑ کے پاس پہنچ کر رک گئی اور غور سے اس نقش کو دیکھنے لگی جو اس نے ت تراشاتھا۔ میں عجیب دوراہے پر تھا۔ ایمرجنسی نافذ ہوا چاہتی تھی۔ میرے کانوں میں ہوائی جہازوں کی چنگھاڑ اور فضاؤں میں تیزی سے گذرتے ہوئے شعلوں کی لپک دکھائی دے رہی تھی۔ ادھر اس کی نادانی مجھے حیران کر رہی تھی۔ فوج میں آزاد خیالی تھی لیکن سماج بہرحال اپنی روایتوں کا اسیر تھا۔ ان سے انحراف بھی آسان نہیں تھا۔
میں نے اس کی طرف دیکھا۔ چہرہ گلنار ہو رہا تھا اور پلکیں جھکی ہوئی تھیں۔ ہونٹ کپکپا رہے تھے۔ ایسا لگا وہ کچھ کہنا چاہ رہی ہو۔ خیالات اور اندیشوں کے ہجوم میں اسے لفظ نہ مل پا رہے ہوں۔ میں نے آہستہ سے اس کی انگلیاں تھام لیں۔ نگاہ اٹھی۔ آنکھوں میں اداسی اور نمی تھی۔ اپنے آپ کو سنبھالتے ہوئے کہا:
“زندگی تمہارے ساتھ ساتھ اور موت تمہارے پیچھے پیچھے چل رہی ہے۔ تم مرد بھی ہو اور مضبوط بھی۔ تمہارے حوصلوں پر مجھے فخر ہے۔ اسی وجہ سے میں اتنا آگے بڑھ گئی۔ ہم نے پھیرے نہیں لیے۔ کسی چرچ میں جا کر قسم نہیں کھائی۔ کسی مسجد میں کسی کو گواہ نہیں کیا۔ مجھے سب کچھ گوارا ہے لیکن تم نے بھی کوئی اقرار نہیں کیا۔ مجھے ڈر ہے کہ شاید ہم آخری بار مل رہے ہیں۔”
“پاگل ہو گئی ہو تم۔ کیا اقرار چاہتی ہو؟۔ کیا صرف زبان سے اقرار ہی کو اقرار کہتے ہیں۔ یہ جو تمہارا ہاتھ تھاما ہے ناں، یہ کس رشتے سے تھاما ہے۔ کیا اس میں تمہیں کوئی خلوص، کوئی اقرار نہیں دکھائی دیتا۔میں بھی تمہارے ساتھ بہت آگے بڑھ جاتا، لیکن اس وقت میں اپنی زمینی سرحدوں ہی کا نہیں، اپنی فضاؤں کا اور ملک کے وقار کا محافظ ہوں۔ میں نے اس کا حلف اٹھایا ہے۔ مجھے کمزور مت کرو۔ تم میرے پہلو بہ پہلو ساتھ ہو۔ موت تو میرے پیچھے ہے۔ میں دشمن ہی کو نہیں موت کو بھی شکست دینا جانتا ہوں۔”
اس نے میری قمیص کی آستین الٹی اور اپنا دوپٹہ پھاڑ کر میرے بازو پر باندھ دیا۔ میری آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا: ” ساحر کی نظم کا وہ حصہ سنا دو… پلنگ پہ بکھری ہوئی کتابوں والا…”
اس کی یہ خواہش سن کر جانے کیوں میری آنکھیں بند ہو گئیں۔ جیسے میں خواب میں ہوں۔ اسی خوابیدہ خوابیدہ لہجہ میں میری آواز ابھری…
مرے پلنگ پہ بکھری ہوئی کتابوں کو
ادائے عجز و کرم سے اٹھا رہی ہو تم
سہاگ رات جو ڈھولک پہ گائے جاتے ہیں
دبے سروں میں وہی گیت گا رہی ہو تم
پھر میں نے آنکھیں کھول کر دیکھا۔ اس کی آنکھیں بند تھیں۔ لبوں پرتبسم تھا ۔ چہرہ سرخ تھا۔ جیسے سارا سیندور گلال بن کر چہرے پر اتر آیا ہو۔ ماتھا عرق عرق تھا۔ سانس زیر وزبرہو رہی تھی ۔
لمحہ بھر کو اپنی نیم وا آنکھوں سے مجھے دیکھا۔ پھر آنکھیں بند کرلیں۔ یوں لگا جیسے وہ ایک لمحے میں سہاگن ہو گئی۔ جیسے سمندر کا تلاطم تھم گیا۔ جیسے چڑھتی ہوئی سانسوں کے خمار کو اترتی سانسوں کی تھکن کی آہٹ مل گئی۔ جیسے طویل سفر کے بعد مسافر کو منزل دکھائی دے گئی ہو۔ وہ پیڑ سے لگی کھڑی تھی۔
اس نے آہستہ سے کہا: “سنو تو! یہ پیڑ ہمارے اس سفر کا گواہ ہے۔ ہم جب بھی ملیں گے، جہاں بھی ملیں گے، اس پیڑ سے ملنے ضرور آئیں گے۔” وہ پر وقار انداز میں آہستہ قدم چل پڑی۔ گھر پر جیپ سے اترتے ہوئے اس نے کہا:
” کل ہم روانہ ہو جائیں گے۔ تم گھر آؤ تو میرے لیے تمہاری ماگراف کی پرفیوم لیتے آنا، تمھاری خوشبو مجھے سنبھالے رکھے گی۔ اب جاؤ خدا تمہاری حفاظت کرے۔” جاتے ہوئے وہ مڑی نہیں، بس گھر میں داخل ہونے سے پہلے لمحہ بھرکے لیے پلٹ کر دیکھا اور داخل ہو گئی۔
جنگ کی ہولناکیاں! کتنی بستیاں ویران ہوئیں۔ کتنے گھر برباد ہوئے۔ کتنی سہاگنوں کا سہاگ اجڑا۔ کتنے بچے یتیم ہوئے۔ سب حسابِ سود و زیاں سے باہر تھا۔ گیرسن انجینئر کا تبادلہ اودھم پور ہو گیا تھا۔ اُس پر کیا گزری کچھ خبر نہ تھی۔ حالات بدلے۔ میں ریلوے اسٹیشن پر گیا۔ وہی سناٹا تھا۔ جیسے طوفان کے گزر جانے کے بعد کی خاموشی۔
میں پیڑ تلے بنچ پر بیٹھ گیا۔ مجھے لگا،پیڑ مجھ سے پوچھ رہا ہے:
“وہ نہیں آئی؟۔”
میں چپ تھا۔ ٹی اسٹال سے بیرا میرے لیے چائے لے کر آیا۔ اس کی آنکھوں میں سوال تھا مگر میں چپ تھا۔میرا ٹرانسفر ہو گیا۔ چھٹی لے کر ناگپور گیا۔ اس کے بتائے ہوئے پتے پر پہنچا۔ پتہ چلا وہ لوگ جنگ کے بعد پنجاب چلے گئے۔ اب بھی میں کبھی جموں جاتا ہوں تو دہلی تک کا سفر ہوائی جہاز سے کرتا ہوں اور پھر ٹرین سے پٹھان کوٹ پر اتر جاتا ہوں۔ اسٹیشن اب بڑا ہو گیا لیکن وہ پلیٹ فارم باقی ہے اور پیڑ بھی، بنچ بھی اور ٹی اسٹال بھی۔ پیڑ تناور اور گھنا ہو گیا ہے۔ درخت کی بوڑھی چھال کی طرح، اس نقش پر بھی جھریاں پڑ چکی ہیں۔ میں اس پر ہاتھ پھیرتا ہوں اور اس سے پوچھتا ہوں…. “وہ آئی تھی؟۔”
پیڑ کہتا ہے….” ہاں! آئی تھی۔۔۔”
میں پوچھتا ہوں” کیسی ہے وہ۔؟ خوش ہے؟ کچھ کہا اس نے؟
پیڑ کہتا ہے…” ہاں! پوچھ رہی تھی، تم آئے تھے۔؟”
میں بنچ پربیٹھا بیٹھا پلیٹ فارم کو دیکھتا رہتا ہوں اور سوچتا ہوں:
شجیع آج تنہا چمن میں گئے تھے
بہت ان کے نقش قدم یاد آئے

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply