سٹرابری/تحریر ؛ربیعہ سلیم مرزا

سمیرا کہنے لگی
“مردوں کے پاس ایک کہانی کو چھپانے کیلئے کتنی کہانیاں ہوتی ہیں ۔اور ہم عورتوں کے پاس ہزار درد چھپانے کا بس ایک ٹوٹکا ۔
” اینویں ۔۔امی یادآگئی تھیں ”
میں سمیرا کی بات سُن کر چپ رہی، میرے دائیں ہاتھ میں چار کلو کا تربوز تھا ۔
وہ بولتی رہی۔۔
” ہم سیدھی سادی عورتوں کو مرد بھی ایسے گھُنے ملتے ہیں جن کی ساری زندگی خود کو بگاڑنے میں گزری ہوتی ہے اور ساری دنیا چاہتی ہے کہ ہم انہیں اور اس گھر کو سنواریں ۔”

مجھے پنجابی کی ایک کہاوت یاد آگئی جو اِن مردوں کے بارے میں تھی جن کی پیدائش پہ دیواریں کانپتی ہیں۔میں کہاوت سوچ کر ہنس دی ۔
سمیرا کو میرا اس طرح ہنسنا بُرا لگا، تُنک گئی ۔
تم ہنس رہی ہو میرا خصم گھر میں ایسے تنتناتا پھرتا ہے جیسے بچے ہوئے شوربے کا اکیلا آلو ہو ۔”
ہم عورتیں بھی ناں ۔
مرد کو سرہانے کا سانپ سمجھتی ہیں ۔سانپ تو ایک بار ڈستا ہے ۔
یہ تو اٹھتے بیٹھتے سوتے جاگتے سوبار ٹوکتے ہیں ۔
اور ہم عورتیں اخراجات سے پیسے ٹُک ٹُک کر ایک جوتی ایک سوٹ کا خواب کتنی بار دیکھتی ہیں ۔

سمیرا کچھ کہہ رہی تھی مگر میں کہاں سن رہی تھی ۔
میرے چاردیواری میں تو اس کے گھر سے زیادہ حبس تھا۔۔
ابھی جب گھر سے نکلی تو نرم ہَوا ہنس کر بغل گیر ہوئی تھی۔پہلی بار گھٹن گھبرا کر دہلیز کے اندر ہی رہ گئی ۔۔۔
“بچوں کو سکول بھیج کر صفائی کرتے برتن دھوتے گیارہ بج گئے تھے ”
سمیرا پتہ نہیں یہ کیوں بتارہی تھی ،میں نے بس “ہوں “کہہ دیا ۔

میں اسے بتاتے بتاتے رہ گئی کہ آج میں نے فرش دھوتے ہوئے گیلے پیروں کو زور سے جھٹکا تو پرانی پلاسٹک کی چپل میں بھی پاؤں خوبصورت لگنے لگے تھے ،میرے پائینچے ابھی بھی گیلے تھے۔
“چار دن بعد عید ہے، بچوں کے کپڑے جوتے تو شاید بن جائیں ۔۔میرے سوٹ کی گنجائش نہیں نکلے گی۔ ”
سمیرا کی حسرت اور میری خواہش سگی بہنیں نکل آئیں ۔ہم لوئر کلاس عورتوں کا بہناپہ بھی محرومیوں سے جڑا ہوتا ہے ۔
“لیکن نئی چپل ضرور لینی ہے، خالد سے کہوں گی ”

سمیرا کے چہرے کی مان بھری مسکان میرے دل کو چھیڑ گئی۔
مجھے یاد آیا ،نئے جوتے سے پیر نکالیں تو ہوا گدگدا کے گزرتی ہے ۔اس لمحے لگتا ہے جیسے کسی نے تلوا چوم کے چھوڑا ہو ۔

” سٹرابری، خربوزے ۔۔۔دو سو روپے کلو “ریڑھی والے نے میرے ہاتھ میں تربوز دیکھ کر صدا لگائی ۔ایک ہی ریڑھی پہ لال پیلا رنگ،مجھے برسوں پیچھے لے گیا۔۔۔
سرخ اور کچا پیلا رنگ مجھے کتنا پسند تھا۔میرا مایوں کا سوٹ بھی اسی رنگ کا تھا ۔سوٹ سے اک اور یاد آجُڑی، شادی سے پہلے جب کوئی فرمائش کرتی امی کہتیں ۔
“اپنے گھر جاؤ گی تو جتنی چاہے فرمائشیں کرنا سب پوری ہوں گی۔ ”

اگر سبزی میں سے پیسے بچے تو واپسی پہ کلو تو نہیں ۔۔۔ایک خربوزہ ضرور لوں گی۔مٹھی میں مسکے ہوئے پیسوں پہ میری پکڑ اور سخت ہو گئی ۔۔۔آنکھ بھگو کر یاد پُھر سے اُڑ گئی۔
سمیرا کہہ رہی تھی
“کوئی بات نہیں، کبھی تو حالات بدلیں گے۔۔۔خالد اتنی محنت کرتے تو ہیں ۔۔میں بھی سوچتی ہوں ہمارا وقت بھی آئے گا۔ ”
میں تھک گئی،میں رک گئی ۔تربوز والا شاپر زمین پہ رکھ دیا
ہم عورتیں ذمہ داریاں نبھاتے ہمیشہ یہی سوچتی ہیں کہ کبھی ہمارا وقت بھی آئے ۔اور وقت آجاتا ہے ۔
میں نے سمیرا کو کہا نہیں،اس کا خواب زندہ رہنے دیا ۔
تربوز والا  شاپر اٹھا کر سبزی والے کی دکان پہ جارکھا ۔
“باجی ۔توریاں پھس جان گئیاں،تربوز تھلے رکھ لیں ”
میں تربوز والا شاپر پاؤں کے پاس رکھ لیا
“کریلے خالد کو پسند ہیں ۔۔کریلے کتنے کے کلو ہیں “؟
سمیرا نے مجھے بتا کر  دکاندار سے پوچھا
“ڈھائی سو ”
“خالد خود بھی تو کڑوے کریلے ہی ہیں ”
سمیرا نے مسکا کر سرگوشی کی  اور دکاندار سے کہا
“دو سو کے حساب سے کلو دیدو ”
دونوں بھاؤ میں الجھ گئے۔

میں چپ چاپ کھڑی دیکھتی رہی ۔سمیرا نے پچیس روپے جیت لئے خوشی سے مجھے دیکھا ۔
امی کبھی مجھ سے خوش ہوتیں تو مجھے کہتیں
“دیکھنا ایک دن میری بیٹی کو شہزادہ لینے آئے گا۔۔تیری سب من کی مرادیں پوری ہوں گی “۔
“شہزادہ ۔”
ماں کو سوچ کر حلق پھر سے نمکین ہوگیا ،نصیب لکھنے والے سے بس اتنا گلہ ہے کہ ضبط والے آنسو ہی میٹھے دے دیتا دل سے ہوکر گزرتے ہیں ۔
“باجی، آج گوبھی سستی ہے۔۔تول دوں “؟
گوبھی آلو لہسن پیاز ٹماٹر خرید لئے،چلی تو پتہ چلا،ایک خربوزے کے پیسے بھی نہیں بچے ۔پچاس روپے میں پاؤ اسٹرابری مل جائے گی ۔اتنی بڑی بڑی اسٹرابری ہے ایک سے ہی پورا منہ بھر جائے ۔
آنسوؤں کے دانت کھٹے ہوجائیں۔۔

ایک ہاتھ میں تربوز اور دوجے ہاتھ میں سبزی تھامے اسٹرابری کی ریڑھی پہ رُکی تو پچاس کا نوٹ سبزی والے شاپر کی وجہ سے زیادہ مسل گیا تھا ۔اس نے نوٹ کو غور سے دیکھا ۔ منہ بن گیا۔۔۔بنا کچھ کہے اسٹرابری تول دی،میں نے اسے بھی سبزی والے شاپر میں رکھ لیا ۔چلتے ہی سمیرا کہنے لگی
“میں بھی خالد سے  اسٹرابری کا کہوں گی،پھل وہی لاتے ہیں ”
میں بازو لٹکائے چلتی رہی ۔سوچتی رہی کہ میں کیا کیا کہوں  گی؟
خیال اندروں اندریں مدول رہا تھاکہ
بچوں کے شیمپو کے ساشے لینے تھے۔اسٹرابری لے لی ۔
سمیرا کا گھر آگیا ۔اس کا تربوز اسے دیا تو جیسے کندھے سے بوجھ اُتر گیا ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

تھکی آنکھوں سے اس کی دہلیز سے اپنے گھر کے راستے کو ماپا ۔ٹوٹی سڑک پر میرے ہر قدم پہ ضرورتوں کے دیئے ایک ایک کر کے بُجھ رہے تھے!

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply