دھاگوں سے بُنی کائنات/ محمد شاہ زیب صدیقی

موجودہ سائنس کے مطابق اگر ہماری کائنات کو چلانے والی فورسز کو انگلیوں پر گِنا جائے تو ان کی تعداد چار ہے:
پہلی کو ہم گریوٹی کہتے ہیں، جس نے کائنات میں ہر شے کو تھام رکھا ہے، اس کے بغیر نہ ستارے ہوتے اور نہ ہی سیارے ہوتے اور نہ ہی کائنات میں بھاری عناصر بن پاتے، جب بھاری عناصر نہ بنتے تو زندگی کا وجود بھی نہ ہوتا، کائنات تاریک ہوتی   اور ہائیڈروجن ہیلیم کے بادلوں پر مشتمل ہوتی۔
دوسری آفاقی قوت کو برقی مقناطیسی فورس کہتے ہیں۔یہ وہ قوت ہے جو چارجڈ پارٹیکلز کے مابین ہوتی ہے، ہمارے نظامِ کائنات اور جدید ٹیکنالوجی کو چلانے میں اس کا کلیدی کردار ہے۔تیسری پُراسرار قوت سٹرانگ نیوکلئیر فورس ہے، ایک چھوٹی سی جگہ (نیوکلئیس میں) ایک ہی چارج کے حامل کئی پروٹانز کیسے اکٹھے رہ رہے ہوتے ہیں؟ اسی فورس نے انہیں رسی کی طرح باندھ رکھا ہوتاہے۔
جبکہ چوتھی فورس ویک نیوکلئیر فورس ہے، جسکی وجہ سے بِیٹا ڈیکے ہوتا ہے اور تابکاری خارج ہوتی ہے۔

بگ بینگ کے موقع پر کائنات کی یہ چاروں بنیادی فورسز یکجا تھیں لیکن پھر اِس سانحے کے اگلے ہی لمحے (ایک سیکنڈ کے اربویں حصّے میں) کائنات کے قوانین ترتیب پانا شروع ہوئے اور یہ فورسز ایک ایک کرکے علیحدہ ہوئیں لہٰذا آج جب ہم کوانٹم لیول اور بڑے لیول پر ہونے والے مظاہر فطرت کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں تو ہمیں یکسر مختلف ایکویشنز/قوانین کا سہارا لینا پڑتا ہے، ہم سیاروں کے مدار کو سمجھنے والی مساواتوں کے ذریعے نیوکلیئس کے گرد الیکٹرانز کے مدار کو نہیں سمجھ سکتے، یا پھر ہم کوانٹم فزکس کے اصولوں سے کائنات کے دو کناروں پر بیک وقت اپنی موجودگی ظاہرنہیں کرسکتے۔ یہی وجہ ہے کہ سائنسدان کئی دہائیوں سے ایسی عالمگیر مساوات کی تلاش میں ہیں، جس میں ہم کُل کائنات کو سمو کر ہر لیول پر ہونے والے واقعات کو سمجھ سکیں۔ کائنات کے سربستہ رازوں کی  کھوج کے اِس انوکھے سفر کو ہم سٹرنگ تھیوری کے نام سے جانتے ہیں۔

یہ مفروضہ دعویٰ کرتا ہے کہ ہماری کائنات ایٹمی اینٹوں کی بجائے انرجی کے دھاگوں سے بنی ہوئی ہے یعنی “بنانے” والے نے انتہائی لطیف “ون ڈائمنشنل دھاگوں” سے ہماری کائنات کا جال بُنا۔ ان دھاگوں کے مختلف فریکوئنسی سے وائبریٹ کرنے پر مختلف سب ایٹامک پارٹیکلز (کوراکس، لیپٹان، گلُوآن اور الیکٹران وغیرہ) بنتے ہیں،جو کہ کائنات کے بلڈنگ بلاکس (ایٹمی اینٹیں) ہیں۔ یہ دھاگے اتنے چھوٹے ہیں کہ ان کا براہ راست مشاہدہ ہم کبھی نہیں کرپائیں گے مثلاً اگر ہم کسی ایٹم کو قابل مشاہدہ کائنات (93 ارب نوری سال) جتنا بڑا کردیں تو اس میں ایک دھاگے کا سائز زمین پر موجود کسی درخت جتنا ہوگا۔

سٹرنگ تھیوری کی کہانی صرف دھاگوں پر نہیں رُکتی بلکہ یہ آگے بڑھ کر بقیہ جہتوں کے متعلق بھی پیشنگوئی کرتی ہے، اگرچہ فی الحال اضافی جہتوں کا خیال سائنس فکشن جیسا لگتا ہے، لیکن یہ کئی دہائیوں سے فزکس میں سنجیدہ مطالعہ کا موضوع رہا ہے۔سٹرنگ تھیوری کائنات میں 10 ڈائمنشنز کا دعویٰ کرتی ہے، ان میں سے تین جہتوں (اونچائی، لمبائی اور چوڑائی) کو تو ہم دیکھ سکتے ہیں، جبکہ چوتھی جہت (وقت) کو محسوس کرسکتے ہیں، تو پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ بقیہ چھ جہتیں کہاں موجود ہیں؟ سٹرنگ تھیوری کے ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ 6 جہتیں مُڑی ہوئی ہیں، جس وجہ سے ہمیں دکھائی نہیں دیتیں۔ یہ عجیب کانسپٹ تھا جو سٹرنگ تھیوری نے دیا۔ ان جہتوں کے مُڑنے کا کیا مطلب تھا؟ اس کو ایک مثال سے سمجھیں، فرض کریں ایک صفحہ آپ کے پاس موجود ہے، صفحہ دراصل دو جہتی ہوتا ہے کیونکہ اس میں لمبائی اور چوڑائی ہوتی ہے لیکن موٹائی نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے، جس وجہ سے ہم اسے 2 ڈائمنشنل مان لیتے ہیں۔ اب آپ صفحے کو رول کریں تو دور سے دیکھنے پر آپ کو صفحہ ون ڈائمنشنل لگے گا کیونکہ صفحے کی چوڑائی بھی ختم ہوجائے گی اور اب لمبائی ہی رہ جائے گی، لہٰذا اگر مان لیا جائے کہ کائنات کی 10 جہتیں ہیں جن میں سے وقت کو نکال دیا جائے تو فزیکلی نو جہتیں رہ جاتی ہےتو ان میں سے تین جہتیں فلیٹ ہیں جبکہ 6 جہتیں سُکڑی سمٹی (curled) ہیں جس وجہ سے ہمارے سامنے تین جہتیں ہی موجود ہوتی ہیں لیکن سٹرنگ تھیوری کی ریاضی ہمیں بقیہ جہتوں کی موجودگی کا اشارہ فراہم کرتی ہے۔

یہاں یہ سوال اہم ہے کہ اگر ہماری موجودہ ٹیکنالوجی اتنی ہی بیکار ہے کہ اسٹرنگ تھیوری کے دعوؤں کو ثابت نہیں کرسکتی تو اس پر ریسرچ کیوں کی جارہی ہے؟یہ درست ہے کہ اس کو براہ راست تجربہ گاہوں میں جانچنا ممکن نہیں لیکن اس کے کئی ان ڈائریکٹ ثبوت ہمیں مل سکتے ہیں مثلاً اسٹرنگ تھیوری کے ماہرین کا ماننا ہے کہ گریوٹی کائنات کی سب سے طاقتور فورس ہونی چاہیے تھی لیکن ہمیں یہ سب سے کمزور محسوس ہوتی ہے، آپ ایک مقناطیس کے ذریعے زمین پر گرا دوسرا مقناطیس اُٹھاتے ہیں تو زمین اتنی دیوہیکل ہونے کے باوجود اپنی گریوٹی کی طاقت لگا کر اُس مقناطیس کو ایسا کرنے سے روک نہیں پاتی،اس کا مطلب ہے کہ ننھے سے مقناطیس کی قوت زمین کی گریوٹی سے بھی زیادہ ہے، اس کی کیا وجہ ہے؟

اس کا جواب اسٹرنگ تھیوری کے ماہرین ایسے دیتے ہیں کہ گریوٹی کا زیادہ تر حصہ دیگر ڈائمنشنز میں ضائع ہوجاتا ہے جس وجہ سے ہم جن جہتوں میں موجود ہیں وہاں گریوٹی کی قوت انتہائی کمزور محسوس ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب ہم لارج ہیڈران کولائڈر جیسے دیوہیکل پارٹیکل ایکسلریٹرز میں بڑے ذرّات کے تصادم سے دیگر چھوٹے چھوٹے نئے ذرات کو بناتے ہیں تو اس دوران تجزیہ کیا جاتا ہے کہ کیا نتائج ہماری  توقعات کے مطابق ہی ہیں یا نہیں کیونکہ اگر کبھی اس تصادم کے نتیجے میں پیدا ہونے والی  انرجی ہماری توقعات سے کم ہوئی یا ذرات بننے کا تناسب کم ہوا تو اس کی ایک توجیہہ یہ ہوسکتی ہے کہ کچھ انرجی کسی اضافی ڈائمنشز کے پارٹیکلز بننے میں ضائع ہوگئی۔ایسا کچھ مل جانا اسٹرنگ تھیوری یا دیگر ڈائمنشنز کا اِن ڈائریکٹ ثبوت ہوگا۔

سٹرنگ تھیوری کا ایک اور دلچسپ پہلو فزکس میں نام نہاد “فائن ٹیوننگ مسئلے” کو حل کرنے کی صلاحیت ہے۔ اس مسئلے کے ممکنہ حل کو سمجھنے سے پہلے ہم جانتے ہیں کہ فائن ٹیوننگ پرابلم کیا ہے؟

اگر ہم کائنات کو دیکھیں تو یہ ایک خاص نظام کے ماتحت چل رہی ہے، جیسے کسی نے انتہائی باریکی سے اسے ڈیزائن کیا ہو مثلاً اگر ہماری کائنات میں گریوٹی کی قوت تھوڑی سی زیادہ ہوتی تو سب کچھ کولیپس کرجاتا، اگر ڈارک انرجی زیادہ ہوجاتی تو پوری کائنات کے چیتڑھے اُڑ جاتے،اوپر ذکر کی گئی چاروں بنیادی فورس کی شدت میں معمولی سی کمی بیشی ہماری کائنات کا نقشہ بدل سکتی تھی، اسی طرح اگر فزیکل ڈائمنشنز تین سے زیادہ ہوتیں تو سیاروں کا مدار شدید اَن سٹیبل ہوتا اور کائنات میں نظام شمسی جیسے نظام نہ بن پاتے، دیگر باریکیوں میں جانے کو چھوڑتے ہیں اور چاند کی ہی بات کرلیتے ہیں، اگر چاند موجود نہ ہوتا تو زمین پر زندگی ممکن نہ ہوپاتی یا پھر ڈائناسارس کے خاتمے کے لیے زمین پر آنے والا پتھر ہی عین اُسی مقام پر نہ گرا ہوتا جہاں چھ کروڑ سال قبل گِرا تھا تو زمین انسانوں جیسی “ذہین زندگی” سے محروم رہتی۔ آسان الفاظ میں کہا جائے تو اِن تمام مظاہر فطرت میں سے کسی ایک میں بھی معمولی سی اونچ نیچ ہوتی تو ہمارا وجود نہ ہوتا، جس سے محسوس ہوتا ہے کہ کائنات کو بہت خوبصورتی سے fine tune کیا گیا لیکن سائنس تاحال اس فائن ٹیوننگ کی وجوہات نہیں جان پائی، یہ ایسے ہی ہے کہ آپ کسی شہر میں داخل ہوں، وہاں آپ کا استقبال کرنے کا مکمل انتظام موجود ہو، نئی سڑکیں، ہسپتال، سکول، دکانیں بنی ہوں مگر ان کو چلانے والا اور بنانے والا کوئی موجود نہ ہو، آپ شہر میں اکیلے گھوم پھر رہے ہوں، آپ یقیناً اس سارے نظام کو دیکھ کر حیران و پریشان ہونگے، فائن ٹیوننگ پرابلم کچھ ایسا ہی ہے (اس وقت مذہب سے ہٹ کر سائنسی تناظر میں اس سوال کا جواب جاننے کی کوشش کی جارہی ہے)۔ اسٹرنگ تھیوری اس کا ممکنہ جواب یوں دیتی ہے کہ ہماری کائنات ایک ہائیپر سپیس میں موجود ہے جہاں مختلف بُلبلوں میں دیگر کئی کائناتیں قید ہیں اور ہر کائنات کے اصول اور وہاں ہونے والے واقعات دوسرے سے مختلف ہیں، ہم بھی ایک بُلبلے/کائنات میں قید ہیں اور ہم نے بقیہ کائناتوں کا مشاہدہ نہیں کررکھا جس وجہ سے ہمیں اپنی کائنات ہی فائن ٹیونڈ لگتی ہے، ہم اگر کسی اور کائنات میں موجود ہوتے تو وہاں کے اصول ہمیں فائن ٹیونڈ لگتے، یا ممکن ہے کہ ہماری کائنات میں جیسے تیسے زندگی پنپ گئی ہے لہٰذا یہ ہمیں فائن ٹیونڈ ہی لگتی ہے (اگر آپ کو اپنے علاقے سے باہر کسی دوسرے ملک یا شہر کا علم نہ ہو تو آپ کے لئے اپنا علاقہ ہی جنت سے کم نہیں ہوگا)۔ آسان الفاظ میں کہا جائے تو سٹرنگ تھیوری ملٹی ورس کا نظریہ پیش کرکے اس مسئلے کو سمیٹنے کی کوشش کرتی ہے لیکن یہ بھی ممکن ہے کہ ملٹی ورس کی کھوج اس مسئلے کو مزید الجھا دے۔

جہاں اسٹرنگ تھیوری سائنس کے اہم سوالات کو حل کرنے کی کوشش کرتی ہے، وہیں اس کے ناقدین بھی بہت ہیں کیونکہ سائنس میں کسی نظریے کا صرف مضبوط ریاضی رکھنا ضروری نہیں ہے، اس کے تجرباتی ثبوت بھی میسر ہونے چاہئیں ، لیکن اسٹرنگ تھیوری تجربہ گاہ میں ہاتھ کھڑے کر دیتی ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ کائنات کی بنیادی قوتوں کو یکجا کرنے کے لئے لوپ کوانٹم گریوٹی اور سپر سمیٹری جیسے نظریات کے ہوتے ہوئے اسٹرنگ تھیوری پر ہی فوکس رکھنا ہمیں اصل سائنس سے دور لے جاسکتا ہے لیکن ناقدین کی رائے کے باوجود یہ ایک حقیقت ہے کہ اسٹرنگ تھیوری طبیعیات کے میدان میں دلچسپ اور فعال شعبوں میں سے ایک ہے۔ یہ خود کو درپیش چیلنجز کے باوجود کائنات کے بارے میں ہماری سمجھ پر گہرا اثر ڈال سکتی ہے کیونکہ اس تھیوری میں اتنی قابلیت موجود ہے کہ یہ بگ بینگ سے پہلے اور بلیک ہول کے مرکز تک جھانکنے کی راہ ہموارکرسکے، یہی وجہ ہے کہ ہم کئی بار فلکیاتی مسائل سے نپٹنے کے لئے سٹرنگ تھیوری کی جانب دیکھتے بھی دکھائی دیتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

میرے ذاتی خیال میں مستقبل کی سائنس کا رُخ متعین  کرنے میں یہ اہم کردار ادا کرسکتی ہے۔ اگر ہم آج سے دو سو سال پیچھے چلے جائیں تو اُس وقت بلیک ہول بھی ایک مفروضے اور کاغذ پر لکھی مساواتوں کی پیشنگوئی سے پیدا ہونے والے خیال سے زیادہ کچھ نہیں تھا لیکن آج ہم دو بلیک ہول کی تصاویر لے کر انہیں اپنے موبائل فونز کے وال پیپرز کا حصّہ بنا چکے ہیں، بلیک ہولز کی مدد سے کشش ثقل کی لہروں کو دریافت کرچکے ہیں، جن کی پیشنگوئی سو سال قبل آئن سٹائن نے کی تھی یعنی سائنس ایسے ہی کام کرتی ہے بہت سے دعوے جو آج مفروضے ہیں دو تین سو سال بعد ان کے ڈائریکٹ یا اِن ڈائریکٹ ثبوت ملنا بعید از قیاس نہیں ۔ ہم اُس دور میں  جی رہے ہیں جہاں انسان زمین سے نکل کر مریخ پر جانے کے لئے کمربستہ ہے، سٹارشاٹ پراجیکٹ کے ذریعے اپنی اولین نشانی (سیٹلائیٹس) پڑوسی ستارے پروکیسما سینٹوری تک محض بیس سال میں پہنچانے کے لئے پُرعزم ہے، ایسے ہنگامہ خیز دور میں مستقبل کی سائنس کیا رُخ اختیار کرلے، یہ وقت ہی بہتر بتا سکتا ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply